
مسلمان، عہد جدید اور نظام تعلیم
تحریر : راشد عباسی
مسلمان، عہد جدید اور نظام تعلیم
اسلامی نظام تعلیم و تربیت نہایت متوازن ہے۔ نقطہ آغاز توحید ہے۔۔ جتنے رسول و پیغمبر مبعوث ہوئے انھوں نے یہی پیغام دیا کہ خدا کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ، تم کامیاب ہو جاؤ گے۔۔ نظام کے طور پر طاقت کا سرچشمہ اور حاکمیت اعلی کا مالک خدائے بزرگ و برتر ہے۔ اس عقیدے کو اختیار کرتے ہی انسان ہر غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔۔ اسے ہر قسم کے ڈر اور خوف سے نجات مل جاتی ہے۔۔ وہ راہ صدق و صفا پر یکسوئی کے ساتھ محو سفر ہو جاتا ہے۔۔ اس پر حیات و موت کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔۔ اس کے لیے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رضائے الہی بن جاتی ہے۔ جب ایک مومن عرفان ذات کے بعد معرفت الہی کے حصول میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ امر ہو جاتا ہے اور کائنات اس کے تابع ہو جاتی ہے۔
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
(اقبال)
مسلمان کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے پاس انسانیت کا سرمدی منشور حیات قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے۔۔ قرآن نے مکمل نظام ودیعت کرنے کے بجائے اصول بیان کیے ہیں۔ بنیادی اصولوں سے انحراف کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے۔
آدرش، آئیڈیل یا ہیرو کے طور پر نبی آخر الزماں نے اسوہ حسنہ کا وہ نمونہ پیش کیا کہ قرآن گویا عملی صورت میں پیش کر دیا۔ اس لیے مسلمان جب نظام تعلیم کی بات کرے گا تو اس کے سامنے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا عنصر بھی موجود ہو گا۔ تاکہ پڑھ لکھ کر ایک فرد عالمی معیار کے پروفیشنل کے طور اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ اپنے اخلاق و کردار سے ایک مومن یا مومنہ کی کردار سازی کے ثمرات سے بھی دنیا میں مثبت تبدیلی لائے۔
آزادی کے بعد بھی ہم نظام تعلیم کے حوالے سے انقلابی اقدامات کرنے کو ترجیح نہ بنا سکے۔ شعوری طور پر معاشرے کی طبقاتی تقسیم کو کم کرنے والی قوتوں کا قلع قمع کیا گیا۔ آج بدنصیبی یہ ہے کہ مختلف طبقات کے الگ الگ نظام ہائے تعلیم ہیں ۔ عوام کے بچوں کے لیے سرکاری اردو میڈیم سکول اور سرکاری کتب۔ پھر گلی محلے کے برائے نام انگلش میڈیم سکول اور پرائیویٹ پبلشرز کی مہنگی اور غیر معیاری کتب۔ پھر بہتر معیار کے معروف پرائیویٹ تعلیمی ادارے جن میں سے کچھ نے اپنے تئیں بہت کام کیا، اس کے بعد سٹی، بیکن ہاؤس، کانوئنٹ، امریکن سکول، اور فروبل وغیرہ وغیرہ جہاں سے او لیول، اے لیول کر کے ہماری نوجوان نسل مغرب سدھار جاتی ہے اور اکثر نوجون وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آرمی کے تعلیمی ادارے اپنا الگ نظام رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے نظامِ تعلیم میں تعلیم کا اخلاقی اور روحانی پہلو عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ مسابقتی نظامِ تعلیم کا مقصد طلباء کو خود غرض بنانا، اپنی جڑوں سے جُدا کرنا اور فقط اچھی ملازمت کا لالچ دینا ہے۔ نیز اب تو ہم اتنے روشن خیال ہو گئے ہیں کہ علامہ اقبال جیسے قومی شاعر کو بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں جگہ ملنا مُشکل ہو گیا ہے۔
