kohsar adart

کالم شالم اسے کہنا ،دسمبر آ گیا ہے

شکیل اعوان

اللہ جانے وہ کون سے عشّاق ِ "نکھتریان ” تھے جن کو "سیالا ” دسمبر بہت من بھایا ہوگا
ہمارا تو "کوٹھے کُٹ کُٹ ” کے "لک تُرٹ ” جاتا تھا، دسمبر آتے ہی ہمیں سردیوں کے” بالن” کا "جگاڑ ” کرنا پڑتا تھا وہ بھی”کہنیاں کھوڑی ” اور "منڈیا گلی "کے جنگلات سے اپنے” مونڈوں پر پہارا گڈا ” اُٹھا کر گھر تک لانا پڑتا تھا جو کم سے کم بیس کلومیٹر تو بنتا ہی تھا اور وہ بھی "پُہجے دانے” کھا کر۔۔۔

ہماری بُبوجان تو "سوسو کرفات تُہرتی "تھیں” سیالے ” المعروف دسمبر شریف کو اور بادل دیکھ کر چیخ اُٹھتی تھی کہ
اللہ "مہوٹی لاہس "۔۔۔ ہمارے لیے دسمبر مشقت کا مہینہ تھا ۔کچے مکانوں کی چھتوں کو ازسرنو مٹی ڈالنا "بلیاں بنناں” تریڑاں مارنا ” ہاتھوں سے” کُترا” کر کے” منجوں گائیوں” کیلے سردیوں کا راشن جمع کرنا، اب یہ ساری” کھینی ” (مشّقت ) فرما کر "اوترے”عشق کیلئے کہاں وقت بچتا تھا۔۔
پھر بھی کچھ نہ کچھ” اکھ مٹکّا ” کر ہی لیا جاتا تھا ،چاہے یک طرفہ ہی کیوں نہ ہو اور شاعری بھی ایسے ہی بےسروپا ہوتی تھی مشت از خروارے

"عشق کی بازی وہ لڑے جوتن کی بازی لڑ سکے
تن کےکپڑےبیچ کرمعشوق راضی کرسکے ”

اب اُس دور میں ہوتے ہی دوجوڑے تھے، جب ایک میلا ہوتا تو دوسرا پہنا جاتا، نیا جوڑا عید پر ہی ملتا تھا ۔اب ایسا دل گردے کا مالک عاشق کون ہوتا جو تن کے کپڑے بیچتا اور ایک جوڑا میلا ہونے پر
الف اللہ ننگا ہوکر صبح سے شام تک
” منج کی ڈھوک” میں بیٹھا رہتا کہ کب کپڑے سوکھیں اور وہ پہن کر باہر نکلے۔۔

اکثر عشّاق وہی ہوتے جو برسرروزگار ہوتے
ورنہ سارا گراں” ویہلے نکموں "کا تھا، جن سے زیادہ سے زیادہ گھر والے "مال ڈنگر” چرانے کا کام لیتے تھے ورنہ اُس دور میں دسمبری عاشق نہیں پائے جاتے تھے، ہاں البتہ دس نمبری عاشق ضرور ہوتے تھے، جن سے والدین بچنے کا مشورہ دیا کرتے تھے اور کہتے تھے "فلانے نال رلا ناں کریا ”

برسرِروزگار عاشق جب پردیس سے پلٹ کر گھروں کو آتے تو دکھیا ماہیے گیتوں کی آوازیں رات بھر ٹیپ پر چلتی رہتیں اور ماسٹرحسین بخش مرحوم کے "کلیجہ کڈھ ” ماہیے سن کر بزرگ خواتین بھی "اتھرو ” بہا کر کہتی ” فلانا تے بوں دل سڑا اے ”

پہا غفار دکان دار جو آج بھی دکان کرتے ہیں، اکثر اپنی ٹیپ” مونڈھے "پر رکھے سفر کرتے، گھر سے دکان تک اب اللہ جانے وہ بھی کہیں مبتلا تھے یا ویسے ہی ؟ اُس وقت کے بہت سے عشّاق کو آج درجن بھر جاکتوں کُڑیوں کے باپ کی صورت میں دیکھ کر سوچتا ہوں اگر عشق کا انجام یہی ہونا تھا تو اتنی "کھینی ” (مشقت ) کرنے کی کیا ضرورت تھی” ٹِک ” رہتے دسمبری عشق کے بغیر بھی افرادی قوت میں اضافہ ہو ہی جانا تھا، کاہے کو رات بھر ماسٹر جی کے ماہیے سن کر آہیں بھرنا، کہاں کی دانشمندی تھی ۔

خیر آج چونکہ سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے، ہر عاشق چاہتا ہے کہ میری اسٹوری دنیا تک پہنچے۔ جوبات پہلے” چھپ لُک ” کے کی جاتی تھی اب سرعام کی جاتی ہے، سو
دسمبر ہرسال کی طرح آگیا ہے۔ عشاق ِ "نکھتریان” کی دل سڑی پوسٹیں انجواۓ کریں
اور بےوزن شعر لکھیں۔ شعری ذوق کی” ماء پین ہک” کریں۔ تمام اصل حقائق پر مبنی کُتب بچوں کی پہنچ سے دُور رکھیں۔ طبیعت زیادہ خراب ہو تو استاد چاہت فتح علی خان سے رجوع کریں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More