kohsar adart

کشمیری زبان و ادب ۔۔۔ اجمالی جائزہ

تحریر : امجد بٹ (مری)

کسی بھی زبان و ادب کی تاریخ جاننے سے پہلے زبان کے ارتقاء اور قومی زبان کی خصوصیات کا علم ہونا ضروری ہے۔ کشمیری زبان و ادب کے مطالعے سے قبل زبان کے مذکورہ بالا پہلوؤں کا مختصر جائزہ لینا پڑے گا 

زبان:-

انسان کی جو دو خصوصیات اُسے حیوانوں سے ممتاز یا اشرف بناتی ہیں ان میں زبان یعنی قوّتِ گویائی کو فضیلت حاصل ہے۔ زبان ہی انسانوں کے مابین افہام و تفہیم کا ذریعہ ہے۔ انسان نے غاروں اور بلندیوں سے اتر کر جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اُس میں زبان کا بنیادی کردار ہے۔ پہیے کی دریافت و ایجاد سے خلا میں کمندیں ڈالنے تک انسان زبان ہی کا رہینِ مِنّت رہا ہے۔ اس حیوانِ ناطق کی دوسری خصوصیت قوّتِ غور و فکر ہے۔
قُرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے "کان الناس امتہ واحدہ” اگر اس آیت مبارکہ کی روشنی میں تمام انسانوں کو ایک اُمّت اور دُنیا کی اقوام اور قبائل کو ایک شخص کی اولاد مان لیا جا ئے تو یہ ماننا بھی لازم ہو جاتا ہے کہ دُنیا میں جس قدر زبانیں بولی جاتی ہیں یہ کسی ایک زبان کی شاخیں ہیں۔ جب اولادِ آدم ایک نسل اور ایک خاندان تھے تو ان کی زبان بھی ایک ہی تھی۔
تاریخ شاہد ہے کہ انسان جبلِ جُودی سے اُتر کر تلاشِ رزق میں مختلف سمتوں میں پھیلا تو رنگ و بُو کے اختلاف کے باعث اس کی زبان میں فرق آتا چلا گیا لیکن بائیبل کی ایک روایت کے مطابق۔۔۔۔

شہر بابل کے بغاوت منش لوگوں نے آسمانوں (خُداوند) تک پہنچنے کے لئے بلند و بالا مینار تعمیر کرنے شروع کر دیے تو خداوند نے ان لوگوں کے بدنیتی پر مبنی اتحاد کو توڑنے کے لیے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈال دیا، اس طرح ان کا منفی اتحاد پارہ پارہ ہو گیا اور کوئی فرد دوسرے کی مکمل بات سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔ بے زبانی کا عذاب اہلِ بابل کے اتحاد کے خاتمے کا سبب بنا ۔

(ماہرینِ لسانیات لفظ بابل کی توجیہ میں بائیبل کے باب "پیدائش” آیات 9 تا 11 کی روشنی میں” بابل” کا مفہوم "بڑبڑانا” بھی بیان کرتے ہیں ۔)
اگر درج بالا روایت کو نہ بھی تسلیم کیا جائے تو ہمیں کم از کم یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ زبان کے بغیر انسانی معاشرے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ آج جہاں انسان نے دیگر علوم میں خاطر خواہ ترقی کی ہے وہاں ہم علمِ لسانیات میں ترقی کی بدولت زبان کے بارے ميں درج ذیل تعریف بیان کرنے کے قابل ہو گئے ہیں :

” زبان ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے ایک جاندار اپنی ذہنی کیفیت یا بات کو دوسرے جاندار کے ذہن میں منتقل کرتا ہے”

لیکن جب یہی زبان (بولی) حیوانوں کے بجائے انسانی استعمال میں ہو تو یہ تبدیلی واقع ہو گی :

"زبان ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے بول یا لکھ کر انسان اپنے ارادے، جذبات، احساسات ، تاثرات اور خیالات کو دوسرے انسان کے ذہن میں منتقل کرتا ہے”

اگرچہ کوئی زبان بولنے ، سننے ، لکھنے اور پڑھنے سے مکمل وجود کی حامل بنتی ہے لیکن لکھنے پڑھنے کے بغیر یہ صرف بولی کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے جبکہ انسان اور حیوان حرکات و تاثرات کے ذریعے بھی ابلاغ کرتے ہیں۔ انسان نے مختلف چیزوں، حرکات اور تاثرات کو لفظوں کا معنوی لباس خود پہنایا ہے اور یہ سب انسان کی معاشرت کے صدیوں پر مشتمل ارتقاء کا نتیجہ و ثبوت ہے۔

ہر بچہ ماں کی گود سے سیکھنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور ابتدائی ماحول کی زبان ہی اُس کی مادری زبان کہلاتی ہے۔

ہر زبان کا اندازِ بیاں اور لفظی ڈھانچہ دوسری زبانوں سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا ہر انسان کے لیے وہی زبان آسان اور شیریں ہوتی ہے جو وہ اپنی ماں کی گود یا ابتدائی ماحول میں سیکھتا ہے۔ جب انسان مخاطب کی زبان نہ جانتا ہو تو جسمانی اعضاء کے ذریعے اظہارِ خیال کرتا ہے۔ اسے اشاروں کی زبان ( sign or body language ) تو کہا جا سکتا ہے لیکن زبان نہیں ۔

قومی زبان :-

قومی زبان نہ صرف کسی قوم کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت ، علوم اور روایات کی محافظ ہوتی ہے بلکہ قومی ترقی اُس کی لسانی ترقی سے وابستہ ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی زبان اور معیاری علم و ادب میں خود کفیل ہو گی اُس کی لائبریریاں مسلسل لوگوں کی ذہنی آبیاری کا باعث بن رہی ہوں گی۔ آج دُنیا کی ترقی یافتہ اور مقتدر قوموں کا عروج و اقتدار ان کے علم و ادب اور ضخیم کتب خانوں سے پھوٹنے والے شعور و آگہی کے چشموں کا مرہونِ مِنّت ہے۔ کمزور اور بے حیثیت زبان والی قوم کو ترقی یافتہ زبانوں والی قوموں کے ماتحت یعنی ذہنی غلامی میں رہ کر جینا پڑتا ہے اور اُنہی کے عادات و اطوار اور نظامِ زندگی کی پیروی کرنا پڑتی ہے۔ ان حالات میں مِلّت کا مُنتشر شیرازہ ایک دھاگے میں پرونا اس وقت زیادہ آسان ہوتا ہے جب فرقوں، طبقوں اور مختلف سیاسی گروہوں میں بٹی ہُوئی قوم ایک زبان استعمال کر رہی ہو۔

کشمیری زبان کا جغرافیائی پس منظر :-

اہلِ وادی اپنے وطن کو "کشیر” اور اہلِ کشمیر کو "کاشر” کہتے ہیں۔ اس زبان کے بولنے والے جموں کشمیر ، مظفر آباد ، چکار، میر پور، گِلگت بلتستان کے علاوہ نیپال، ہندوستان ، برطانیہ اور پاکستان کے مختلف شہروں خصوصاً مری میں پھیلے ہُوئے ہیں۔ یہاں کوہالہ برائیڈل روڈ پر واقع "کشمیری بازار” تقسیمِ ہندوستان سے قبل چین و ہند کے درمیان تجارتی قافلوں اور سیّاحوں کا پڑاؤ رہا ہے۔ مری شہر کے عوامی قبرستان کے قریب آج سے ڈیڑھ صدی قبل کشمیری مہاجرین نے "گڑھیاں” نامی گاؤں اور دھوبی گھاٹ کے وسط میں ایک وادی کو آباد کیا، جسے بعد میں”کشمیری محلّہ” کہا جانے لگا۔ محلّہ شوالہ میں بھی چند کشمیری گھرانے آ کر آباد ہوئے ۔ پنڈی مری روڈ بن جانے کے بعد لوگوں نے رفتہ رفتہ میدانی علاقوں کا رُخ کیا تو ان لوگوں کی اکثریت ” بانسرہ گلی” کے قریب دیہاتی علاقے میں جا کر آباد ہو گئی جو آج ” کشمیری محلّہ” کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں 1890ء کی موجود قبریں کشمیری آباد کاروں کا ثبوت ہیں۔ راولپنڈی ، گوجر خان ، جہلم ، گجرات ، گوجرانوالہ ، لاہور ، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں خاصے کشمیری آباد ہیں ۔
بلتستان ، لدّاخ، گوریز، استور، چیلاس، چترال، داریل، اور گلگت کی سرزمین کو”دردستان” کے نام سے پکارا جاتا ہے ان علاقوں کے لسانی رشتے تِبّت سے بھوٹان تک پھیلے ہُوئے ہیں ۔ وادئ کشمیر کے جنوب میں پنجاب اور سندھ آباد تھے۔ جہاں ہند آریائی زبانوں میں سے سنسکرت کو مقدّس مقام حاصل ہے۔ ہزاروں سال قبل پہاڑی تودے گرنے سے دریائے جہلم کی گزرگاہ بند ہو گئی اور جب یہاں کے رُکے ہُوئے پانی کو ختم کیا گیا تو یہ علاقہ ایک سر سبز و زرخیز وادی کی شکل اختیار کر گیا۔ وادی کی زرخیزی کے باعث جہاں ہندوستان کے عالم اور سنیاسیوں نے وادی کو اپنا مسکن بنایا وہاں درستان کے لوگ بھی پہاڑوں سے اُتر کر وادی میں آباد ہونے لگے۔ دردی زبانوں کی سرپرستی میں مختلف گروہوں نے ایک نئی عوامی زبان کو وجود میں لایا۔ شِنا، چینی، تبتی، کھوار اور پشتو کے بعض الفاظ کے کشمیری سے ہم آھنگ تلفّظ اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں لیکن ہندوستان کے اعلیٰ طبقے کی زبان سنسکرت نے کشمیری کو چالیس فیصد سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔

کشمیری زبان کا ابتدائی دور ہر زبان خصوصاً اُردُو، اسپرانتو اور پہاڑی کی طرح باعثِ تحقیر رہا ہے لیکن رسم الخط اور گرائمر کے تعیّن سے پہلے ہی مختلف قوموں اور قبیلوں کی آمد سے وادی میں کشمیری ذخیرۂ الفاظ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور یہ زبان اپنے دورِ شیر خوارگی میں ہی کشمیر کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں میں رابطے کی زبان بنتی چلی گئی۔ ماہرینِ لسانیات سر جارج گریر سن اور ڈاکٹر محی الدین کے مطابق "اگر یہ کہا جائے کہ کشمیری زبان کا ڈھانچہ دردی زبانوں کی دَین ہے، سنسکرت نے اسے گوشت پوست عطا کیا اور دِینِ اسلام نے اس میں روح پھُونک دی” تو بے جا نہ ہو گا۔

کشمیری زبان کی ساخت :-

مسٹر ڈبلیو ۔ ایل ۔ وائٹ کے لسانی نظریے کی روشنی میں "ابنِ آدم اپنے ابتدائی دور میں جب مصر کی مختلف وادیوں میں پھیلنے لگے تو مختلف جغرافیائی وحدتوں میں بٹنے کے باعث ان کے رنگ و بُو ، لہجوں اور لفظوں میں بھی فرق آنے لگا” اسی نظریے کی روشنی میں متروک اور مُردہ زبانوں میں کُتّے کو ( کُن) Kun کہا جاتا تھا، کشمیری میں یہی لفظ (ہُون) Hun انگریزی میں (ہاؤنڈ) Hound اور عالمی زبان اسپرانتو میں (ہُوندو) Hundo کی صورت ميں موجود ہے۔

علمِ لسانیات کے حوالے سے ہمیں یہ اُصول یاد رکھنا چاہیے کہ زبانوں کے سامی خاندان کے الفاظ آریائی زبانوں کے خاندان میں آ کر اپنی خفیف سی آواز اور شکل بدل لیتے ہیں ۔ Kun اور Hun کی تبدیلی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عبرانی و عربی سامی خاندان کی زبانیں ہیں ۔ عربی کا ” الطاولۃُُ ” (میز) انگریزی میں table بن گیا ہے۔ دراصل عربی میں شروع کا "ال” کلمۂ تعریف ( article ) اور آخری "ت”پر دو اُلٹی پیش( ،ُ) گرائمر میں اسم کی علامت ہیں ۔ جبکہ اصل مادہ ( root) "طاول” ہے ۔ لفظ "طاول” کی طرح سامی زبانوں کا "و” آریائی زبانوں (انگریزی وغیرہ) میں آ کر "ب” یا "B” کی شکل اپنا لیتا ہے۔ لہٰذا table دراصل عربی زبان کا ہمارا اپنا لفظ "طاول” یا "الطاولۃ ،ُ ” ہی ہے ۔ اس کی ایک مقامی مثال پر غور فرمائیں کہ کس طرح ہر بیس میل بعد زبانوں کے لہجوں میں فرق آتا ہے۔ اُردُو اور پنجابی کا "ر” ہندکو اور پوٹھواری یا پہاڑی میں جا کر "ل” کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور یوں لفظ ” برادری”، "بلادری” بن جاتا ہے۔ اسی طرح اُردُو کا لفظ "گائے” کشمیری ، فارسی اور ہندی زبانوں میں "گاؤ” جبکہ انگریزی میں ذرا سے صوتی فرق کے ساتھ ” cow” اور مُردہ زبانوں میں "cwov” لکھا پڑھا جاتا ہے ۔ اُردُو کا لفظ "ساس” پنجابی، سندھی میں "سس” جبکہ کشمیری میں”حش” اور پشتو میں "خواخ” ہے۔ یہ تبدیلیاں قُرآنی اندازِ بیان میں قُدرت کی نشانیاں ہیں تا کہ ہم جغرافیائی فرق کے ساتھ "س” کی "ش” اور "ح” کی”خ” کی شکل میں ہونے والی تبدیلیوں پر غور کریں۔ اُردُو میں مصدر کی علامت "نا” اور کشمیری میں”ن” ہے ۔ فعل امر بنانے کے لئے دونوں زبانوں میں ان علامتوں کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ تلفظ کے اعتبار سے کشمیری برّعظیم (پاک و ہند) کی مشکل زبانوں میں شمار ہوتی ہے لہٰذا اس کی مخصوص آوازوں کی ادائیگی کے لئے اضافی اعراب و نشانات کا سہارا لیا گیا ہے۔

کشمیری زبان کی چند مثالیں :-

1 ۔ اساق چُھ دؤہ راتھ پھیران۔(اسحاق دن رات پھرتا ہے).
2 ۔ ولؤر تَہ ڈَل چھِہ زہ بڈ سر.(وُلر اور ڈل دو بڑی جھیلیں ہیں).
3 ۔ کَشِیر چھِہ ژؤنْٹن ہَنْد مالیؤن۔(کشمیر سیبوں کا گھر ہے).
4 ۔ سِہ چھُو جنگلک پادشہ.(شیر جنگل کا بادشاہ ہے).
5 ۔ہَز خؤِجِہ مُضطر عباسی صئیب اؤس بڑہ بؤڈ عالم.( حضرت جناب مُضطر عباسی بہت بڑے عالِم تھے).
6 ۔ ہمسایہ تہِ آشناؤ چھِہ وقتس پِٹھہ بَکار یِوان.(ہمسایہ اور رِشتے دار وقت پر کام آتے ہیں).
7 ۔ خَبرَ بہِ ما گژِھ ڈوڈہ.(شاید میں آج ڈوڈہ جاؤں).
8 ۔ پھَرن چھُ کَشِیر ہند خاص لبأس۔(پھرن کشمیر کا خاص لباس ہے).

معروف کشمیری صحافی میر عبدالعزیز مرحوم کی ایک نظم (نعرۂ بغاوت) کے دو اشعار اور اُن کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

1 ۔ چھُک ژہ از مظلوم بے شک سر بسر۔ (ہو تُم آج مظلوم بے شک سر بسر).
بے وطن اندر چھوئی در بدر ( بے وطن اور وطن کے اندر در بدر).

2 ۔ کاشریا ووتھ نعرۂ تکبیر پر۔ (کشمیری ! اُٹھ نعرۂ تکبیر پڑھ ).
ظلمکین بالن ژہ کر زیر و زبر۔ (ظُلم کے پہاڑوں کو تُو زیر و زبر کر).

بیگم خواجہ غلام نبی گِلکار کی حُبّ وطن میں ڈوبی ایک نظم کیا چھُہ مُدا سؤن۔؟ (ہمارا مقصد کیا ہے ؟) کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔

دؤن مَنْزیہ دودر کرچھہ روا، چھوی یِہ فنا سؤن۔
(وطن کا دو حصوں میں تقسیم ہونا ہمارے لیے پیغامِ فنا ہے).
یکجان سپدِ یؤتیِ چھُہ مُدا، سُوی چھُہ بقا سؤن۔
(ہمیں ایک ہو جانا چاہیے ، یہی ہمارا مقصد اور اسی میں ہماری بقا ہے).

