مادری زبانوں کا تحفّظ کیوں ضروری ہے؟
مادری زبانوں کے میلے میں ڈاکٹر نجیبہ عارف کا خطبہ
مادری زبانوں کا تحفّظ کیوں ضروری ہے؟
تقریباً چالیس برس پرانی بات ہے، بی اے کی فلسفے کی کلاس میں، مَیں اپنی پروفیسر صاحبہ سے اِس بات پر اُلجھ پڑی تھی کہ خیال لفظ کا محتاج نہیں بلکہ لفظ سے ماورا کوئی شے ہے۔ اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ میرے ذہن میں ایسے ہزاروں خیالات ہیں جنھیں بیان کرنے کے لیے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ پروفیسر صاحبہ نے بہتیرا سمجھایا مگر نوجوانی کے جوش نے سمجھنے سے باز رکھا۔ اب چالیس برس کے تجربے اور مشاہدے نے خُوب اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ ہمارے خیالات ہمارے ذخیرۂ الفاظ تک محدود ہوتے ہیں۔ ہم صرف اُن تصوّرات سے واقف ہوتے ہیں جو الفاظ، اَسما، تراکیب اور ان کے محلِ استعمال کے ذریعے ہمارے حیطۂ شعور تک پہنچتے ہیں۔ لفظ خیال کا منبع ہے، ماخذ ہے، جَڑ ہے، بُنیاد ہے اور اس کا سَرچشمہ ہے۔
زبان انسانی تجربے کی ترسیل و اظہار ہی کا نہیں بلکہ اس تجربے کی وسعت، رنگا رنگی، تنوّع اور پھیلاؤ کی آلۂ کار بھی ہے۔ ہر زبان اپنے لسانی ڈھانچے کے ذریعے محض اپنے ماحول اور اس کی اشیا کو بیان نہیں کرتی بلکہ اپنے بولنے والوں کے خوابوں، ان کی آرزوؤں، ان کی اُمنگوں کی تصویر بھی ہوتی ہے۔ ہر زبان اپنے بولنے والوں کے فکر و خیال کی ترجمان ہی نہیں ہوتی بلکہ ان کے طرزِ فکر و خیال کا اظہار بھی کرتی ہے۔ زبان انسانی تجربے کی تاریخ ہوتی ہے۔
یہ کسی خاص علاقے، کسی مخصوص جغرافیائی صورتِ حال میں جنم لینے والے انسانی تجربات کے زمانی ارتقا کی شاہد ہوتی ہے۔ زبان کی تاریخ، محض زبان کی تاریخ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک مخصوص انسانی آبادی کی ذہنی، فِکری، سماجی، سیاسی اور معاشرتی تاریخ بھی ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کے محاورے، اس میں مستعمل کہاوتیں اور ضرب الامثال صدیوں کی لوک دانش کا عِطر ہوتے ہیں اور اس زبان کے بولنے والوں کے ذہنی و سماجی ارتقا کے مختلف مراحل کی نشان دہی کرتے ہیں۔
انسانی زندگی کے اِس موڑ پر جب علم و دانش ہی سب سے بڑا ہتھیار، سب سے کارگر وسیلۂ حیات بن چکا ہے، کسی بھی زبان کو، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی سی انسانی آبادی کی زبان کیوں نہ ہو، نظر انداز کرنے اور گلوبلائزیشن کے بلیک ہول میں گرنے سے نہ بچانا روشنی کے بجائے تاریکی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔
درحقیقت کوئی زبان بھی چھوٹی زبان نہیں ہوتی، صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی زبان کے بولنے والے زندگی کے اس سفّاک مقابلے میں کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ معاشی طور پر، سیاسی طور پر، سماجی طور پر نام نہاد ”ترقی“ کی دوڑ میں پسپا ہو جاتے ہیں۔ اِس پسپائی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مگر جو بھی اسباب ہوں، اُن سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اِس زبان کے بولنے والوں نے اجتماعی انسانی اِرتقا میں جو کردار ادا کیا ہے اُسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔
ہر زبان جو کسی خاص خِطّے میں، کسی انسانی آبادی میں صدیوں بولی جاتی ہے، وہ اِس کرۂ ارض کے ایک حِصّے کی تاریخ کا سرمایہ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ اس کا ذخیرۂ الفاظ، اس کے گیت اور نغمے، اس کی بولیاں اور کہاوتیں، اس کی کہانیاں اور داستانیں، اس کے محاورے، اس کے لطیفے، اس کے اقوالِ زرّیں، سب وہ کھڑکیاں ہیں جو کسی قوم کی تہذیب و ثقافت اور تمدّنی تاریخ کے آنگن میں کُھلتی ہیں۔ یہی نہیں، زبان کے اندر موجود لسانی احتساب کا نظام بھی یہ چغلی کھاتا ہے کہ ارتقا کے کسی خاص مرحلے پر سماجی زندگی میں قبولیت اور عدم قبولیت کے معیارات کیا تھے؟ وہ کون سی باتیں تھیں جن پر لوگ جھوم جاتے تھے اور کون سے الفاظ تھے جنھیں سُن کر طیش آ جاتا تھا۔ اظہارِ مسرّت کیسے ہوتا تھا؟ اظہارِ محبّت کیسے ہوتا تھا؟ اظہارِ غیظ و غضب کی صُورتیں کیا تھیں؟ دُعا کا سلیقہ کیا تھا، دُشنام کا طریقہ کیا تھا؟ خوف اور اوہام کیا تھے؟ یقین اور گمان کیا تھے؟
یہ سب باتیں جاننے کے لیے زبان کے سوا کوئی اور وسیلہ اِس قدر معتبر نہیں ہو سکتا۔ زبان ادب کی تشکیل کرتی ہے۔ زبان ہی قانون کی تعمیر کرتی ہے، زبان ہی سماج کے مُسلّمات کو بیان کرتی ہے، زبان ہی سے افراد کے باطن کی کشمکش کو سمجھا جا سکتا ہے۔
انسان کی اجتماعی دانش کے شعور اور اس کے تحفّظ کے لیے ہر زبان کا تحفّظ ضروری ہے۔ خواہ اس کے بولنے والے قلیل تعداد میں ہوں یا کثیر تعداد میں، ان کی سماجی حیثیت مُستحکم ہو یا مخدُوش، وہ سماج کے مرکز میں مُتمکّن ہوں یا حاشیے پر، وہ ”ترقی“ کے اس نام نہاد بیانیے کے تحت ترقی یافتہ ہوں یا پس ماندہ، مگر ان کی زبان کو معدومیت سے بچانا، انسان کے اجتماعی ورثے کے تحفظ کے مترادف ہے۔
اب ہم پاکستان کی مخصوص صورتِ حال پر بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف خِطوں میں اِس وقت سَتّر سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ زبانیں تحریری ادب کے بیش بہا سرمائے سے ثروت مند ہیں۔ ان کی معلوم تاریخ صدیوں پرانی ہے، ان کا کلاسیکی ادب زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں موجود ہے، ان کا اپنا رسم الخط ہے، اپنے حروفِ تہجّی ہیں۔ اگر ایک دو حروفِ تہجّی پر اختلاف بھی ہو تو اس سے ان زبانوں کے ادبی و تاریخی سرمائے کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں ان زبانوں کا تحفّظ اور ان کی بقا و ارتقا کی کوشش کرنا صرف ایک قومی فریضہ ہی نہیں، عالمِ انسانیت کی اجتماعی فلاح کے لیے کردار ادا کرنے کے برابر ہے۔
یہ لِسانی تکثیریت بہ حیثیتِ قَوم ہماری کمزوری نہیں، ہمارا سرمایہ ہے۔ اور اگر ہم درست سمت میں پیش رفت کرنے پر متفق ہو جائیں تو یہ ہماری بہت بڑی طاقت بن سکتی ہیں۔ سَتّر سے زیادہ زبانوں کا تاریخی، لسانی، ثقافتی اور تہذیبی سرمایہ ہمیں دنیا میں ثقافتی اعتبار سے ایک ایسے خِطے کے طور پر پہچان عطا کر سکتا ہے جس کے چَپّے چَپّے پر نسلِ انسانی کی اجتماعی یادداشت کے اجزا بکھرے ہوئے ہیں۔ جس کا لسانی اور ثقافتی تنوّع اسے ان تمام ممالک اور علاقوں سے ممتاز و منفرد کرتا ہے جہاں ایک ہی یا چند ایک زبانیں بولی جاتی ہیں اور نتیجتاً یکساں تہذیبی تاریخ پر منتج ہوتی ہیں۔
ہماری سرزمین میں موجود زبانوں کا یہ تنوّع ہمارے لیے باعثِ فخر ہونا چاہیے نہ کہ باعثِ نزاع۔ یہ فخر ہمیں صرف اپنی زبان ہی سے نہیں، بلکہ باقی سب زبانوں سے بھی محبّت کرنا سکھاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہماری زبان کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کا احترام کریں، اسے تسلیم کریں، تو ہمیں بھی دوسری زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا، انھیں احترام دینا ہو گا۔ ان سے محبّت کرنا ہوگی اور اُنھیں قبول کرنا ہو گا۔
تہذیبیں جس تیزی سے گلوبلائزیشن کے بلیک ہول کی طرف بڑھ رہی ہیں، ایک ڈسپوزایبل کلچر جس طرح ہماری تاریخ اور تہذیبی ورثے کی طرف جبڑے کھولے بڑھ رہا ہے، ایک بے چہرہ اور بے صورت ثقافت، جس کا کوئی دیرپا چہرہ ہے نہ نقش و نگار اور جو آبِ رواں کی گُزراں موج پر بنتے مٹتے بُلبلوں کی طرح سطحی اور بے بنیاد ہے، جس طرح تیزی سے ہم انسانوں کو ماضی اور مستقبل دونوں سے کاٹ کر عصرِ رواں کے لمحۂ موجود تک محدود کر دینے پر تُلی ہوئی ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف ایک ہی طریقہ بچا ہے اور وہ ہے اپنی مقامی زبانوں اور ثقافتوں سے جُڑ کر روایت سے رشتہ برقرار رکھیں اور اپنے آپ کو ایک بے چہرہ وجود میں ڈَھلنے سے بچائیں۔
یہی آج کے اِس میلے کا بُنیادی مقصد ہے۔ میں اِس میلے کے بُنیاد گزاروں کو مبارک پیش کرتی ہوں کہ اُنھوں نے ایک فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف