پانچواں موسم ….. شاہین کاظمی کا لازوال افسانہ
بارش اب بھی زوروں پر تھی۔اندھیرے میں بجلی کے کوندے زمین کی طرف لپکتے دکھائی دینے لگے
،اس نے گہرا سانس لے کر روشنی گل کی اور سونے کے لیے کمرے میں چلی آئی،ہاتھ میں پکڑی کتاب بستر پر رکھ کر پردے برابر کرنے لگی،چاند پورا تھا نیند جانے کہاں رہ گئی تھی ،اس نے بے خیالی میں ورق پلٹا
,, پانچواں موسم,,
"زندگی میں پانچواں موسم اترے تو اس کا حسن معدوم ہونے لگتا ہے،راستہ کوئی بھی ہو غبار اٹھتا ہی ہے۔انگور کی بیلوں پر سانپ چڑھ جائیں تو شراب زہریلی ہو جاتی ہے،شب فتنہ کب کٹے گی؟میرے آنگن میں کھلے گل لالہ پر بارود کی راکھ پڑی ہے۔ تم چراغ بجھنے تک لڑتے رہنا۔
اس نے کتاب بند کر دی،ذہن کہیں اور بھٹک گیا تھا۔
تمہیں لڑنا ہوگا،میرے لیے، اس مٹی کے لیے۔۔
اس کچے سے کمرے کے کونے میں جھلنگا سی چارپائی پر پڑے وجود میں اگر کچھ زندہ تھا تو اس کی نیل گو سمندروں جیسی آنکھیں، یہ ماجد کی ماں تھی۔
"مجھ سے وعدہ کرو تم لڑو گے،جب تک ساری بلائیں ختم نہیں ہو جاتیں تم لڑو گے،بوڑھے سرد ہاتھ ماجد اور نوما کے ہاتھوں پر جمے ہوئے تھے،آنکھوں میں ابھرتی ڈوبتی حسرت اور امید ماجد کا سر بے اختیار ہاں میں ہل گیا۔
"ہم لڑیں گے ماں آخری دم تک لڑیں گے،ماجد کی آواز سن کر بوڑھے نیلگو سمندروں میں جوار بھاٹا اٹھنے لگا۔ماجد جانتا تھا ان نئے بدیسی بھیڑیوں سے لڑنا آسان نہ ہوگا، جبکہ دھرتی کے سینے پر روبل کی تال پر رقص کرتے سوروں کے لگائے زخم ابھی تازہ تھے۔ سوروں کو دھرتی سے باہر ہانک تو دیا گیا تھا، لیکن امن واپس نہ آ سکا چاند ابھرا تو بھیڑیے گھپاؤں سے باہر نکل آئے،ان کے لے پالک نے جب ڈوریاں توڑ کر اپنے آزادانہ رقص کا آغاز کیا تو نائکہ کی تیوری چڑھ گئی۔ اس کی نظروں کا زاویہ بدلا تو وہی لے پالک جو بہت چنیدہ تھے نظروں سے گر گئے۔ لیکن انہیں پرواہ تھی۔انہوں نے نئی دال چنی اور دھمال شروع ہو گیا،بندوقوں کے سائے میں ابھرتے نغموں میں سوز امڈ آیا۔لہولہان دھرتی دم بخود تھی،ہر طرف بہنے والا خون اپنا تھا۔
جنت کی اور جاتی پگڈنڈیوں پر جب موت اگنے لگی تو ایک دن وہ اپنے بچے کی انگلی تھامے وہاں سے نکل پڑی،
"چلو میرے ساتھ” اس نے ماجد کا ہاتھ تھام لیا۔
"نہیں جا سکتا ”
"کیوں”
"ماں سے کیا وعدہ نبھانا ہے”
"کس سے لڑوگے؟”جب دونوں اطراف اپنا ہی سینہ ہو بندوق کس پر چلے گی۔۔۔اس کے لہجے میں دکھ تھا؟
لیکن وہ غلط تھی،بندوق کی نال شرارے اگل رہی تھی۔سوروں کی جگہ بھیڑیے شہر میں دندنانے لگے۔اس نے ایک نظر مڑ کر دیکھا شہر ملبے کا ڈھیر تھا،اپنے انسو چھپاتے ہوئے وہ قافلے کے ساتھ ہو لی۔یہ اعلی سالاروں کا قافلہ تھا۔اور سمندر پار جا کر رکا ساجد کے بغیر زندگی مشکل ضرور تھی ناممکن نہیں جلد ہی زندگی میں رچاؤ آنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کے شیریں ہونٹوں سے
پھوٹنے والے نغموں کی مدھر لے
آتش شوق بھڑکا دیتی ہے
جیسے خشک گھاس میں گرنے والی ننھی سی چنگاری
زخمی کونج کی پکار
روح میں اتر رہی ہے
دن رات کے سینے میں جذب ہو رہا ہے
مجھے دیدار کی مے دو
کہ پیاس بڑھ رہی ہے
محبت اگر دلوں میں حلاوت نہ جگائے
تو اس کے اجزا میں پاکیزگی کی ترتیب
الٹ گئی ہے
چاند کی ساحر کرنیں
پھول پر منعکس ہیں
زیست انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے
سچے سر کے لیے من کا اجلا ہونا ضروری ہے
من میں کدورتوں کا میل سر گدلا کر دیتا ہے
اور وہ محض کانوں میں اٹک کے رہ جاتا ہے
اگر سر من میں اجالا نہ پھونکے
تو اس کے اجزاء میں پاکیزگی کی ترتیب الٹ گئی ہے۔
نوجوان شاعر کے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا۔در و دیوار لرز اٹھے تھے۔وہ تیزی سے اٹھا اور پتھریلی دیواروں والے سرد تہہ خانے کے کونے میں دھری اکلوتی موم بتی گل کر دی،اسے اپنے ہاتھوں پر ننھے ننھے سرد ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا،یہ نوما تھی۔اس کی بھوری آنکھوں میں خوف تھا،جنگی جہاز سے گرنے والی موت نے زندگی سے موت کو جاتی سرحد پر بھیڑ جمع کردی،بدن ٹکروں میں بٹنے لگے نوما کو سینے سے لگائے وہ ٹھنڈی دیوار سے ٹیک لگائے ساکت بیٹھا تھا۔چھوٹے سے روشندان کے ٹوٹے شیشے سے شمالی ہوا برف کے ذرات اندر اچھال رہی تھی۔اس نے ٹٹول کر پرانا کمبل اپنے اوپر کھینچ لیا۔اچانک خاموشی چھا گئی۔شاید جہاز واپس جا چکے تھے اور نوما بھی سو گئی تھی۔اس کے سانسوں کی ہلکی سی آواز تہ خانے کے بھیانک ماحول میں بھلی لگ رہی تھی۔لطف اللہ نے اسے بستر پر لٹا دیا۔اس کے گالوں پر آنسوؤں کے نشان تھے۔اس نے اپنی ادھوری نظم پھر سے لکھنے کی کوشش کی،لیکن منتشر ذہن ساتھ نہ دے سکا۔کاغذوں کی پلندے میں بہت سی آدھی ادھوری نظمیں اور گیت مکمل ہونے کے منتظر تھے۔بالکل اس کی ادھوری زندگی کی طرح۔۔۔
مجھے لکھنا ہے اس سے قبل کہ وقت کے کھنڈر میں زندگی کی چاپ معدوم ہو جائے،مجھے لکھنا ہے۔،،وہ تیزی سے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا۔
"آنے والوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ ہم کس کرب سے گزرے ہیں؟”
"میں جانتا ہوں اچھا وقت دور نہیں-"اس نے نوما کو دیکھا،وہ ابھی تک سو رہی تھی۔
"سوتی رہو میری گڑیا! دنیا دکھوں سے بھر گئی ہے۔موت زندگی پر پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔یہ سب کچھ تمہارے دیکھنے کے لائق نہیں۔سوتی رہو میری گڑیا”! اس کی خود کلامی جاری تھی۔
"لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں دشمن دروازے پر بیٹھا ہو تو کیسا لگتا ہے۔جب رگوں سے زندگی نچڑ رہی ہو تو سانس سینے میں اٹک جاتی ہے۔میری باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی۔تم زندگی کو اپنے انداز سے دیکھو گی لیکن نوشتہ دیوار بھی پڑھنا ہوگا۔ زندگیوں میں اندھیرے در آئیں تو امید مرنے لگتی ہے۔لیکن کسی کو تو جگنوؤں کی کھوج میں جانا پڑتا ہے۔”سائیں سائیں کرتی ہوا مردہ تنوں کی باس لیے گلی کوچوں میں کرلا رہی تھی۔
