ڈسانائیکےسری لنکا کے صدر منتخب
سری لنکا کے عوام نے بدعنوانی کے خلاف لڑنے اور ملک کی نازک اقتصادی بحالی کو مضبوط کرنے کے وعدہ کرنے والے مارکسی رہنما ’انورا کمارا ڈسانائیکے‘ کو منتخب کر لیا۔
کچھ حریفوں کی طرح سیاسی ورثے کے حامل نہ ہونے والے 55 سالہ ڈسانائیکے نے ووٹوں کی گنتی کے دوران ابتداء سے آخر تک لیڈ برقرار رکھی اور موجودہ صدر رانیل وکرمسنگھے اور اپوزیشن رہنما ساجت پریماداسا کو شکست دی، ووٹوں کی گنتی کے بعد ان کی فتح کی تصدیق ہو گئی، اس موقع پر ڈسانائیکے نے کہا کہ ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس ملک کو دوبارہ سنوار سکتے ہیں، ہم ایک مستحکم حکومت بنا سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں، میرے لیے یہ کوئی عہدہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔‘‘
یہ انتخابات وکرمسنگھے کے بارے میں ایک ریفرنڈم تھے جو کہ قرضوں میں ڈوبے ملک کی نازک اقتصادی بحالی کی قیادت کر رہے تھے، تاہم اس بحالی میں اہم کردار ادا والے سخت مالی اقدامات کے باعث ووٹرز میں بے چینی پیدا ہوئی، وکرمسنگھے نے 17% ووٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی، وکرمسنگھے نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’جناب صدر! میں سری لنکا کو بڑے پیار کے ساتھ آپ کے حوالے کرتا ہوں ، اس عزیز بچے کو جسے ہم دونوں بہت محبت کرتے ہیں‘‘۔
پریماداسا نے 32.8% ووٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی، انتخابات میں فتح حاصل کرنے والے 2019 کے صدارتی انتخابات میں صرف 3% ووٹ حاصل کرنے والے ڈسانائیکے نے 42.3% ووٹ حاصل کیے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
یہ سری لنکا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ صدارتی انتخاب کا فیصلہ دوسرے ووٹوں کی گنتی کے ذریعے کیا گیا کیونکہ دونوں اعلیٰ امیدواروں نے فتح کے لیے ضروری 50% ووٹ حاصل نہیں کیے، انتخابی نظام کے تحت ووٹرز اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے 3 ترجیحی ووٹ دیتے ہیں، اگر کوئی امیدوار پہلے گنتی میں 50% ووٹ حاصل نہیں کرتا تو دوسرے ووٹوں کی گنتی کے ذریعے اوپر 2 امیدواروں میں فاتح کا تعین کیا جاتا ہے۔
سری لنکن الیکشن کمیشن کے مطابق 17 ملین اہل ووٹروں میں سے تقریباً 75% عوام نے اپنے ووٹ ڈالے، یہ ملک کا پہلا انتخابات تھا جب اس کی معیشت 2022 میں سخت غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے باعث شدید متاثر ہوئی جس کی وجہ سے ضروری اشیاء جیسے کہ ایندھن، ادویات اور گھریلو استعمال کے لئے گیس کی درآمد نہیں کر سکی، مظاہروں نے اس وقت کے صدر گوٹابیا راج کو ملک چھوڑنے اور بعد میں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
نومنتخب صدر ڈسانائیکے نے ٹیکس میں کمی کا وعدہ کیا ہے جو آئی ایم ایف کے مالیاتی اہداف پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور 25 بلین ڈالر کے قرض کے رینیول کے وقت سرمایہ کاروں میں تشویش پیدا کر سکتا ہے، تاہم انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ کہتے ہوئے ایک مصالحتی انداز اپنایا کہ تمام تبدیلیاں آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کے بعد کی جائیں گی اور وہ قرض کی واپسی کے لیے پرعزم ہیں۔
سری لنکن معیشت نے آئی ایم ایف معاہدے کی مدد سے ایک محتاط بحالی کی ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ یہ 3 سالوں میں پہلی بار اس سال ترقی کرے گی اور افراطِ زر بحران کی بلندی سے 70% سے کم ہو کر 0.5% پر آ گئی ہے، لیکن مہنگی ہوتی روزمرہ زندگی کے استعمال کی اشیاء کئی ووٹروں کے لیے ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے کیونکہ لاکھوں افراد غربت میں پھنسے ہوئے ہیں اور بہت سے لوگوں نے بہتر مستقبل کی امیدیں نئے رہنما پر وابستہ کر رکھی ہیں۔