مرورِ زمانہ نے ایک کشمیری کو جہاں کہیں دھکیلا، اُس نے وہاں پر کشمیری ثقافت اور زبان کے جھنڈے گاڑے۔ اگرچہ آب و ہوا اور جغرافیائی تبدیلیوں کے قدرتی اُصول نے کشمیری زبان کو مختلف لہجوں کی خُوشبو سے مالا مال کر دیا مگر یہ خُوشبو لفظی اور صوتی دُوری کا باعث بھی بنی۔
غالباً پانچ ہزار سال قبل ایک کشمیری پنڈت کلہن نے سنسکرت زبان میں "راج ترنگنی” نامی کتاب لکھ کر کشمیری تاریخ پر پہلا مُستند کارنامہ سر انجام دیا لیکن کشمیری زبان میں علم و ادب کا فروغ سر زمینِ ہِند پر مسلمانوں کے آنے کے بعد شروع ہُوا ۔ چودھویں صدی عیسوی میں ایک تُرک درویش حضرت عبدالرحمن بُلبُل شاہ کی کوششوں سے کشمیر پر قابض تبتی بُدھ راجہ رنچن شا نے قبولِ اسلام کا شرف حاصل کیا تو اُس وقت وادی میں کشمیریوں کی تعداد قریباً دس ہزار تھی لیکن وادی میں عربی اور فارسی کا چلن تھا ۔ یہی دور کشمیر میں حضرت شاہ ہمدان کی آمد کا ہے جب یہاں "شِیو مت” اور روحانیت کی پیروکار معروف کشمیری شاعرہ "لَلَّہ عارفہ” نے موصوف کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ کشمیری ادب ميں پہلا دستیاب منظوم کلام لَلَّہ عارفہ کا فِکری نچوڑ ہے، جس میں کشمیری سے زیادہ سنسکرت کا رنگ غالب ہے۔ "لَلَّہ واکھ” اسی کا انگریزی ترجمہ ہے۔

کشمیری نظم و نثر کا پہلا دور۔ (1000ء تا 1300ء)

سلطان شہاب الدین کا زمانہ ایک فلاحی دور کہلاتا ہے جب ریاست جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کو بہت فروغ ملا۔ عربی و فارسی کی اہم کُتب کو دیگر مقامی بڑی زبانوں کے ساتھ ساتھ کشمیری قالب میں بھی ڈھالا گیا۔ عام آبادی سرکاری اور تعلیمی زبانوں (عربی و فارسی) پر دسترس نہیں رکھتی تھی لہٰذا شاہ ہمدان کے ساتھ آنے والے مبلغین نے یہاں کی عوامی زبان کشمیری سیکھ کر اسے ہی ذریعۂ تعلیم و گفتگو بنایا ۔ اس طرح کشمیری زبان و ادب کا دامن وسیع تر ہوتا گیا۔ راجہ رنچن شا کے دور میں ہی کشمیری نے فارسی رسم الخط کو اپنایا۔ کشمیری کے اوّلین شعراء میں لَلَّہ عارفہ، شیخ نُور الدین اور شیتی کنٹھ کے نام سرِ فہرست ہیں۔

کشمیری زبان و ادب کا دوسرا دور۔( 1300ء تا 1580ء)

کشمیری شعر و ادب کے دوسرے دور میں اسے موسیقی میں ڈھالا جانے لگا۔ تب خواجہ حبیب اللّٰہ نوشہری ، حبّہ خاتون ، رُوپا بھوانی ، میر عبداللّٰہ بیہقی اور ارضی مل کا طوطی بولتا تھا ۔

کشمیری شعر و ادب کا تیسرا دور ۔ (1580ء تا 1845ء)

کشمیری زبان و ادب کے تیسرے دور یعنی مقبول شاہ کرالہ واری ، رسول میر شاہ ، عبدالاحد ناظم ، عزیز اللّٰہ حقانی ، عبد الوہاب پرے ، پنڈت پرمانند ، ثنا اللّٰہ کریری ، عبدالغفار فارغ اور محمود گامی کے دور میں کشمیری تمام اصنافِ سُخن میں اپنے مقام کو ایک جامع زبان کی حیثیت سے منوا چُکی تھی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کشمیری نے اعضائی و رقصیہ شاعری "ونہ ون” اور "رف” کے ساتھ ساتھ دیگر اصنافِ سُخن کو بھی سنسکرت کے بجائے عربی و فارسی طرزِ سُخن میں ڈھال کر اسے پسماندہ سے ترقی پذیر زبان بنایا ۔ کشمیری ادب کے چوتھے دور تک اسے صرف پہیلیوں ، محاورات ، رومانوی اور روحانیت پر مبنی زبان کہا جاتا تھا لیکن غلام احمد مہجُور ، غلام حسن بیگ ، عبدالاحد آزاد اور عبدالاحد زرگر جیسے شاہسوارانِ ادب نے اسے گُل و رُخسار اور تصوّف کے دائرے سے باہر نکال کر ادب برائے زندگی کی نمائندہ زبان بنا دیا اور آج کشمیری زبان ایسے الفاظ اور بندشوں کی حامل ہے کہ دوسری زبانیں ان کے مترادفات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ کسی ترقی یافتہ اور علمی زبان کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اختصار سے وسیع مفہوم بیان کیا جا سکے۔ کشمیری زبان اس خوبی میں کسی ہم عصر زبان سے پیچھے نہیں۔ مسلمانوں کی کشمیر پر پانچ سو سالہ حکومت کے بعد یہ ملک پہلے سِکھوں اور پھر ڈوگروں کے زیرِ تسلط آیا۔

کشمیری زبان و ادب کا چوتھا دور ۔ (1846ء تا 1946ء)

کشمیری ادب کے چوتھے دور میں ہی ڈوگرہ مظالم کے خلاف آواز بلند ہُوئی تو 1883ء میں ڈوگرہ راج کشمیریوں کو ابتدائی سیاسی حقوق دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس دور کی کشمیری شاعری میں رزمیہ لہجہ غالب نظر آتا ہے۔ لیکن ڈوگروں نے ہی اپنے سو سالہ دور میں کشمیر کی مختلف جغرافیائی اکائیوں کو وادی سے لدّاخ تک متحد کیا اور کشمیری زبان کو سرکاری طور پر رائج کیا۔

کشمیری رِسم الخط اور نثر نگاری :-

ابتداء میں کشمیری کو شاردہ اور دیو ناگری رِسم الخط میں ڈھالنے کی کوشش ہوئی لیکن یہ زبانیں خود تنگئ داماں کے باعث اپنی موت آپ مر رہی تھیں۔ پھر بھی زین العابدین بڈ شاہ (جن کی مادری زبان کشمیری تھی) کے زمانے میں درج بالا طرز ہائے تحریر میں کئی موضوعات پر کُتب لکھی اور ترجمہ کی گئیں۔ جو آج دستیاب نہیں ۔ البتہ انہی کے زمانے میں معروف ہندی کُتب "وشت برہمہ درشن” اور "دریہہ مت کتھا” کا کشمیری ترجمہ ہُوا۔ بڈ شاہ کے حالاتِ زندگی ” زینہ چرت” اور کشمیری ڈرامہ "زینہ ولاس” لکھا گیا۔ عربی و فارسی کی معروف کتب کا ترجمہ کر کے کشمیری ادب کو مالا مال کر دیا گیا ۔ قرآنِ پاک کے کشمیری زبان میں پارہ "عم” کا ترجمہ میر واعظ غلام رسول مرحوم نے کیا جو شائع ہُوا۔ مکمل ترجمہ قرآنِ کریم مولانا مقبول سبحانی مرحوم نے کیا ، جس کی کشمیری زبان میں تفسیر ، مفتی ِ کشمیر مولانا سیّد ضیاالحق بخاری نے 16 اپریل 1973ء کو مکمل کی جو 1991ء میں "تاج کمپنی لمیٹڈ نے کراچی سے شائع کی ۔ سعودی حکومت نے بھی کشمیری ترجمہ کے ساتھ قرآنِ مجید شائع کیا ہے ۔
کشمیری زبان کے فروغ میں سیّاحوں اور عیسائی مشنریوں نے اہم کردار ادا کیا۔ لغات ، تلفظ ، گرائمر اور کہاوتوں پر سائنسی انداز میں کام کر کے اسے مضبوط بنیادیں فراہم کیں ، جن کی بنا پر "گاش” (روشنی) جیسے دیگر اخبارات و جرائد منظرِ عام پر آئے۔ دیگر زبانوں کے اخبارات اور ریڈیو سٹیشنوں نے بھی کشمیری زبان میں اشاعت و نشریات کے حصّے مقرّر کر لیے۔(مشنریوں نے برّعظیم پاک و ہند میں اردو ، کشمیری ، بنگالی اور دیگر زبانوں کے فروغ کے لیے اس لیے بھی کام کیا تا کہ وہ یہاں سے عربی اور فارسی کا اثر کم کر کے مسلمانوں کی سیاسی، عسکری اور مذہبی طاقت کو کمزور کر سکیں) اسی دور میں بائیبل کا کشمیری ترجمہ بھی منصۂ شہود پر آیا۔
اگر مقبوضہ کشمیر سے کشمیر اکادمی کا رسالہ "شیرازہ” کشمیری تاریخ و زبان کے لئے کوشاں تھا تو مظفر آباد اور راولپنڈی سے ہفت روزہ "انصاف” اور "The Kashmir Time” نکال کر یہی فرض اردو اور انگریزی میں میر عبدالعزیز نبھا رہے تھے جو اپنی زندگی میں پاکستان ٹی وی اور ریڈیو پر "کشمیریات” کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتے تھے۔
کشمیر چھوڑ کر پاکستان کو وطن بنانے والوں میں فتح محمد آذری عسکری، خواجہ غلام احمد ناز، علی محمد کنول. طؤس بانہالی. تحسین جعفری، اور دیگر لاتعداد افراد میں میر عبدالعزیز کی انفرادیت کسی دلیل کی محتاج نہیں تھی۔ لیکن صد افسوس کہ ان کے ورثاء اس صحافتی اور ادبی سلسلے کو آگے نہ بڑھا سکے۔ مرحوم نے کشمیری و اردو میں چند کتب بھی لکھیں۔ ایک ماہنامہ "یتب” (معلومات) سری نگر سے امین کامل کی زیرِ ادارت شائع ہوتا رہا، جبکہ مظفر آباد (راولپنڈی) سے ایس امین اور عارف بہار کی ادارت میں پندرہ روزہ ” صدائے حُریت” کشمیریات کے موضوع کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا جس میں ایس امین "زونہ ڈب” کے عنوان سے اپنا کشمیری کالم لکھتے تھے۔
مظفر آباد سے مجید بٹ مرحوم کی زیرِ ادارت نکلنے والے اخبار”وُلر” کا تحریکِ حُریت میں کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج کل روزنامہ "جموں کشمیر” ، "کشمیر پوسٹ” "کشمیر ٹائمز” ، "صدائے حریت” ، "کشیر” ، "صدائے چنار”، "تلافی” اور "کوٹلیئنز” کشمیر کی آواز ہیں۔ آج کے دور ميں "آن لائن” اخبارات کی بھر مار نے اخبارات کے معیار کو معدوم کر کے رکھ دیا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ کشمیریات کے سربراہ جناب اشرف قریشی کی رحلت کے بعد تو پاکستان میں کشمیری زبان کی ترویج و فروغ اور تاریخ و ثقافت کی حفاظت کے لیے نئے سرے سے نئی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

کشمیری زبان کے فروغ اور ترویج کی ضرورت :-

ایک گراں قدر علمی سرمائے کی حامل کشمیری قوم زندگی کے ہر شعبے میں منقسم نظر آتی ہے۔ ایک زمانے ميں یہودیوں کا یہی عالم تھا۔ دو ہزار سال تک اُن کی زبان مُردہ رہی۔ 1880ء میں عبرانی زبان کوئی نہیں جانتا تھا ۔ صرف ایک شخص، بائیس سالہ لتھوانی یہودی ڈاکٹر لازار بن یہودہ کی کوششوں سے 1917ء تک چونتیس ہزار افراد عبرانی زبان کو بولنے اور سمجھنے لگے اور آج اسرائیل کی قومی، سرکاری، تعلیمی اور سائنسی زبان عبرانی ہے ، جسے اب عبرانی کے بجائے "یدیش Yidish ” کہا جاتا ہے، لیکن مقبوضہ کشمیر ہو یا آزاد کشمیر یہ آج تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ آزادی ہو یا غلامی ان کی اپنی تہذیب ، ثقافت اور تاریخی روایات کی محافظ زبان کونسی ہو گی ؟ کیا لندن، نیو یارک اور سِڈنی والے کشمیری یا اردو کو اپنی دفتری یا تعلیمی زبان بنا سکتے ہیں؟ کیا لکھنؤ، حیدر آباد اور کراچی والے اپنی تاریخ کشمیری میں لکھنا پڑھنا گوارا کریں گے؟ اگر نہیں تو پھر سری نگر، دردستان اور مظفر آباد و راولاکوٹ والے اپنی تاریخ و تہذیب کی حفاظت ، سنسکرت، اردو اور انگریزی کے ذریعے کیسے کر پائیں گے؟
کشمیری تہذیب اور تاریخ کا راگ الاپنے والوں کے اپنے گھروں میں کشمیری نہیں بولی جاتی۔ اپنی تہذیب اور کشمیری ماحول سے دُوری کے باعث مختلف شہروں میں آباد پاکستان میں پیدا ہونے والے کشمیری اب مہاجرین نہیں رہے بلکہ اپنے قریب موجود قبیلوں کی ثقافت سے حد سے زیادہ متاثر ہُوئے۔ لہٰذا ان کشمیری مہاجرین یعنی "متاثرین” نے لذیذ کھانوں، شاہانہ لباس اور پُر آسائش گھروں کی حامل کامیاب ازدواجی زندگیوں کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں اور اپنی زبان و تاریخ کو نظر انداز کر دیا۔ مطالعہ شاہد ہے کہ یہی لغزشیں قومی مقاصد سے دور لے جاتی ہیں۔
تحریکِ آزادئ کشمیر ، جہادِ کشمیر ، الحاق اور خود مختاری کے نام پر ایجنسیوں کے ہاتھوں کشمیر کی تاریخ اور زبان کا سودا کرنے والے تعلیم اور شعور کے بجائے اسلحے کے ذریعے کشمیر کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ اس زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے کام نہیں کرتے جو اُن کی آزادی اور خُود مختاری کی دائمی حفاظت کر سکتی ہے۔ اگر دُنیا کی آزاد اور خُود مختار قوموں کی فہرست بنائی جائے تو اُنہی کا نام آئے گا جن کا نظامِ تعلیم اپنی زبان میں ہے۔ غلام قوموں کا نظامِ تعلیم سامراجی اقوام کی زبانوں میں ہوتا ہے۔
سیرت الرسول کی کتابوں میں آتا ہے کہ نبئ اکرم کی ابتدائی پرورش گاؤں میں بھیج کر اس لئے کروائی گئی تا کہ وہ خالص مادری عربی زبان سیکھ سکیں اور فتح مکہ کے بعد تو حضور نے کچھ صحابۂ کرام کو عبرانی سیکھنے کے لئے یہودیوں کے پاس بھیجا تھا۔ اگر پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد کشمیری اپنی مادری زبان کی کلاس لگائیں اور ہر کشمیری خاندان سے کم از کم ایک بیٹا یا بیٹی کشمیری سیکھنے کے لیے روزانہ ایک گھنٹہ وقف کرے تو چند ہی سالوں میں کشمیری زبان و ادب میں احیاء العلوم کی صلاحیت فروغ پانے لگے گی۔

کتابیات :-

1۔ راج ترنگنی ( از پنڈت کلہن).
2 ۔ تاریخِ کشمیر (از سیّد محمود آزاد).
3 ۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا ۔
4 ۔ عربی۔عبرانی ۔۔۔باہمی روابط۔ ( از پروفیسر علامہ مُضطر عباسی)
5 ۔ ہفت زبانی لغت ۔ ( مرکزی اُردُو برڈ، لاہور ).
6 ۔ کائشر زبان ۔ ( از میر غلام محمد کشفی ).
7 ۔ کاشر اُردُو کتھ بات ۔ ( از خواجہ نصیر محمود وانی ).
8. Danĝera Lingvo. ( William Auld).
9۔ کشمیر ۔ ادب و ثقافت ( از سلیم خان گمّی)
10 ۔ تدریسِ اُردُو (از علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  امجد بٹ ۔۔۔ مری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More