ہندوستان پرانگریزی سامراج کے قبضے کے وقت یہاں تعلیم عام تھی۔ فارسی اور عربی میں تمام علوم پر مواد موجود تھا۔ معاشی لحاظ سے برصغیر سونے کی چڑیا مشہور تھا۔ کڑے تفکر و تدبر سے انگریز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقامی لوگوں سے ان کی شناخت چھین کر ہی انگریزی سامراج کے منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سو انھوں نے ہمیں ہماری جڑوں سے جدا کر دیا۔ نئے نظام میں پڑھا لکھا فرد وہ تھا جو انگریزی جانتا ہو۔ اس طرح کل کے دانشور انگریزی سامراج کے ہندوستان پر غاصبانہ قبضے کے بعد بے وقعت ہو گئے ۔ پھر "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئےانھوں نے بھر پور تعصب کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے۔ صدیوں سے پر امن ہندوستان میں مذہبی منافرت اتنی بڑھائی گئی کہ بالآخر عہد سامراج میں یہاں پانی بھی ہندو اور مسلمان ہو گیا۔ انگریز کے تعصب اور دشمنی کی انتہا کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیرِ میسور ٹیپو سلطان، جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے انگریزی سامراج کے خلاف اپنی شہادت تک لڑتا رہا، کی شہادت کے بعد انگریزی سامراج نے بے دریغ شیر کا شکار کیا اور یہاں شیر کی کھالیں تیار کر کے برطانیہ برآمد کی جاتیں۔ نیز بدتہذیبی کی انتہا یہ تھی کہ انگریز افسر اپنے کتوں کو ٹیپو کہہ کر بلاتے تھے۔۔ کاش ہم میں غیرت کا مادہ پیدا ہو اور ہم اپنے کتوں کا نام ایبٹ، ڈلہوزی اور ماؤنٹ بیٹن رکھیں۔
انیس سو سینتالیس میں انگریز کو ہندوستان سے جانا پڑا۔ لیکن وہ یہاں ذہنی غلامی کاایک ایسا ناسور چھوڑ گیا کہ ہم اپنی شناخت کے سلسلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہو گئے۔ جاگیردار طبقہ، جسے جاگیریں ہی اپنے لوگوں کے ساتھ غداری اور انگریزی سامراج کی اس خطے کے وسائل لوٹنے میں مدد کے صلے میں ملی تھیں، اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔ ہندوستان میں آزادی کے فورا بعد۔۔۔۔۔
جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا
اشرافیہ کو کھل کھیلنے سے روک دیا گیا
مارشل لاء کے راستے مسدود کیے گئے
تعلیم و تحقیق کو ترجیح بنایا گیا
آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی گئی
ملٹائی نیشنلز کے بجائے ہندوستان کے معاشی مفاد کو ترجیح دی گئی
امریکہ کی غلامی کا پٹہ گلے میں ڈالنے سے انکار کیا گیا
لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل برعکس رہا۔ جاگیر داری کا ناسور تاحال ہمارا بڑا مسئلہ ہے۔ اشرافیہ سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی۔ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی لعنت نے ترقی و خوشحالی کے راستے مسدود کر دیے۔۔ پے بہ پے مارشل لاؤں کے ذریعے آمروں نے ملک کو پسماندگی کے پاتال میں اتار دیا۔ امریکی غلامی کی وجہ سے آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ناممکن ہے۔ صاحبان اقتدار و اختیار پاکستان کے بجائے آئی ایم ایف کے مفادات کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ نہایت خلوص کے ساتھ، تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر اس سلسلے میں مقدور بھر کوشش کرے کہ ہم ایسا نظام تعلیم وضع کریں جس میں لوگ اپنی شناخت کے سلسلے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
تخلیقی اذہان پیدا کرنے کے لیے مادری زبانوں کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دینے سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
دینی علوم کی ترویج کے سلسلے میں درج ذیل کو مکمل ڈسپلن کے طور پر پڑھایا جائے۔۔۔
لسان العربیہ
تحقیق فی القرآن
السنت والحدیث
نظام الاسلام (معاشیات، سیاسیات، قانون ، اخلاقیات، بین الاقوامی تعلقات، وغیرہ)
اس کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہترین ادارے قائم کیے جائیں۔ تاکہ پڑھے لکھے لوگوں میں ایمان، بصیرت، دانائی، علمی استعداد، استقلال، دیانتداری اور سب سے بڑھ کر بقول اقبال میر کارواں جیسے جوہر پیدا ہو سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راشد عباسی
rashed_abbasi@yahoo.com