پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے لیے چار "سی”
ہم نے جب دیکھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھانے والوں کی وہ اہمیت بھی نہیں جو اکاؤنٹس کلرک کی ہے تو تاریخ کے بعد ہم نے اردو لیکچرر شپ کو بھی خیر آباد کہہ دیا۔ اب سوال یہ کھڑا ہوا کہ کیا کیا جائے۔ راجہ مشتاق انٹرپرائزز کے راجہ ہمایوں کے پاس سعودیہ کی ایک کمپنی کا سیکرٹری کا ویزہ تھا۔ ہم نے پاسپورٹ جمع کروایا اور چند ہفتوں کے بعد ریال کمانے الخبر، سعودی عرب پہنچ گئے۔
زندگی میں پہلی بار پردیس کا منہ شریف دیکھا تھا۔ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ لیکن تہیہ کر کے آئے تھے کہ واپس نہیں جانا اس لیے خود کو کندن بنانے کے لیے دکھ، درد اور تنہائی کی بھٹی میں جھونک دیا۔ ابتدائی کچھ مہینے ہیڈ آفس میں گزرے لیکن پھر کمپنی نے اپنے نئے ہسپتال پروجیکٹ کے لیے منتخب کر لیا۔
ہسپتال میں سعودیوں اور دیگر عربوں کے ساتھ ساتھ امریکی، کینیڈین، برطانوی اور یورپی افسران بھی کام کر رہے تھے۔ مغربی دنیا کے لوگ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ اس لیے انھوں ایس ایم سی میں بھی سٹاف کے لیے ورکشاپیں شروع کر دیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ نیا سٹاف باہر سے لانے کے بجائے آدھی آسامیوں پر پہلے سے موجود سٹاف نے کامیابی سے کام کرنا شروع کر دیا۔
انہیں ورکشاپوں میں پروفیشنل لائف کے حوالے سے کئی اصول سکھائے گئے۔ ایک ورکشاپ میں ہماری کینیڈین نرسنگ ڈائرکٹر نے ہمیں سکھایا کہ پروفیشنل زندگی میں کامیابی کے لیے چار "سی” بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔
ان چاروں "سی ز” کا دارومدار ایک بنیادی "سی” پر ہے۔ اگر وہ "سی” نہ ہو تو بقیہ چاروں "سی ز” آپ کو عام درجے کی کامیابی سے ہی نواز سکتے ہیں۔
ہم اردو میڈیم لوگ ویسے ہی انگریزی بولنے والوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور جب ورکشاپ کا آغاز ہی ایسا ہو تو دماغ میں پٹاخے سے بجنا شروع ہو جاتے ہیں اور کوئی بات بھی کر رہا ہو تو "ٹک ٹک ٹک ” کی ہی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال ہمارے کچھ سعودی، مصری اور اردنی خواتین و حضرات کا تھا۔ پاکستانیوں کو انگریزی بولنے میں مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی کہ ہم بچپن سے ہی اپنے سامراجی آقا کی زبان سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ ادب کے طالب علم کا بزنس سٹڈیز سے کیا لینا دینا؟؟
میم شیرن نے ایک دم میری طرف اشارہ کر کے ہال میں موجود ہسپتال کے مختلف شعبوں کے چنیدہ لوگوں کی توجہ مبذول کروائی۔۔۔۔
Look at Mr. Abbasi. Do you know why is so popular at SMC
پٹاخوں کے بجائے مجھے کچھ الفاظ سمجھ میں آنے شروع ہو گئے۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ میری چوری پکڑی گئی ہے۔ لیکن میم شیرن تو میری تعریف کر رہی تھیں۔ ہوا یوں تھا کہ ہسپتال کا مینوئل تیار ہوا تو اسے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں طبع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ میں کیونکہ ایگزیکٹو سیکرٹری بھی تھا اس لیے میڈیکل ڈائریکٹر کی ڈاک میرے پاس آتی تھی۔ جب مینوئل کا ڈرافٹ میڈیکل ڈائریکٹر کو بھیجا گیا تو اس دن جمعرات تھی اور میڈیکل ڈائریکٹر نے تین دن بعد دفتر آنا تھا۔ اس لیے میں رات کو مینوئل اپنے ساتھ رہائش پر لے گیا۔ انگریزی والے سیکشن کو جب میں نے پڑھا تو مجھے لگا کہ ایک تو زبان بہت مشکل استعمال ہوئی ہے اور پھر گریمر کی بہت غلطیاں ہیں۔ میں نے پنسل اٹھائی اور درجنوں لفظوں یا جملوں کو خط کشیدہ کر دیا۔
اتوار کو میڈیکل ڈائریکٹر کو ڈاک کے بارے میں تفاصیل بتائیں۔ کئی میمو ایسے تھے جن کا جواب میں نے دے دیا تھا، ان کی فائل میں نے پیش کر دی تاکہ میڈیکل ڈائریکٹر وقت ملنے پر پڑھ لے اور کہیں ضرورت پڑے تو ان کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرے۔ کچھ میمو کے ڈرافٹ تیار تھے جنھیں پڑھ کر میڈیکل ڈائریکٹر نے دستخط کرنے تھے۔ اور آخر میں مینوئل کی باری آئی۔ میں اس وقت تک پورا مینوئل پڑھ کر اس کے ہر صفحے پر بیل بوٹے بنا چکا تھا۔ میڈیکل ڈائریکٹر نے سارے ڈائرکٹرز کو بلا لیا۔ مجھے کہا گیا کہ انھیں بتایا جائے کہ مینوئل میں کیا مسائل ہیں۔ مشکل انگریزی کے حوالے سے کہا گیا کہ مقامی لوگ تو عربی والے سیکشن سے استفادہ کریں گے، اس لیے انگریزی والا سیکشن ارامکو اور دوسرے بڑے ہسپتالوں سے آنے والے مریضوں کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے۔ لیکن میرا نکتہ نظر یہ تھا کہ بہت سے ایسے لوگ بھی مینوئل سے استفادہ کریں گے جن کی مادری زبان نہ عربی ہے اور نہ ہی انگریزی لہذا زبان عام فہم رکھی جائے۔ اس تجویز کو مان لیا گیا۔ جب بات گرائمر کی غلطیوں کی آئی تو ہمارے امریکن دوست نے کہا کہ وہاں تو یہ سب چلتا ہے لیکن میڈیکل ڈائریکٹر نے تین لوگوں کی کمیٹی بنا دی جس میں نرسنگ ڈائرکٹر، ہیڈ آف ڈرمٹالوجی (برٹش) اور راقم الحروف شامل تھے۔ ہم نے ایک مہینے میں مینوئل کو بہتر صورت میں پیش کر دیا۔ اس کے بعد بی او جی میٹنگز کے منٹس بھی توجہ سے پڑھے جانے لگے۔
جب آہستہ آہستہ ڈائرکٹرز کے علم میں آیا کہ میں نے اپنے کیریئر میں بزنس نہیں پڑھا، نہ انگریزی پڑھی، نہ کمپیوٹر میں ڈگری حاصل کی بلکہ میں تو اردو ادب کا طالب علم ہوں تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ لہذا فیصلہ یہ کیا گیا کہ ہر ورکشاپ میں مسٹر عباسی کی شرکت لازمی ہو گی۔ میم شیرن اسی لیے تمام سٹاف کو میری طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ اس نے کہا۔۔۔۔۔
What I mean by the inevitable "C” is Competence.
And the value of Mr. Abbasi at SMC is sheerly because of his competency.
اب تھوڑی سی دلچسپی پیدا ہوئی۔ یعنی بنیادی طور پر قابلیت، استعداد اور رجحان ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر باقی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
پہلی چیز جو ہمیں سکھائی گئی وہ تخلیقیت تھی۔ یعنی
"Creativity”
آپ کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو، آپ تفکر و تدبر کی عادت پیدا کریں۔ اپنے کام اور اس کے طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لیں۔ آپ اس کو بہتر بنانے اور اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے آئیڈیاز پر کام کرتے رہیں۔
دوسرے نمبر پر Critical Thinking اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو کام کر رہے ہیں اور جس طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں آپ اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ اس کو ہر زاویے سے جانچیں۔ اور ساری معلومات اور ہر پہلو کو پرکھنے کے بعد حقیقت پسندانہ اور پروفیشنل فیصلہ کریں۔ آپ کے پاس اس بارے میں واضح دلائل ہوں اور اس سلسلے میں آپ سوال کرنے والے کو قائل کر سکیں۔
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے ابلاغ کا یعنی Communication ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ یہ ہنر سیکھیں کہ آپ تحریر و تقریر کے ذریعے موثر طریقے سے اپنے خیالات، تجاویز، منصوبے اور مدعا بیان کر سکیں۔
اور چوتھا اور نہایت اہم عنصر ہے "شراکت کاری”، باہمی تعاون یا ٹیم ورک یعنی Collaboration۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اکیلے پہاڑ سر پر اٹھانے کے بجائے ایک ٹیم پلیئر کے طور پر کام کیا جائے۔ ٹیم کے ایک ممبر کے طور پر اپنے رفقائے کار کے ساتھ مضبوط پروفیشنل تعلقات استوار کیے جائیں۔ ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔ مل کر آگے بڑھا جائے۔ ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھا جائے۔
یہ کئی برس پرانے نوٹس ہیں جن سے ہمارے نوجوان آج بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ جدید عہد میں کچھ مزید "سی ز” بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔
Computational thinking
اس سے مراد صرف کمپیوٹر نہیں ہے۔ بلکہ اسے آپ ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال اور وقت بچانے، غلطیوں سے مبرّا کام کرنے ایک کام کو فقط ایک بار کر کے کئی جگہوں پر اس کا استعمال کرنے اور عالمی گاؤں کے اعلی معیارات تک رسائی کا انداز فکر کہہ سکتے ہیں۔
Cultural competence
دنیا جب عالمی گاؤں بن گئی ہے تو مختلف ثقافتوں، نسلوں اور جغرافیوں کے لوگ ایک دوسرے سے مربوط ہو رہے ہیں۔ اس لیے وہی لوگ زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں جو زیادہ انسان دوست ہوں۔ جس طرح آپ عزت و تکریم کے مستحق ہیں اسی طرح کرہ ارض پر موجود ہر انسان کی یہی خواہش ہے اور اس کا بھی یہی استحقاق ہے۔
اور آخر میں ایک نکتے پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھیں کہ آپ کا لباس، آپ کا انداز گفتگو، آپ کا اٹھنا بیٹھنا اور آپ کی تراش خراش بھی غیر اہم نہیں ہے لیکن اصل چیز ہے "کردار”. جسے انگریزی میں Character کہتے ہیں۔۔ اس "سی” پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ جاپانی اس وقت "کردار” کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ حال آنکہ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب بھی نہیں ہے اور وہاں کوئی رسول بھی مبعوث نہیں ہوا۔
(جاری ہے)
راشد عباسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملکوٹ، ہزارہ