![](https://kohsarnews.com/wp-content/uploads/2025/02/Flour-ghee-oil-rice-in-Pakistan-are-devoid-of-basic-nutrients.jpg)
پاکستان میں آٹا،گھی،تیل،چاول بنیادی غذائی اجزاء سے محروم
ماہرین کا لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن پر زور
لاہور: پاکستان میں بیشتر اجناس، خاص طور پر آٹا، گھی، تیل اور چاول، اہم غذائی اجزاء جیسے زنک، فولاد، وٹامن اے اور ڈی سے محروم ہیں، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں۔
پنجاب میں 52 فیصد بچے خون کی کمی، 49 فیصد وٹامن اے کی کمی، اور 70 فیصد سے زائد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 41 فیصد خواتین اینیمیا اور 80.5 فیصد وٹامن ڈی کی کمی میں مبتلا ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق، اس "چھپی ہوئی بھوک” یا غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن ہی واحد مؤثر اور پائیدار حل ہے، جو صحت مند اور مضبوط معاشرے کی تشکیل میں مدد دے سکتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق آئرن، فولک ایسڈ، وٹامن اے، وٹامن ڈی، زنک اور وٹامن بی 12 جسمانی نشوونما اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے نہایت ضروری ہیں، لیکن پاکستان میں عام استعمال ہونے والی غذائیں ان بنیادی غذائی اجزاء سے محروم ہیں۔
عالمی بھوک انڈیکس میں پاکستان 121 ممالک میں سے 99ویں نمبر پر ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
پنجاب، جو کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل ہے، ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں تاحال لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا پہلے ہی اس حوالے سے قوانین منظور کر چکے ہیں۔
یہ صورت حال اس لیے بھی تشویشناک ہے کیونکہ پنجاب میں غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ صوبے میں 41 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں، 25 فیصد میں وٹامن اے کی کمی ہے، جبکہ 80.5 فیصد خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے۔
نیوٹریشن انٹرنیشنل کے نیشنل پروگرام مینیجر برائے فوڈ فورٹیفیکیشن ضمیر حیدر کے مطابق خوراک میں وٹامنز اور معدنیات کی کمی کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں غیر متوازن خوراک، صرف مخصوص غذاؤں پر انحصار، اور غربت شامل ہیں، جو کہ غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان غذائی کمیوں کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے، قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے، دورانِ حمل پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خوراک میں وٹامنز اور معدنیات شامل کرنے کا عمل دنیا بھر میں غذائی کمی کے خاتمے کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی سمجھا جاتا ہے۔ ضمیر حیدر کے مطابق فوڈ فورٹیفیکیشن ایک کم خرچ اور مؤثر حکمت عملی ہے جس سے معاشرے کے تمام افراد کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے غذائیت فراہم کی جا سکتی ہے۔
دیگر ماہرین بشمول نیوٹریشن انٹرنیشنل کی کنٹری ڈائریکٹر، ڈاکٹر شبینہ رضا نے بھی خبردار کیا کہ غذائی قلت ملک کی معیشت پر بھی سنگین اثر ڈال رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غذائی قلت پر قابو نہ پانے کے باعث پاکستان کو سالانہ 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوتا ہے، جس میں پیداوار میں کمی، صحت کے اخراجات میں اضافہ اور بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں کمی شامل ہیں۔
ڈاکٹر شبینہ نے زور دیا کہ خوراک میں غذائی اجزاء شامل کرنا ہی اس مسئلے کا سب سے سستا اور پائیدار حل ہے، کیونکہ اس سے ہر گھرانے تک ضروری وٹامنز اور معدنیات پہنچائے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شبینہ کے مطابق فوڈ فورٹیفیکیشن غذائی قلت پر قابو پانے کا سب سے مؤثر اور کم لاگت طریقہ ہے۔ اس کے ذریعے ہم وٹامنز اور معدنیات کو عام خوراک کا حصہ بنا کر ہر فرد تک پہنچا سکتے ہیں، جس سے صحت میں بہتری، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور مجموعی طور پر معیشت کو فائدہ ہوگا۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو پاکستان کے بہتر اور خوشحال مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
معروف ماہر غذائیت ڈاکٹر ارشاد دانش کے مطابق آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامن اے کی کمی بچوں میں خون کی کمی، پیدائشی نقائص اور کمزور قوتِ مدافعت کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوڈ فورٹیفیکیشن ایک سستا اور مؤثر طریقہ ہے جو طویل المدتی اقتصادی نقصانات کو روک سکتا ہے اور صحت کے نظام پر دباؤ کم کر سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق آٹے میں آئرن شامل کرنے پر ہر ایک ڈالر کے بدلے 8 ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے، فولک ایسڈ شامل کرنے سے پیدائشی نقائص اور زچگی کی پیچیدگیاں کم ہو سکتی ہیں، جس سے ہر ڈالر کے بدلے 46 ڈالر کا معاشی فائدہ ہوتا ہے، جبکہ آئیوڈین ملا نمک سے ہر ڈالر پر 30 ڈالر کا منافع ہوتا ہے۔
ماہرین صحت اور پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کو فوری طور پر لازمی فوڈ فورٹیفیکیشن کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے، تاکہ اس پر سختی سے عمل درآمد ہو اور معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان کے مطابق پاکستان مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خوراک میں وٹامنز اور معدنیات شامل کرنا بچوں کی بقا، زچہ و بچہ کی صحت، معاشی استحکام اور ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ مضبوط قوانین اور حکومتی اقدامات کے بغیر ہم غذائی قلت پر قابو نہیں پا سکتے۔