کتاب "اقبال نیں شاہین” کا مزاحیہ مضمون "لکھاری”
پہاڑی تحریر و اردو ترجمہ : راشد عباسی
لکھاری
میں نے تیس سال دفتری تنظیم (آفس مینجمنٹ) میں گزارے۔ جب میں اِس شعبے میں گیا تھا تو میں شاعر، ادیب تھا اور سجی سنوری تحریر کا عادی تھا۔ جب تک ادبی پیرائے میں ایک ایک جُملہ نہ لِکھتا چین ہی نہیں پڑتا تھا۔ لیکن پھر امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کے تربیت کنندگان نے مجھے سمجھایا کہ کاروباری تحریر (بزنس کمیونیکیشن) میں سادہ اور آسان لکھنا ضروری ہے۔ اُنھوں نے مجھے "بزنس کمیونیکیشن” کے اُصول پڑھائے جِن پر عمل کر کے میری تحریر بھی سیدھی اور سہل ہو گئی اور میں خود بھی۔ لیکن اب بھی کوئی شعر پڑھتے ہوئے غلطی کرے تو میرے اندر کا شاعر، ادیب، (جسے جتن کر کے سلایا تھا) جاگ اٹھتا ہے۔
ہمارے دوست "جناب لکھاری” کو لکھنے کا بے حد شوق ہے لیکن پڑھنے کا بالکل بھی نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لکھنے سے پہلے پڑھنے کا شوق ہو تو بندہ آہستہ آہستہ بہتر لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن جناب لکھاری بس اِس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ جملے میں کوئی نہایت مشکل لفظ استعمال کریں، کوئی پیچیدہ اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اپنی بات سمجھائیں یا اپنی زبان کا نہایت خوبصورت لفظ موجود ہونے کے باوجود انگریزی کا کوئی عامیانہ سا لفظ بول یا لکھ کر اپنی عِلمیت یا قابلیت کا مظاہرہ کریں۔
جناب لکھاری جب تک اچھے بھلے اردو شعر کو پڑھتے ہوئے تلفّظ کی غلطیاں کر کے بے وزن نہ کر دیں اُنھیں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ فیس بک پر اُنھوں نے ایک ویڈیو لگائی۔ پہلے لوگوں کو کچھ نصیحتیں کیں، پھر سیاست دانوں کی ماں بہن ایک کی۔ اور اس کے بعد خُدائے سُخن، میر تقی میر کا شعر پڑھ کر لوگوں کو سمجھایا کہ اگر آپ سیاست دانوں کے کاسہ لیس بنیں گے تو پھر زندگی اجیرن ہو جائے گی۔
عِشق میں دل کو صَبَر وا تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لڑیں تو خ_واب کہاں
میں نے عرض کیا کہ اصل شعر اس طرح ہے ۔۔۔
عِشقْ میں جی کو صَبْر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لڑیں تو خواب کہاں
جناب لکھاری فرمانے لگے، "جی” کے معنی کیا ہوتے ہیں؟۔ میں نے عرض کیا ” دل”۔ وہ فرمانے لگے، "تو پھر غلطی تو نہ ہوئی نا حضور”۔ جہاں تک صَبَر کی بات ہے تو ہمارے استاد صاحب، مولوی صاحب اور پیر صاحب جیسے لوگ جب کسی فوتگی پر جاتے ہیں تو بہ آواز بلند کہتے ہیں۔۔۔
"اللّہ پاک آپ کو صَبَر کی توفیق دے”
انھیں سمجھائیں کہ وہ غلط نہ بولا کریں۔ ہم نے تو ان کے ہی نقش قدم پر چلنا ہے۔
میں نے پوچھا کہ "خاب” کو "خوآب” پڑھنے کی وجہ۔ کہنے لگے کہ آپ جیسے شاعر جب "خواب” لکھیں گے تو پھر قارئین "خاب” کیوں پڑھیں گے؟
میری خواہش تھی کہ میں ان کو سمجھاؤں کہ۔۔۔
بَرْف، حَرْف، نَظم، نَرم جیسے سارے الفاظ میں صرف پہلا حرف متحرک ہوتا ہے باقی سارے حروف ساکن ہوتے ہیں۔ لیکن خواب کے حوالے سے ان کی ہٹ دھرمی دیکھ کر میں نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔
میری کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد میرے شاعر دوست چائے پیتے ہوئے ادبی مکالمے میں مصروف تھے۔ جناب لکھاری نے بھی ہیرو کی طرح محفل میں انٹری ماری۔ ہم بات کر رہے تھے حضرت ذکاء صدیقی کے شعر پر۔۔۔
وقت آنے پہ بھر جائے گا ہر زخم ضرورت
لیکن کسی ماتھے کی شکن یاد رہے گی
جناب لکھاری جوتوں سمیت چھلانگ لگا کر محفل میں شامل ہو کر فرمانے لگے۔ "زَخَمِ ضرورت” سے یاد آیا کہ مرزا غالب نے بھی کہا تھا۔۔۔
عِشرتِ پارۂ دل زَخَمِ تمنّاں کھاناں
لذتِ ریشِ جگر غرقِ نِمَک داں ہُوناں
میں نے واہ وا کہا اور جناب لکھاری کو ایک طرف لے گیا۔ انھیں سمجھایا کہ یہ سارے بڑے شاعر ہیں اور ان کی عمریں شعر و ادب کی خدمت میں گزری ہیں۔ ان کے سامنے اگر کوئی شعر کی ٹانگیں توڑے تو کیا پتہ یہ ایسے شخص کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کر بیٹھیں۔
جناب لکھاری کا خیال تھا کہ مرزا غالب کا شعر سنا کر انھوں نے بڑا کمال کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ لفظ "زَخَم” نہیں ہوتا بلکہ "زَخم” ہوتا ہے۔ نیز لفظ "نِمَک” بھی نہیں ہوتا بلکہ "نَمَک” ہوتا ہے۔
جناب لکھاری تھوڑی دیر میری طرف دیکھتے رہے اور پھر فرمانے لگے۔۔ "یہ ساتھ ہی فوڈ سٹریٹ ہے۔ آپ وہاں جائیں اور ویٹر کھانا لائے تو اسے کہیے گا۔۔۔۔ نَمَک لے آؤ۔۔ یقین کریں وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے گا۔
ایک دن جناب لکھاری تشریف لائے تو بہت خوش تھے۔ میں نے انھیں مہمان خانے میں بٹھایا اور ٹھنڈا پیش کیا۔ جلد بازی میں ویسٹ کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک کاغذ نکالتے ہوئے وہ میز پر پڑا کانچ کا جگ توڑنے لگے تھے۔ بڑی خوشی کے ساتھ مجھے مطلع فرمایا کہ انھوں نے بھی ایک نظم لکھی ہے اور وہ میرے پاس اسی کی اصلاح کے لیے تشریف لائے ہیں۔۔۔
کیا بنے گا ہمارے چمنستان کا
یہ جو مالی ہے اس کو دلچسپی نہیں
یہ درخت سارے ہی خَتَم ہو جائیں گے
ڈالی ڈالی پر بیٹھا ہوا ہے چُغَد
گل اور غنچے نہیں ہیں
عندلیب نہیں، تتلی نہیں ہے
الحذر، الاماں
میں نے نظم کو تھوڑا سا بہتر کر دیا۔۔۔
کیا بنے گا ہمارے گلستان کا
یہ جو مالی ہیں ان کو لگاؤ نہیں
یہ شجر ہیں جو، سارے ہی مر جائیں گے
پھول کلیاں نہیں، کوئی تتلی نہیں
عندلیبیں نہیں
بیٹھے ہیں ساری شاخوں پہ الو یہاں
الاماں، الاماں۔
میں نے جناب لکھاری سے استفسار کیا کہ جو انھوں نے مصرعہ لکھا ہے۔۔۔
ڈالی ڈالی پر بیٹھا ہوا ہے چغد
اس میں لفظ چغد میں صرف چ متحرک ہے جب کہ غ اور د ساکن ہیں۔ ان کے چہرے کے تیور بدل گئے۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھ کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے اور پھر فرمانے لگے۔۔۔۔۔
"ماسٹر ظہراب صاحب کو آپ جانتے ہیں؟۔”
میں نے عرض کیا کہ ان جیسے استاد کو کون نہیں جانتا۔ بہت ذہین، محنتی اور پڑھے لکھے استاد تھے۔ جناب لکھاری نے مجھے اپنے بیان پر پکا کرنے کے لیے تصدیق کروائی کہ میں ان کی قابلیت اور علمیت کو مانتا ہوں۔ میں نے جب اقرار کیا تو جناب لکھاری نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔۔۔۔
"مجھے ماسٹر ظہراب صاحب نے کم و بیش ایک ہزار مرتبہ "چُغَدْ” کہا ہو گا”