پیغام رسانی کے پرانے طریقے
ماضی کے جھروکوں سے.......محمد نعیم
کبھی آپ نے سوچا کہ جب فون، انٹرنیٹ اور تیز ترین کورئیر کی سروس نہیں تھی۔ لوگ دوسروں تک اپنا پیغام کیسے پہنچاتے تھے؟
چونکہ شہروں میں ذرائع ابلاغ جدید قسم کے ہوتے ہیں۔ اور میرا گاؤں دیہاتوں کے حوالے سے لکھنے کا ایک تسلسل چل رہا ہے تو اس تحریر کا موضوع بھی پہاڑی علاقوں کے گاؤں دیہات میں پیغام رسانی ہی ہے۔
لاؤڈ اسپیکر سے پہلے:-
گھر کے بڑوں سے سنا کہ جب مساجد میں ایمپلی فائر سسٹم نہیں ہوتا تھا اور کسی جگہ پر فوتگی ہو جاتی تو زیادہ طاقتور آواز والا شخص کسی پہاڑ کی اونچائی پر کھڑے ہو کر اعلان کرتا۔ اور اطلاع کے آخر میں قریبی گاؤں کے کسی بندے کا نام لے کر کہتا کہ فلاں بھی اسی طرح اعلان کر دے۔ یوں پے در پے مختلف جگہوں سے ایسی صدائیں بلند ہوتیں۔ جو سنتا آس پڑوس میں بتا دیتا۔ یوں پورے گاؤں میں اطلاع پہنچ جاتی۔
ایمرجنسی سگنل:-
پہاڑوں پر بنے گھر سمجھیں یوں لگتے ہیں جیسے آمنے سامنے ہوں۔ مگر فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور اترائی اور چڑھائی پر مشتمل راستوں کی وجہ سے پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ یوں آواز بھی دور تک جانے کا چانس نہ ہو اور کسی کو کوئی اطلاع بھی دینی ہو تو گھر کی چھت پر ایک چادر لٹکا دی جاتی تھی۔ وہ چادر چھت سے آگے دروازے کی جانب یوں لٹکائی جاتی کہ اگر اس گھر کا کوئی فرد کہیں دور گیا ہوا ہو اور ایسی جگہ پر موجود ہو جہاں سے اس گا گھر نظر آتا ہو تو اس چادر کو دیکھ کر فوراً سمجھ جائے کہ گھر میں سب اچھا نہیں ہے۔ اور جلد ازجلد گھر پہنچنے کی کوشش کرے۔
ایک دوسرا طریقہ جو نوجوان آپس میں ایک دوسرے کو کوئی اشارہ دینے کے لیے استعمال کرتے تھے وہ آئینے کی چمک تھا۔ آئینے کو سورج کے سامنے کریں تو دن کی روشنی میں اس کی چمک کے ذریعے دور تک پیغام پہنچا دیتے۔
جبکہ رات کی روشنی میں یہی کام ٹارچ کے اشارے سے کیا جاتا۔ SOS سگنل کی طرح ٹارچ کو بند کرنے اور چلانے کے مختلف اشارے ہوتے تھے۔
سنیا (سندیسا):-
مقامی طور پر ایک سے دوسرے گاؤں یا محلے میں کوئی پیغام پہنچانے کے لیے مختصر خط بھی لکھے جاتے۔ ان خطوط کو رقعہ کہا جاتا ، اور یہ ڈاکخانے کے بجائے کسی جاننے والے کے ہاتھ دوسری جگہ پہنچائے جاتے۔
اکثر کراچی میں کام کرنے والے گاؤں کے لوگ بھی یہی طریقہ استعمال کرتے کہ اگر کوئی کراچی یا دوسرے شہر سے گاؤں جا رہا ہوتا تو کوئی سامان یا پیسے وغیرہ اس جانے والے کے ہاتھ بھیجتے اور ساتھ خط بھی لکھ دیتے۔ اگر کوئی شادی شدہ ہوتا تو عموماً والدہ، بھائی یا بیگم و بچوں کے لیے الگ الگ خط لکھ دیتا۔
بعض اوقات کئی ہفتوں بعد گاؤں میں کسی فوتگی کا کراچی پتہ چلتا اور اس کیمونٹی کے لوگ ایسا خط پہنچنے کے بعد وہاں موجود افراد سے تعزیت کرنے جاتے۔
کیسٹ
ٹیپ ریکارڈر کے دور میں پردیسوں کا مفید مشغلہ کیسٹ ریکارڈ کر کے گھر بھیجنا بھی ہوتا تھا۔ اسی طرح گھر والے بھی اپنے تمام بچوں اور والدین وغیرہ کی آوازیں کیسٹ میں بھر کے کراچی بھجوا دیتے۔
ڈاکخانے کا استعمال
ڈاکخانے کا استعمال عموماً طالب علم اپنی تعلیمی ضروریات کے لیے کرتے۔ اسی طرح ریٹائرڈ افراد پینشن یا منی آرڈر وغیرہ کا فائدہ بھی اٹھاتے۔ اگر کسی کو جلد کوئی خط کہیں ڈاکخانے کے ذریعے بھیجنا ہوتا تو اس کے لیے رجسٹری کی اصلاح استعمال کی جاتی۔ رجسٹری والا خط نارمل پوسٹ کے مقابلے میں جلدی پہنچ جاتا۔
انٹرکام
مختلف محلے والوں نے اریب قریب میں بات کرنے کے لیے جب انٹر کام آئے تو وہ بھی لگوا لیے۔ یہ انٹرکام پانچ چھ سو میٹر کے فاصلے میں موجود گھروں میں بات چیت کے لیے استعمال ہوتے۔ مگر اس میں الگ الگ ڈائلنگ کا کوئی سسٹم نہ ہوتا۔
ٹیلی فون (لینڈلائن اور موبائل) سے پہلے کی یہ صورتحال لکھی ہے۔
مجھے یہی عمومی سے طریقے یاد ہیں۔ اگر کسی کو پیغام رسانی کا کوئی اور طریقہ بھی معلوم ہو تو اس پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں اضافہ کر سکتا ہے۔
آخر میں 2019 کی ایک تربیتی نشست میں ایک نوجوان نے قمربدایونی کا ایک شعر سنایا تھا جو اسی مناسبت سے ہے۔ اس کے ساتھ تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں