top header add
kohsar adart

نوجوان گولڈ میڈلسٹ "ابو ہریرہ شاکر عباسی” سے مکالمہ

"کامیاب لوگ" سیریز

” کامیاب لوگ ” ابو ہریرہ عباسی

سوال: ہمارے قارئین کے لیے اپنا مختصر سا تعارف عنایت کر دیں۔

جواب: میرا نام ابو ہریرہ شاکر عباسی ہے اور میرے والد محترم کا اسم گرامی شاکر حسین عباسی ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا تعلق آرواڑ، سرکل بکوٹ سے ہے۔ لیکن جس طرح اسی کی دھائی میں ہمارے علاقے سے بے شمار لوگوں نے بوجوہ شہروں کی طرف نقل مکانی کی ہم بھی راولپنڈی آ کر بسنے پر مجبور ہوئے۔

سوال: آپ نے نقل مکانی کا ذکر کیا تو یقینا تعلیم، صحت، ذرائع آمد و رفت اور مقامی روزگار کے ذرائع جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان علاقہ مکینوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقے کی دوری کا کرب برداشت کر کے شہروں کے ہجوم میں گم ہو جائیں۔ کیا انہی وجوہات کی وجہ سے آپ کا خاندان بھی نقل مکانی پر مجبور ہوا؟

جی بالکل ایسا ہی ہے۔ سرکل بکوٹ کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے علاقے کے سیاسی نمائندوں نے بڑے بڑے عہدوں اور مقام پر رہنے کے باوجود علاقے کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔  اکثر لوگوں کی سرکل بکوٹ سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کی بنیادی وجہ، جیسا کہ آپ نے ذکر کیا، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی ہے۔

سوال: اکثر والدین اپنی اولاد کو اپنے آبائی علاقوں سے شہروں میں لے آتے ہیں تاکہ وہ تعلیمی میدان میں اعلی کارکردگی دکھا سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے بہت کم بچے ان توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ لیکن آپ نے نمل جیسے ادارے سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ آپ کی اس کامیابی میں سب سے اہم کردار کس کا رہا؟ آپ کی جماعت میں طلبا کی تعداد کتنی تھی؟ ہمارے قارئین یقینا آپ کی اس کامیابی کی تفصیل جاننا چاہیں گے۔

جواب:  بفضل رب تعالی مجھے نمل (نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز) اسلام آباد نے M.Com (ماسٹرز آف کامرس) ڈگری پروگرام میں نمایاں نصابی کارکردگی کی بنیاد پر گولڈ میڈل سے نوازا ہے۔

گریجویشن کے امتحان میں میری کارکردگی قابل ذکر رہی تھی۔ والد محترم بسلسلہ روزگار سعودی عرب ہیں۔ انھوں فون کر کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ نیز یہ بھی کہ ماسٹرز کرنے کا ارادہ ہے۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ میں نے مزید تعلیم جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر یونیورسٹی کا انتخاب میرے ذمّہ ٹھہرا۔  بہت سے مسائل اور وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے NUML کا انتخاب ہوا اور الحمدللّٰہ ڈگری کا عمل شروع ہوگیا۔

نہایت قابل اساتذہ، ذہین اور تخلیقی ذہن رکھنے والے ہم جماعتوں سے مسابقت اور بہترین انفراسٹرکچر کی موجودگی میں اس عرصہ میں میری کافی self-grooming ہوئی۔ جزوقتی ملازمت بھی ساتھ جاری رکھی، جس کی وجہ سے بزنس سٹڈیز کی اصل دنیا میں قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ اللّٰہ پاک کے کرم اور فضل سے جون 2023 میں ماسٹرز ڈگری مکمل ہوئی اور امتحانات میں میری کارکردگی نمایاں رہی۔

نمل میں تین طرح کی کلاسیں ہوتی ہیں

  • مارننگ
  • ایوننگ
  • ویک اینڈ

گولڈ میڈل ایوارڈ کی کسوٹی یہ ہوتی ہے کہ ہر ڈگری پروگرام کے مارننگ، ایوننگ، اور ویک اینڈ کلاسز کے طلباء میں سے مجموعی طور پر سب سے بہترین کارکردگی کے حامل طالب علم کو گولڈ میڈل دیا جاتا ہے۔ میرے ڈگری پروگرام M.Com کے تینوں sections کے اس سال کے طلباء کی کل تعداد نوّے (90) کے لگ بھگ تھی جن کا تعلق مختلف علاقوں سے تھا اور میرے کئی ہم جماعتوں نے ملک کے معروف تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ میری اس کامیابی کا 99 فیصد کریڈٹ مجموعی طور پر ان لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے طریقے سے مجھے مدد فراہم کی۔ ان میں میرے محترم والدین، اساتذہ کرام، خاندان، عزیز دوست اور ہم جماعت سر فہرست ہیں۔

سوال: ہمارے قارئین آپ کی اس بڑی کامیابی کے بارے میں جان کر یقینا اس بارے میں بھی جاننے میں دلچسپی رکھتے ہوں گے کہ گریجویشن تک کا آپ کا تعلیمی سفر کیسے طے ہوا؟

جواب:  میں نے سال 2015 میں میٹرک کا امتحان "دی سپینگل سکول” (The Spangle) راولپنڈی سے پاس کیا۔ عموماً اس عمر میں اکثر طلباء کا رجحان سائنسی مضامین کی جانب ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ میں نے میٹرک میں بائیالوجی کے مضمون کا چناؤ کیا تھا جسے میں نے لطف اندوز ہو کر پڑھا۔
میٹرک کے بعد میرا داخلہ گورنمنٹ حشمت علی اسلامیہ کالج، راولپنڈی میں ہوا۔ جہاں میں نے پری انجینئرنگ مضامین پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کیمسٹری اور فزکس کے مضامین توجہ اور دلچسپی سے پڑھے۔ اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر عثمان رانا صاحب نے 2018 میں چھاپے گئے ‘الحشمت’ میں مضامین لکھنے کا موقع دیا۔ اور ساتھ ہی مجھے "سٹوڈنٹ ایڈیٹر” بھی بنایا۔ یوں 2018 میں انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ میں ایک چُپ اور گُم سُم رہنے والے ابو ہریرہ سے بدل کر قدرے خُود اعتماد اور ہلکی پھلکی بات چیت کرنے والا لڑکا بن چکا تھا۔

انٹرمیڈیٹ امتحان میں میری کارکردگی اوسط درجے کی تھی۔ اسی نتیجے اور کچھ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر مجھے گریجویشن میں کامرس (B.Com) میں داخلہ لینا پڑا۔ فیڈرل اُردو یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔ خوش قسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری دلچسپی کامرس مضامین میں بڑھتی گئی۔ میرے ہم جماعت زیادہ تر پوٹھوہاری بولنے والے تھے سو ہم نے مل کر عہد طالب علمی کا خوب لطف بھی اٹھایا  اور نصابی سرگرمیوں میں بھی ایک دوسرے کی خوب حوصلہ افزائی کی۔

مزید خبریں پڑھیں

سوال: کوہسار نیوز اور ہمارے قارئین کی جانب سے آپ کو بہت مبارک باد۔  یہ بتائیے کہ آپ کے مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟

جواب: میں بہت ممنون ہوں۔ دور طالب علمی سے ہی مجھے نیٹ ورک مارکیٹنگ (Network Marketing) میں خاصی دلچسپی ہے۔ میری کوشش ہے کہ میں ایک ایسا نظام متعارف کرواؤں جس میں بالخصوص اشیاء خور و نوش، اور ہنگامی ادویات ان کے مینوفیکچرر سے براہِ راست صارف consumer تک پہنچ سکیں۔ اس طرح فریقین استحصال سے بھی بچ جائیں گے اور جعلی اور غیر معیاری مصنوعات سے بھی صارفین کی جان چھوٹ جائے گی۔  موجودہ دور میں منڈی نظام کی وجہ سے مینوفیکچررز اور صارفین دونوں کا استحصال ہو رہا ہے۔

سوال: آپ نے ذکر کیا کہ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ جز وقتی ملازمت بھی کرتے رہے۔  تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی رہنمائی کیجیے کہ ملازمت کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کرنا کتنا کار گراں تھا؟

