top header add
kohsar adart

کالم شالم ” تازہ تازہ گُلونا “

کالم شالم  ”تازہ تازہ گُلونا “

 

کسی زبان کو نہ سمجھنے کے شاید کچھ فوائد بھی ہوں، لیکن نقصانات ”بہتیرے“ ہیں۔  انگریزی کی تو بات ہی چھوڑیں، ہم لسان القرآن کو لے لیں۔  اہل عرب کے ہاں جن الفاظ کو روزمرہ عام بول چال میں استعمال کیا جاتا ہے ہمارے ہاں اُنہی الفاظ پر قتل مقاتلے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے "حلوۃ” نامی ایک ملبوس کمپنی کے ایک لباس پر ایک خاتون مرتے مرتے بچی۔ الباکستانی نامی ہجوم نے سمجھا قرآنی آیات کا لباس پہن کر قرآن کی توہین کی گئی ہے۔

ایک بار ہم اسلام آباد کے ایک سٹور میں پسینے میں شرابور، جون کی گرمی کے ستائے داخل ہوئے۔ سامنے ایک مذہبی حلیے میں ملبوس، ہاتھ میں تسبیح، چہرے مبارک پر ”ہک گٹھ“ داڑھی مبارک والے صاحب موجود تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ کچھ شراب دے دیں۔  فورا چہرے کا رنگ لال و لال، منہ مبارک سے ”چہگ“ نکالتے ہوئے ”دو دو من“ کی نادر و نایاب گالیاں دیتے ہوئے بولے ۔۔۔۔
”اوئے کافرا ! میں اتھے شراب خانہ کھولیا اے “
اتنے میں سٹور میں سودا سلف خریدنے کے لیے موجود بہت سے افراد بھی آگئے۔ ہمیں دوکان کے ملازم نے جکڑ رکھا تھا۔ دوکان کا مالک لال مسجد انتظامیہ کو کال ملا رہا تھا کہ ایک پڑھے لکھے شخص نے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔  مولوی نما شخص نے کہا،  "یہ کافر میرے سٹور سے شراب مانگ رہا تھا”.  اُس شخص نے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے وضاحت کی کہ جناب کا عربی حلیہ دیکھ کر ہم نے عربی میں پینے کے لیے جوس مانگا تھا۔ کیونکہ عربی میں شرب کا مطلب پینا ہوتا ہے اور کسی بھی پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں۔  جس پر اُس شخص نے ہجوم کو سمجھایا کہ یہ بندہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔  تب جا کر مجاہدین سے ہماری جان چُھٹی۔

عربی کا ایک لفظ صحابی ہے،  جس کی جمع اصحاب ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب مصاحبت رکھنے والا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ کچھ عرصہ رہا ہو تو آپ اُس کو اپنا صحابی کہہ سکتے ہیں۔  مگر یہ غلطی الباکستان نامی خطے میں کرنے کی کوشش نہ کیجئے گا ورنہ ”رام نام ستے“ میں وقت نہیں لگے گا۔
جس سماج میں عقل پر جذبات حاوی ہو جاویں وہاں سے دانش ہجرت کر جاتی ہے اور پیچھے ایک ”کُھلے ڈنگروں“ کا ریوڑ رہ جاتا ہے۔  دنیا میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں اُن کے الفاظ کا مفہوم ہوتا ہے اور وہ اُسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن الباکستان میں ایسی ریت روایت نہیں ہے۔
جس دن مسلم معاشرے میں قرآن کریم جیسی کتاب  ہدایت کو ثواب سے ہٹ کر راہنمائی حاصل کر کے عمل کے لیے پڑھا گیا، ہمیں فرقوں سے نجات مل جائے گی۔ اور نماز جیسی سوہنی عبادت کو ثواب سے اوپر اُٹھ کر خدا سے ملاقات کے تناظر میں ادا کیا گیا مسلمان معاشرہ بھی نظم وضبط میں آ جائے گا۔
بحثیت انسان ہر شخص کو خدا کے آخری پیغام کو خود پڑھنا سمجھنا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے۔ خدا کا مطلوب و مقصود انسان کیسا ہے۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم قرآنی آیات سنتے، پڑھتے ہیں مگر ہمیں ان کے مطلب و مفہوم کا علم نہیں ہوتا۔

زبان کو سمجھے بغیر کسی لفظ کا اپنا مفہوم اخذ کر لینا مسائل پیدا کرتا ہے۔ جیسے عربی لفظ جو دعائیہ کلمات کے طور پر ہیں "رحمت اللہ” (اللہ کی رحمت ہو)،  رضی اللہ  (اللہ راضی ہو)، علیہ السلام (اس پر سلامتی ہو)۔  سو ضروری ہے کہ اِن الفاظ کو وہیں تک رکھا جائے جہاں تک اِن کا مفہوم ہے۔  قرآن کہتا ہے
{اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقوں میں نہ پڑو }
جب قرآن کی نص سے ثابت ہے کہ دین میں فرقوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو قرآن کے صریح خلاف جا کر فقط اپنی دوکان داری چمکانے کے لیے فرقوں کو ہی دین بنا کر پیش کرتے ہیں۔  اللہ ہمارے حال پر اُس وقت تک رحم نہیں فرمائے گا جب تک ہم اُس کی ہدایات کے مطابق عمل نہیں کریں گے۔  مولانا ظفر علی خان نے ہمیں کیا صائب مشورہ دیا ہے ۔۔۔۔۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 

شکیل اعوان ۔۔۔۔۔ ایبٹ آباد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More