وہ بس خالی خالی نظروں سے کاغذوں کو گھورتا رہ گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی. اس نے کھونٹی پر لٹکی میلی سی جیکٹ چڑھائی اور ملبہ ہٹاتے ہوئے باہر رینگ آیا۔رات ہونے والی بمباری نے بہت تباہی مچائی تھی۔تہ خانے میں ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ رہا تھا۔ہر طرف گہرا سکوت تھا۔کھانے کی تلاش میں جیسے ہی وہ نکڑ مڑا گلی کے کونے پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فوجیوں کا دستہ دیکھ کر ٹھٹک گیا۔وہ تیزی سے واپس پلٹا لیکن فوجی اسے دیکھ چکے تھے۔تڑ تڑ کی تیز اواز کے ساتھ اسے اپنے شانے اور کمر میں آگ اترتی محسوس ہوئی۔وہ وہیں ملبے پر ڈھیر ہو گیا۔اخری خیال جو اس کے ذہن میں آیا وہ نوما کا تھا۔
ہر روز شام کو اپنے اپنے گھونسلوں میں لوٹتی چڑیاں بہت شور کرتیں۔وہ اس شور کا عادی تھا لیکن کبھی کبھی جانے کیا ہوتا ہے شور اعصاب پر کوڑے برسانے لگتا اور وہ انتہائی بے چین ہو کر چڑیوں پر برس پڑتا۔آج بھی وہ اسی کیفیت کا شکار تھا۔بئیر کا آخری گھونٹ گلے میں اتار کر اس نے بوتل کو پوری طاقت سے تنے کی اچھالا اور چلانے لگا۔پارک کے داہنی طرف پرانے بینچ پر لیٹا ہوا بوڑھا ایک دم چونک کر اٹھا۔کچھ ناقابل فہم انداز میں بڑبڑایا اور پھر سے لیٹ گیا۔اندھیرا پھیلتے ہی چڑیوں کا شور تھمنے لگا۔بوڑھا بھی قدرے پرسکون ہو گیا تھا۔
چاند نے ہولے سے زمین پر جھانکا تو چاندنی کھلکھلا کر گھاس پر رقص کرنے لگی۔بوڑھے نے اپنے تھیلے سے پرانا سا وائلن نکالا اور بجانے لگا۔اس کی ٹھٹھری ہوئی موٹی اور بھدی انگلیوں میں دبی وائلن کی اسٹک بہت خوبصورتی سے تاروں پر رواں تھی۔
"منڈیروں پر اونگھتے چراغ بجھ جائیں تو
موت کی مہیب سائے در و دیوار پر منڈلانے لگتے ہیں
مسافر راستہ کھوٹا کر لیتے ہیں
ان میں لہو انڈیلتے رہو کہ روشنی
زندگی کی علامت ہے”
بوڑھے کی آواز میں عجیب سا سوز تھا۔
اس کے سال خوردہ چہرے کا ملال بتا رہا تھا کہ زندگی نے اس سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
یہ ملال وائلن سے پھوٹتے نغموں سے بھی عیاں تھا۔گیت کی دھن بہت عام فہم نہ تھی، لیکن پارک سے گزرنے والے اسے جانے کب سے سن رہے تھے ۔بوڑھے کے سامنے پڑے گلاس میں سکے گرتے رہے۔ اجنبی دھن پر بجتے نغموں کے سر فضا میں بکھرتے رہے۔بوڑھے نے سکوں والا گلاس خالی کیا اور دوبارہ وہیں رکھ دیا۔ وائلن درد اگلتا رہا۔گھنے پیڑوں کی اوٹ سے افسردہ چاند جھانکتا رہا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی گئی۔
"مٹی کا نوحہ کون کہے گا”؟
اور جب بیٹے ماں کی چادر نوچ لیں تو کیا قیامت نہیں آئے گی ؟
سفید پھولوں کے باغ میں سور چرنے لگے ہیں۔
چولہے پر دھرا کھانا پختہ ہونے کے انتظار میں ہے
لیکن آگ چولہوں میں نہیں، شہروں میں بھڑک رہی ہے
تمہارا سفر کب تمام ہوگا ”
نہ ہی سفر تمام ہوتا ہے اور نہ ہی وحشت کبھی سیراب ہوتی ہے۔اچانک اٹھنے والی آندھی کبھی کبھی سب کچھ لپیٹ میں لے کر سارے منظر دھندلا دیتی ہے۔اس دن جب لمبے انتظار کے بعد بھی لطف اللہ نہ پلٹا تو وہ اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آئ۔ہر طرف سور دندناتے پھر رہے تھے۔بدن بدن بٹتے ہوئے محض دس سال کی عمر میں ہی وہ بہت کچھ سمجھنے لگی تھی۔وجود کی ناؤ کا ناہموار بہاؤ ہچکولے انگ توڑ دیتے ہیں۔آنے والا ہر نیا مسافر ناؤ میں اپنے انداز سے سوار ہوتا ہے۔جب تک لنگر آنکڑے میں پھنسا ہو ناؤ حرکت نہیں کر سکتی۔وہ بھی جال میں پھنسی مچھلی کی طرح تڑپ سکتی تھی لیکن آزاد نہیں ہو سکتی تھی،لیکن پھر ایک دن اچانک لنگر اٹھا دیا گیا یا شاید گھاٹ بدل دیا گیا تھا۔اب ایک مسافر تھا اور وہ رات دن اسے ڈھوتے ڈھوتے اس کی ہمت ٹوٹنے لگی۔
کچے پھل سخت اور کڑوے ہوتے ہیں اس کے باوجود کچھ لوگ ان میں دانت گاڑ دیتے ہیں۔ چاہے بعد میں تھوکنا پڑے لیکن نہیں وہ شاید کم عمری میں ہی گدرا گئی تھی کہ تھوکنے کی نوبت کم ہی آئی ،البتہ اس نے تھوکنا سیکھ لیا۔بھاری بوٹوں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اس کی تھوکنے کی عادت نہ گئی۔پھر ایک دن اچانک وہ اکلوتا مسافر ایک ایسے گھاٹ پر اتر گیا جہاں سے آگے کا سفر ممکن نہ تھا۔اس نے اس کے سرد بے جان چہرے کو دیکھا،ابکائی روکنا مشکل ہو گیا۔
دیکھو چھوٹی لڑکی انجانی منزلوں کا سفر آسان نہیں ہوتا۔پاؤں میں تھکن اتر آتی ہے، لیکن چلنا تو پڑتا ہے ورنہ چاند پورا ہونے پر بھیڑیے اپنی گھپاؤں سے نکل آتے ہیں۔انہیں تازہ نرم گوشت میں دانت گاڑنا پسند ہے، ان کی غراہٹیں سانسیں توڑ دیتی ہیں لیکن تم ڈرنا مت”
کہیں بہت قریب کوئی جانی پہچانی سرگوشی ابھری۔گو وہ بہت چھوٹی تھی،لیکن ذہن کے کسی گوشے میں الفاظ جیسے پیوست ہو گئے تھے۔اس کی انکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔ اسے ان انجانی منزلوں کی طرف جانا تھا ہوا میں خون اور بارود کی بو رچ گئی تھی۔
"لیکن مجھے ڈرنا نہیں”
وہ دھرتی کو ان سوروں سے پاک کرنے کے لیے مجاہدین سے جا ملی۔
"میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا،اس وقت اپنے سائے پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے تم انتظار کرو”
"کب تک؟”اس کی آواز میں بے قراری تھی۔
"ربانی کے آنے تک”امین وردک آگے بڑھ گیا۔
کئی چاند ابھرے اور ڈوبے
اور کھیت کھلیان تاراج کر رہے تھے۔موت کا رقص جاری رہا۔اندھیرے بڑھنے لگے۔لوگ کم ہوتے جارہے تھے۔ربانی نے اسے مجاہدین میں شامل کرنے کا اندیہ دے دیا تھا کہ وہ بدیسی سوروں کی زبان بہت روانی سے بولتی تھی،لیکن اس کی کوکھ میں پلتا بچہ جسے وہ سفید سور کا بچہ کہتی تھی اس کی راہ روکنے لگا۔
"گھپاؤں کے در بند کرنے ہوں گے ورنہ اندر پلتی بلائیں آبادیاں نابود کر دیں گی
چاندنی کا سحر دماغ الٹ دیتا ہے
جنت کی طرف جاتی پگڈنڈیوں پر
موت اگنے لگے تو پہچان گم ہو جاتی ہے
وقت کے ہاتھ لکھنے میں مصروف ہیں
الفاظ شرمندگی میں ڈھلتے جاتے ہیں”
00000000000000000000000000000000000000000000۔ماجد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔اس کے جسم میں تشنج اور اینٹھن تھی۔اس کی انگلیوں کے سرے پر نوکیلے ناخن نمودار ہونے لگے۔چند لمحوں بعد اس نے اپنی لمبی تھوتھنی اوپر اٹھائی اور ہوووو کی اواز کے ساتھ آبادی کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔اس کے تیز نوکیلے دانت چمک رہے تھے۔ساتھ اس جیسے اور کئی تھے۔گھپاؤں کے در بند نہیں کیے جا سکے تھے۔پھر ہر روز ان میں اضافہ ہونے لگا۔ان کی خون خواریاں بڑھنے لگیں۔صدیوں سے سیف الملوک میں رقص کرتی پریوں کے گھنگرو توڑ دیے گئے۔آدمی کی جون بدلنے لگی۔چاند پورا ہوتے ہی گھپاؤں سے نکلنے والے اپنے نوکیلے دانت اور پنجے نکال کر بھیڑیے بن جاتے اور اپنے ہی ہم جنسوں کو بھنبوڑنے لگتے۔کندھاری اناروں سے ٹپکتا لہو،سیف الملوک میں بھرنے لگا۔ اب کی بار بھیڑیوں کے بدن سے اٹھتی باس پرائی نہ تھی۔