جواب: ایک نجی کمپنی میں Accounts Executive کی حیثیت سے ملازم ہوں۔ کمپنی دراصل ھیلتھ کیئر سیکٹر سے وابستہ ہے اور جدید ڈائگنوسٹک ڈیوائسز کو امپورٹ کرکے رِی سیل کرتی ہے۔ دراصل طالب علموں کے لیے ٹائم مینجمنٹ سیکھنا ناگزیر ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ہمارے دور میں وقت برباد کرنے کے ان گنت ذرائع موجود ہیں۔ میں نے اپنا ٹائم ٹیبل تشکیل دیا ہوا تھا۔  سب سے بڑی ترجیح میرے لیے اپنا خاندان ہے۔ ان کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ وہ نوجوان جو کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے رجحان Aptitude کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا خیال رکھتے ہوئے شعبہ تعلیم اور شعبہ ملازمت کا فیصلہ کریں۔ ٹائم مینجمنٹ ضرور سیکھیں۔ اپنے سے زیادہ ذہین اور قابل لوگوں سے دوستی رکھیں تاکہ ان کی مسابقت اور رفاقت میں آپ خود گری کر سکیں۔

سوال: مستقبل میں کس شعبے میں جانے کا ارادہ ہے؟

میں نے بذریعہ PPSC اور FPSC مختلف سرکاری آسامیوں کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔ امید ہے اللّٰہ پاک کے فضل اور والدین اور احباب کی دعاؤں سے ماضی کی طرح مستقبل میں بھی بہتری کی صورت سامنے آئے گی۔

سوال: نوجوانوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں

جواب: علامہ اقبال کا ایک شعر جو انتہائی motivating بھی ہے اور نوجوانوں کے لیے اس میں یہ سبق بھی ہے کہ کسی بھی مقام پر رکنا نہیں ہے۔ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ ذات سے نکل کر انسانیت کی فلاح کے لیے ہمیشہ کوشش کرنی ہے۔۔۔۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

سوال: کوہسار خصوصا سرکل بکوٹ کے سیاسی نمائندوں، زعماء، بڑی شخصیات میں سے کسی نے آپ سے رابطہ کیا؟ آپ ان کو کوئی پیغام دینا چاہیں!

جواب: مجھے کسی سے اس کی امید ہی نہیں تھی کیوں کہ ہمارے ہاں ابھی لوگ اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ وہ ایسی کامیابیوں پر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی زحمت گوارا کریں۔ شاید میرا تعلق سرکل بکوٹ کے بجائے مری کے کسی گاؤں سے ہوتا تو پورا علاقہ اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے ایک بڑی تقریب کا انعقاد کرتا۔

سرکل بکوٹ کے زعماء ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیں جس کے ذریعے قابل اور ذہین بچوں کی تعلیم کے لیے انھیں سکالرشپ دی جائے۔

ہمارے علاقے میں آغوش سکول کی شاخ قائم ہو جائے تو یتیم اور بے سہارا بچے بھی مستقبل کے معمار بن سکیں گے۔

مجھے اگر کوئی بھی ذمہ داری سونپی جائے تو میں ہمہ وقت اس کے لیے حاضر ہوں۔

سوال: کوہسار کے صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے آپ کی کامیابی پر آپ سے رابطہ کیا تاکہ علاقے کے نوجوان آپ جیسے سیلف میڈ نوجوانوں کے تجربات سے فیض یاب ہو سکیں؟

جواب: ووآئس آف کوہسار سے تنویر ولایت عباسی میرے گھر تشریف لائے تھے۔ انھوں نے میرا انٹرویو انہی دنوں میں آن ائیر کر دیا تھا۔ ان کا بے حد ممنون ہوں۔ قومی سطح کے میڈیا میں ہمارے بہت سے بڑے نام موجود ہیں لیکن وہ شاید سیاست کے علاوہ کسی شعبے سے دل چسپی نہیں رکھتے۔

سوال: کوہسار نیوز آپ کا شکر گزار ہے کہ آپ نے ہمارے لیے وقت نکالا۔ ہمیں یقین ہے کہ علاقے کے نوجوانوں کے لیے آپ کی کامیابی اور آپ کے کردار میں ایک بڑا نمونہ موجود ہے۔ اللہ پاک آپ کو دائمی خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے ۔ آمین 

جواب: کوہسار نیوز کی ساری ٹیم کا ممنون ہوں جنہوں نے میرے ٹوٹے پھوٹے خیالات اور میرے احوال علاقے کے عوام تک پہنچانے کی سعی کی۔ میری خوشی کے موقع پر مبارکباد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ یقینا سرکل بکوٹ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے اگر ہمارے بڑے ہماری رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائیں تو ہم نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More