کالم شالم "شرق و غرب”
کالم شالم "شرق و غرب”
جدید علوم کے علماء نے تفکر و تدبر، تحقیق اور ایجاد کی بدولت بنی نوع انسان کی سہولت کے لیے مہینوں کے سفر کو گھنٹوں میں طے کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ ورنہ ہم اہل شرق آج بھی کھوتا، خچر، کہوڑا، اونٹ پر ۔۔۔۔
”اُڈی اُڈی جاواں، ہوا دے نال “ گا رہے ہوتے۔
ہیتھرو ائیرپورٹ سے ”نکے ویرز“ نجم میر، عامر میر اور فیصل میر نے ہمیں الوداع کیا۔ بہت اچھے شب و روز ان دوستوں کے ہمراہ گزرے۔ جہاز نے فضاؤں کا رخ کیا تو نماز عصر جماعت کے ساتھ ادا کی۔ سعودیہ ائیر لائن نے باجماعت نماز کے لیے باقاعدہ ایک جگہ مختص کی ہوئی ہے، جہاں نماز ِ عصر ایک افریقی نوجوان کے پیچھے، نماز مغرب ایک عرب نوجوان کی اقتدا میں اور نماز ِ عشاء ایک پاکستانی بزرگ کی امامت میں ادا کی۔
ہم جب ویلز وادی میں شوٹنگ پر تھے تو ملک نثار صاحب نے فرمائش کی کہ اپنی وہ والی نعت سنائیں
جس کا شعر ہے۔۔۔۔۔
میں نے لکھا تھا خط اپنے اشکوں کے ساتھ
اور بھیجا تھا اُن کو ہواؤں کے ہاتھ
بات سن لی مری، میرے سرکار نے
مجھ کو پھر حاضری کا پیام آ گیا
نعت ختم ہوئی تو واٹس ایپ پر جناب راجہ معروف صاحب کا پیغام تھا کے آپ کا ٹکٹ ہفتہ آگے کر دیا گیا ہے۔ جدہ پہنچیں گے تو ویزہ بھی مل جائے گا۔ آپ عمرہ کی ادائیگی اور در آقا پر حاضری کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔
ملک نثار صاحب کو بتایا تو ایک نعرہ مستانہ بلند کر کے کہا نعت قبولیت پا گئی ہے، سرکار نے بُلا لیا ہے۔ کرم ہوگیا۔ کہاں ویلز انگلستان کی وادی اور مجھ سا گنہگار اور کہاں سرکار !
خیر سفر جب آدھا ہوا تو ایک نعت شریف ہوتی گئی،
جس کا مطلع کچھ یوں ہے۔ (پوری نعت آقاﷺ کے قدموں میں پیش کروں گا)
وہ کرم کرتے ہیں، قدموں میں جگہ دیتے ہیں
مجھ گنہگار کو بھی در پہ بُلا لیتے ہیں
یہ تو اُن کی شان ِ کریمی ہے ورنہ میں کہاں اور مدینے کی گلیاں کہاں۔
رات بارہ بجے جدہ ائیرپورٹ اترے تو ویزہ مل گیا۔ باہر آزاد کشمیر کے معروف بزنس مین، ہمارے مہربان، راجہ معروف صاحب ہمارے میزبان کے روپ میں کھڑے تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے ساتھ لیا اور اہنے دولت خانے پر آ گئے۔ اب ان شاء اللہ کل عمرہ اور زیارت روضہ ِرسول ﷺ کا پروگرام ہے کیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ اور پھر گھر سے سچل بابا بار بار فرما رہے ہیں۔۔۔۔
”پچھاں مُڑ وے پاپا، مانھ سائیکل چائی دی “
جب ہم نے پوچھا کہ جو پہلے لے کر دی تھی وہ کہاں گئی تو بولے
” بڈیو تُسی وی مُچ سادے ہو۔ ہنڑ نواں ماڈل کہنساں“
اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں۔ ہمارا بچپن ”لوئی بھائی“ کے ”بہتروں“ {کھوتوں} پر سفر کرتے گزرا اور آج کی نسل نئی گاڑی، نئی موٹر سائیکل، نئی سائیکل ”واہ رنگیا تیرے رنگ “
دوہزار نو میں ہم نے بمہ فیملی عمرہ کیا تھا۔ جب ہماری پہلی اولاد اللہ کریم نے رحمت کی صورت عطا کی تھی۔ ہم نے شکرانے کے طور پر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری مانی تھی۔ پھر نو سے دو ہزار چوبیس آگیا۔ بار بار یاد تو ستاتی تھی یثرب کو مدینہ کرنے والے کی مگر کوئی سبب نہ بنا۔۔ ایک شادی شو میں یونہی بات چلی تو راجہ معروف صاحب آف جنڈاٹھی کشمیر نے کہا ۔۔۔ "ہم آپ کو بلائیں گے”. اور آج ہم اُن کے گھر، جدہ میں لیٹے کالم شالم گھسیٹ رہے ہیں۔
اپنی ایک نعت کا شعر تھا۔۔۔
میں شرق و غرب کی گلیوں میں گھوم آیا مگر
دل و دماغ سے اُن کی گلی نہیں اُتری
واقعی مدینہ دیکھنے کے بعد شرق و غرب کی گلیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ تازہ نعت ان شاءاللہ کل پیش کروں گا۔ ابھی ایک مہینے کی” ٹھڈی ہڈیاں تپا لوں۔ کوسی کوسی تُہپ لگدی اے “
اہلیان ِ کشمیر و پاکستان کی محبت کا شکریہ کہ اپنی ثقافت و اقدار سے جُڑے ہیں۔
شکیل اعوان ۔۔۔۔۔۔ جدہ، سعودی عرب