kohsar adart

یوسفی کے ’’ چراغ تلے‘‘ تقلیب و تصرف کا اُجالا(قسط نمبر 3)

آب آہن تاب

مکررعرض ہے کہ یوسفی کے ہاں وارد الفاظ و تراکیب ایسے ہیں کہ جن سے سچی لطف اندوزی کے لیے ان الفاظ و تراکیب کے پس منظر سے واقفیت ناگزیر ہے۔ مثلاً بشریٰ رحمان کی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھی گئی تحریر میں وہ ترکیب ’ آب آہن تاب‘ لائے ہیں۔ اب جس تقریب سے یہ ترکیب برتی گئی ہے، واقف ِ حال اسے پڑھ کر لُطفاً مسکرائے گا اور نا واقف تکلفاً۔
لغت نگاروں اور فرہنگ نویسوں کے مطابق’ آب آہن تاب‘ کا اطلاق اس پانی پر ہوتا ہے جس میں اصلاح کے لیے لوہا گرم کر کے بُجھاتے ہیں۔ نفاست پسند میرانیس کے تذکرہ نگااروں کے مطابق:
اُن کے پینے کا پانی پتھرکے ایک کاسہ نما برتن میں بھرا جاتا اور اس میں تپتے ہوئے لوہے کا ٹکڑا ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ برتن’ آہن تاب‘ کہلاتا تھا ۔ اس کے پیندے میں ایک سوراخ تھا جس سے ٹکپتا ہوا پانی نیچے لگے برتن میں جمع کرلیا جاتا ۔ انیس یہی پانی پیتے تھے۔ اس ’ آب آہن تافتہ‘ کے بہت سے طبی فوائد تھے۔‘(2)

یوسفی کا طنز و مزاح

وزیر آغا(1922-2010) نے رونالڈ ناکس(Ronald Knox) کےحوالے سے لکھا ہے:۔
’ مزاح نگار ہرن کے ساتھ بھاگتا ہے جبکہ طنز نگار کتوں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے۔(3)
اگر ایسا ہے تو ہمارا ممدوح آہوانِ الفاظ کے ساتھ قلانچیں ہی نہیں بھرتا، مرغانِ معانی کے ساتھ فضائوں میں اُڑتا اور بحرِ معانی میں غوّ اصی بھی کرتا ہے۔ جہاں تک طنز کی بات ہے ، تو مشتاق احمد یوسفی طنز کرتے ہیں تبرا نہیں کرتے، طعنہ نہیں دیتے۔ حق یہ ہے کہ وہ تضحیک والتفات میں امتیاز کے قائل ہیں ، وہ دیکھ کر مسکرانے کے بجائے مسکرا کر دیکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

تحریف ،تصرف وتقلیب

مشتاق احمد یوسفی کی ہنر مندی اور چابک دستی کا ایک شہکار ان کے ہاں حرف ولفظ ،محاروں ، کہاوتوں ،ضرب امثال، اشعار اور تراکیب میں تحریف ، تصرف ، تغییر، تقلیب اور تبدیلی کا عمل ہے۔ وہ اس ہنر کو اس خوبی سے آزماتے ہیں کہ لفظ و معنی یہ کہتے ہوئے مہک اٹتھے ہیں :۔

کہ گُل بدستِ تواز شاخِ تر ماند

گو کہ تحریف یا تقلیب کی تیکنیک یوسفی سے پہلے بھی برتی جا رہی تھی، مگر مشتاق احمد یوسفی نے اس تیکنیک کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا ہے۔’ چراغ تلے‘‘ کے ساتھ اٹھنے والے پہلے قدم سے لیکر’ شام شعر یاراں‘ سجانے تک ، اس تیکنیک کے نظائر موتیوں کی صورت بکھرے ہوئے ہیں۔ اندازہ یہی ہوتا ہے کہ وہ لفظ و معنی سے عبارت زندگی کے ہر واقعے کو چشمِ تقلیب سے دیکھتے ہیں۔

اس سے قبل کے ’ چراغ تلے‘ کے تقلیبی اُجالے کا جائزہ لیں، ضروری ہے کہ یوسفی کی اس تیکنیک پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال لی جائے ۔

 

کڑی تپسیا اور ’ پال‘ و’پُخت‘ کے مراحل سے گزر کر یوسی کی جو پانچ کتابیں ظہور میں آئیں ۔ ان میں سے دو کاتابوں کا سرنامہ اس فن سے عبارت ہے۔اول ’زرگزشت‘ اور دوم ’ شام شعرِ یاراں‘۔ ان دونوں تراکیب میں فقط یک لفظی تبدیلی نے انہیں موضوع کی مناسبت سے پُرلطف بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ سرگزشت کو محض اس لیے ‘‘ زر گزشت ‘ پکار گیا کہ یہ مصنف کی ’’ بینک بیتی‘ ہے۔ جب کہ ’ شعرِ یاراں‘ اصلاً ’ شہرِ یاراں‘ کی تقلیب ہے۔ کتاب کا یہ نام اس لیے قرار پایا کہ یہ احباب کی مختلف کتابوں کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھے گئے مضامین کا مجموع ہے۔(جاری ہے)

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More