کالم شالم ”یادوں کے جھروکے سے“
کالم شالم ”یادوں کے جھروکے سے“
کہیں پڑھا تھا کہ بنی نوع انسان کا پہلا پیشہ مال مویشی کی افزائش تھا اور تمام انبیاء علیھم السلام نے بھی بکریاں پالیں۔ ہمارے آقا و مولا، نبی آخرالزماں، حضرت محمد صلى الله عليه و آله و سلم نے بھی بچپن میں بکریاں چرائیں۔ کہتے ہیں کہ بکریاں چرانا ایک صبر آزما کام ہے۔ ہمارا بچپن بھی بکریاں چراتے گزرا۔ چونکہ ہمارے پہاڑی علاقے میں بکریاں باقاعدہ پالی جاتی تھیں۔ ہر گھر میں ایک یا دو بکریاں ضرور ہوتی تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری بکری کا نام "ٹیڈی” تھا، جو بہت خوبصورت تھی۔
ہم سارے "سنگی” سکول سے واپس آ کر اپنی اپنی بکریاں چرانے گاؤں کے ساتھ واقع چراہ گاہ
”سادمیں نا ڈنہ“ چلے جاتے۔ گاؤں بھر کے لڑکے اپنی اپنی بکریاں وہاں چھوڑ کر مختلف کھیل کھیلنے میں مگن ہو جاتے، جیسے "اٹی ڈنڈا”، "گولی پِلا”، "چھپا لُکی”، "پیٹی گرم” یا لڑکیوں کے کھیل "چیندک”، "پنج گیٹڑا” وغیرہ. یعنی ہم نے بچپن میں تمام "مردانہ” و ”کُڑیانواں“ کھیل کھیلے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تمام کھیل ختم ہوتے گئے۔ لوگوں کا طرز زندگی جدید ہوتا گیا۔ گاؤں میں بجلی آنے سے ٹی وی ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔ نیز کرکٹ جیسے نکمے کھیل کا دور چل پڑا۔ مقامی کھیل "کوڈی”، "والی بال” وغیرہ ختم ہوگئے۔ جو علاقے کسی فاتح کے مفتوح رہے ہوں وہاں کی سائیکی ہی بدل جاتی ہے۔ لوگ اپنی اچھی چیز کو بھی باعث شرم سمجھنے لگتے ہیں اور فاتح کی بُری چیز بھی باعثِ فخر محسوس ہوتی ہے۔ یہ المیہ تمام غلام اقوام کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جب تک اُن میں کوئی واقعی آزاد قیادت نہ پیدا ہو جو ذہنی طور پر آزاد اور خود اعتمادی اور تخلیقیت جیسی صلاحیتیں رکھتی ہو۔
وطن ِ عزیز کو کاغذی طور پر آزاد ہوئے ستہتر سال ہوچکے ہیں مگر ارباب اختیار و اقتدار آج بھی ذہنی اور عملی طور پر غلام ہیں۔ آج بھی عملاً "گورا صاب” اپنی معنوی اولاد کے ذریعے ہم پر حکومت فرما رہے ہیں۔ ہندوستان نے تقسیم کے بعد راج واڑے ختم کر دیے تھے، مگر مسٹر جناح کی جیب کے کھوٹے سکوں نے یہاں اصلاحات نہیں ہونے دیں۔ آج بھی سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں انسان غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ بیوروکریسی (جسے سرائیکی لفظ ”بُرا کریسی“ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے) سے لے کر حکمران بدمعاشیہ تک وہی لوگ ہیں جو ہر قسم کی مراعات کو اپنا پیدائشی حق سمجھ کر ملک کو لوٹ کر کھا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو "گورا صاب” ہم پر ایک صدی تک حکمرانی کرتے رہے وہ اپنے ملک میں ایسے اللے تللے سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہاں حکمران خود کو واقعی عوام کا خادم سمجھتے ہیں۔ ہماری طرح کی شاہ خرچیوں اور بدمعاشیوں کا وہاں تصور تک نہیں ہے۔ وہاں پر نظام کام کرتا ہے جب کہ ہمارے یہاں کام صرف عام آدمی کرتا ہے (افسر اور بیوروکریٹ تو کام تب کرتے ہیں جب انھیں اربوں کا ذاتی فائدہ نظر آ رہا ہو، چاہے اس کام سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ جائے).
عام آدمی ماچس سے دوا تک ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے لیکن بدلے میں اسے کوئی سہولت نہیں ملتی۔ انصاف کی تو بات ہی نہ کریں کہ جہاں ہر جماعت کا اپنا چیف جسٹس ہو وہاں انصاف کہا ں کا۔
ایک منڈی لگی ہوئی ہے۔ یعنی ہر شعبہ زندگی میں
وہ وہ ”لُچ تلا “ گیا ہے کہ "گل ہی چھڈ دیں“.
لکھنا تو کچھ اور تھا لیکن اس درد دل کا بھلا ہو کہ قلم پٹڑی سے اُتر گیا۔۔۔۔۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ ”سادمیں نا ڈنہ“، وہ بکریاں چرانا
وہ گرمیوں کا موسم، کھا کر پکی بٹنگی
وہ ”پورماں“ کی ”ٹہن“ میں ہر روز کا نہانا
”منڈیا گلی“ کا جنگل، وہ ”بالنے“ کی لکڑی
بروار کا ”تیہاڑا“، ”کہنیاں اکھوڑ“ جانا
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
شکیل اعوان ۔۔۔۔ ایبٹ آباد