اس ڈھلتی شام کو پارک میں وائلن پر بجتی دھن نے اس کے قدم روک لیے۔دل اس زور سے دھڑکا کے حشر بپا ہو گیا۔وہ یہاں اس شہر میں کسی سے ملنے آئی تھی۔اپنے کسی پرانے ساتھی سے،اس کا وطن میں رہ گئے پرانے دوستوں سے رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا تھا۔وہ اپنے بیٹے کو ساری عمر سفید سور کا بچہ ہی کہتی اور سمجھتی رہی۔ لیکن اس روز اس دوست کے کہنے پر اسے بلا جھجک آگ میں جھونک دیا۔آج اس کی موت کی اطلاع جانے کیوں اسے بے چین کر گئی تھی۔تیسری نسل کا لہو بھی دھرتی کے چاک رفو نہیں کر پایا تھا۔
بوڑھا گا رہا تھا
"جب عہد فراموش کر دیے جائیں
محبت مر جائے
یقین باسی ہو جائے
قدم اجنبی سمتوں میں اٹھنے لگیں
مٹی سے دغا عام ہو جائے تو جان لو کہ
زندگی کے اجزاء میں پاکیزگی کی ترتیب الٹ گئی ہے”
"لطف اللہ "وہ دوزانو بوڑھے کے پاس بیٹھ گئی۔اس کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے۔ بوڑھے کی موٹی ٹھٹرتی انگلیوں میں دبی سٹک ہوا میں معلق رہ گئی۔
"کون”اس کی آواز میں لرزش تھی۔
"میں نوما”اسٹک گر چکی تھی۔بوڑھے کا وجود زلزلے کی زد میں تھا۔
"نہیں میں اسماعیل خان،لطف اللہ تین گولیاں کھا کر کچھ دن زندہ رہ سکا-”
"لیکن تم نے یہ گیت کہاں سے سیکھا، یہ تو لطف اللہ کا لکھا ہوا ہے.”
"یہ تمہاری امانت لطف اللہ نے مرتے وقت تمہیں دینے کو کہا تھا”بوڑھے نے ایک پرانی ڈائری اس کی طرف بڑھائی۔
"جانے کب سے لیے پھر رہا ہوں”۔اس نے ڈائری تھام لی۔اور اندھیرا تہہ خانہ روشن سا ہو گیا۔
"آکاجان”ننھی نوما کے ہاتھ سرد اور آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کٹی پھٹی لاشیں اسے آسیب بن کر چمٹ گئی تھیں۔0
"کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نا”لطف اللہ نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا۔بابا کی مہک نتھنوں سے ٹکرائی تو آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔
یہ بھی پڑھیں کیبل کاریں اور چیئر لفٹ ۔۔۔ کرنے کے اصل کام
"تم کیا لکھتے ہو” نوما کی گہری آنکھیں اس پر مرکوز تھیں۔
"اپنی مٹی کا دکھ اپنے لوگوں کے نوحے”وہ کچھ نہ سمجھی۔
"بڑی ہو کر اسے ضرور پڑھنا تمہیں معلوم ہونا چاہیے ہمارے خواب کیسے بکھرے”
نوما نے بوسیدہ ڈائری کو کھولا ۔
"پانچواں موسم "لطف اللہ کے خوبصورت حروف کی سیاہی اس کی پہچان کی طرح ماند پڑ رہی تھی۔
"آؤ میرے ساتھ” نوما نے بوڑھے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
"کہاں”بوڑھے کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔
"میرے گھر،اپنی بیٹی کے گھر” اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
بوڑھے نے اپنی بیساکھی ایک طرف رکھی اور نوما کا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا