کالم شالم ”دھرتی سے جُڑت “
کالم شالم ”دھرتی سے جُڑت “
انسان کا خمیر جس مٹی سے ہوتا ہے وہی اُس کا اصل ہوتا ہے۔ جو اپنی ثقافت، اپنی زبان بھول جائیں وہ
” بے ملخے “ ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ تصویر میں تھری پیس سوٹ میں ملبوس مشتاق لاشاری صاحب ہیں۔
عمر پچہتر سال یعنی پاکستان کے ”ہانی “ہیں۔ جھنگ سے ہجرت کر کے سندھ میں سکونت اختیار کی۔ لندن میں لیبر پارٹی کے اعلی عہدوں پر رہے۔ ایک مرنجاں مرنج شخصیت ہیں۔ ہندکو، پنجابی، سندھی روانی سے بولتے ہیں۔ یہاں جتنے دیس کے لوگ آباد ہیں وہ اپنے اندر ایک چھوٹا سا پاکستان بسا رکھتے ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ ضیائی آمریت کے ڈسے ہجرت کر کے آئے۔ سیاسی جبر و استبداد کا شکار لوگ یہاں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے آئے، جو آج کامیاب زندگی جی رہے ہیں اور پاکستان کے حالات پر افسردہ رہتے ہیں کہ انسان کے اندر پیدائشی زمیں کا دُکھ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے بزنس مین دیکھے جو ہمارے مائیے پر آنکھوں سے اشک چھپاتے پائے گئے۔ حالانکہ وہ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں مگر ماں دھرتی کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں۔ یہ لوگ جب لُٹے پُٹے یہاں پہنچے تھے تو ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ اس ملک نے ان کو عزت کی زندگی دی۔ بلکہ یہاں کے دھرتی واسیوں نے اِن کو قومیت تک دی۔ برابری کے حقوق دیے، روزگار کے مواقع دیے اور یہاں تک کہ ان لوگوں کو ایوانوں تک پہنچنے کے مواقع دیے ہیں۔ جب یہ پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو وطن جہاں چھوڑ کر آئے تھے اُس سے بھی بُرے حال میں ہے۔
نہ روزگار، نہ صحت، نہ تعلیم کی سہولیات۔ وقت گزرنے کے ساتھ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی گئی۔ اس میں وطن کی مٹی کا کوئی دوش نہیں، زمین اپنا سینہ پھیلائے سب کو گلے لگاتی ہے مگر کچھ لوگوں کے بے جا لالچ، حرص اور ہوس نے ہمیں دنیا بھر میں بھکاری بناکر رکھ دیا ہے۔
کل ہم شامی گشت {ایونیگ واک } پر تھے کہ ایک
پیزا فروش نوجوان ہمیں دیکھ کر رُک گیا اور
”ٹھاہ“ کر کے ہمارے گلے لگ گیا۔ پہلے تو ہم ڈر گئے کہ اجنبی شہر کے اجنبی راستے، کہیں موبائل چھیننے والا نہ ہو۔ مگر اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ہم نے دلاسہ دیا کہ ”جوانا دل باٹا کر “۔ وہ بولا، ” آپ شکیل اعوان ہیں؟”. ہم نے ہاں کہا تو اس نے بتایا کہ وہ ہری پور کا رہنے والا ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں آیا ہوا ہے۔ ساتھ کام بھی کر رہا ہے۔ ہم اُس کا درد سمجھ گئے۔ یہ یہاں ہر نوجوان کی کہانی ہے۔ ہمارے ملکی نظام میں نوجوانوں کے لیے کچھ نہیں رہا۔ جسے دیکھو وہ ان مغربی ممالک کی طرف ہجرت کر رہا ہے۔ پاکستان میں بس خاص اداروں کے ریٹائرڈ باوے ہی بچیں گے، جو دوبارہ نوکریوں پر لگائے جاتے رہیں گے۔
یہاں کا نظام بنانے والوں نے ایسا نظام ترتیب دیا ہے کہ یہ لوگ سو جاتے ہیں مگر نظام جاگتا رہتا ہے۔ کوئی ٹریفک اشارہ تک کاٹ نہیں سکتا۔ جب کہ ہمارے ہاں نظام بنانے والے چلانے والے سب سوئے ہوئے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر ہمارے ہاں وقت کو پچھلا گیئر لگا ہوا ہے۔ ہم آج بھی لسانی، فرقہ ورانہ، صوبائی تعصب سے باہر نہیں نکل سکے۔
ایک کامریڈ دوست نے رات مشورہ دیا، ” ہم آپ کے لیے سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں. آپ یہاں سیٹل ہو جائیں”. ہم نے عرض کیا، "ہر گز نہیں جناب۔ جس ملک نے ہمیں عزت، نام، مقام دیا ہم اُسے مر کر ہی چھوڑیں گے۔ بھلے زندگی مشکل ہو چُکی ہے مگر کیا کریں ہمارا ایک شعر ہے
اپنے اجداد کی قبریں ہیں اسی مٹی میں
ہم تو اس ملک سے ہجرت بھی نہیں کر سکتے
ہماری صورتِ حال مختلف ہے۔ ہماری جڑیں بہت مضبوط ہیں اپنی مٹی میں۔”
ویسے ایک مسئلہ اور بھی ہے۔۔۔۔۔ ہم پراٹھا چاہ نہیں چھوڑ سکتے مطلب یہ کہ برگر نہیں کھا سکتے۔ عادتیں قبروں تک ساتھ رہتی ہیں۔
سو ایسے مشورے دینے والوں کا بہت شکریہ۔
شکیل اعوان ۔۔۔۔۔۔۔ لندن