کالم شالم ”پنجابی جپّھی “
کالم شالم ”پنجابی جپّھی “
ہم دریائے ٹیمز پر یوں ہی” لُر لُر “ پھر رہے تھے یعنی چہل قدمی فرما رہے تھے کہ ایک سکھ فیملی سے ملاقات ہوگئی۔ بات چیت سے معلوم ہوا کہ اُن کا پریوار ہری پور سے تقسیم ہندوستان کے دوران ہجرت کر کے پٹیالہ میں مقیم ہوا۔ جب ہم نے بتایا کہ ہم تو ”گرائیں“ ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور پنجابی ”جپھی“ ڈالی۔ جب اُن کو علم ہوا کہ مابدولت گلوکار ہیں تو اُن کے بیٹے نے یوٹیوب کھول کر ہمارے گانے نکال لیے۔ پھر تو سردار جی نے ہمیں ”کلاوے“ میں لے لیا۔ سردار جی اپنے باپو کو یاد کر کے رونے لگے اور کہا کہ مرتے دم تک باپو ہندکو ہی بولتے رہے اور ہری پور کو یاد کر کے روتے رہے۔
سردار جی سے بہت گپ شپ ہوئی۔ اُن کا بیٹا یہاں برسر روزگار ہے اور وہ اپنی فیملی کو سیر و سیاحت کے لیے یہاں لایا ہے۔ کافی دیر ہم دریا کے کنارے بیٹھ کر دُکھی سُکھی کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ تقسیم کے دوران اُجڑنے والے خاندانوں کا کیا قصور تھا کہ اپنی جائے پیدائش (جنم بھومی) کا دائمی ہجر برداشت کرنا پڑا۔ اگر تقسیم ضروری ہی تھی تو اچھے طریقے سے بھی دو ملک بن سکتے تھے۔ لوگوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کیے بغیر بھی۔ آخر ایک کثیر تعداد میں مسلمان بھی تو ہندوستان میں مقیم ہیں۔ ایسے ہی اگر یہ ہندو اور سکھ پریوار بھی یہاں آباد رہتے تو کیا قیامت آجانی تھی؟
آخر نفرت سے الگ ہونے کا کیا فائدہ ہوا؟ محبت سے بھی الگ ہوا جاسکتا تھا! آج ہم ایک دوسرے سے نفرت، دشمنی اور تعصب کی وجہ سے دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہم نے جو بجٹ عام آدمی کی بھلائی، صحت اور تعلیم پر خرچ کرنا تھا وہ سارا ایک دوسرے سے نفرت پر خرچ کر رہے ہیں۔ جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چُکی ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان جوق در جوق اپنے ہی وطن سے ہجرت کر کے بیرون ِ ممالک آ رہے ہیں، جہاں روزگار تو ہے مگر مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ ”نکے نکے ماواں دے لعل “ نیند آرام کو بھول کر چھوٹی چھوٹی نوکریوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو ان غیر مسلم ممالک کا کہ ان کا ضبط، خلوص، انسان دوستی اور کشادہ دل ہے کہ نوکری سے چھوکری اور شہریت سب کچھ دیتے ہیں اور ہمارا ایک خاص طبقہ اِن کو ” اٹھے پہر“ بدعائیں دیتا ہے کے یہ لوگ صحفہ ِ ہستی سے مٹ جائیں۔ حالانکہ وہی خاص طبقہ جن کے لیے دن رات دعائیں کرتا ہے وہ سو سال بھی خدمت کرتے رہیں تو شہریت تو دُور کی بات ہے خارجی کی اصطلاح سے ہمیں نوازتا ہے۔ جب کہ غیر مسلم ممالک نے انسان کے بنیادی حقوق بنا رکھے ہیں، جو قرآنی حکم ہے کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تخلیق ہوا۔ تم میں سے کوئی افضل نہیں۔ گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ اچھے عمال اور کردار و تقوی وجہ تکریم و فضیلت ہے۔
آئیے ! ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر سوچیں یعنی
”منجھی تھلے ڈانگ پھیریں“ کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اور یہ غیر مسلم کس مقام پر ہیں ؟
ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کے ایک گورے نے مرتے دم اپنی ساری جائیداد ایک بِلّی کے نام کردی اور حکومت نے بلیوں کے حقوق کے لیے ٹرسٹ بنا دیا۔ یہاں پوتروں دوہتروں کے لیے جائز و ناجائز مال چھوڑ کر مرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ لوگ اپنی زندگی انجوائے کر کے مرتے ہیں، کسی کا حق مار کر نہیں۔
اگلے جہان کی اللہ جانے۔ وہ غفور الرحیم ذات ہے۔ اگر سب کو بخش دے تو اُس سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ سب اُس کی تخلیق ہیں۔
اللہ کو ماننے اور اللہ کی ماننے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ باقی” تُسی آپ سیانے ہو “
شکیل اعوان ۔۔۔۔ لندن