لے او یار حوالے رب دے ۔۔۔ اے ڈی عباسی کی رحلت
لے او یار حوالے رب دے
انکل فدا عباسی ملکوٹ کی ایک ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت کی خاص بات یہ ہے کہ ہر عمر کے لوگوں سے ان کی دوستی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کالج کے زمانے میں میں خصوصی طور پر ان سے ملنے کراچی کمپنی، اسلام آباد جایا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ان کے دفتر میں کئی اور احباب کے علاوہ اے ڈی عباسی سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ اے ڈی عباسی ان کے بھتیجے اور ہمارے گرائیں تو تھے ہی گورنمنٹ ڈگری کالج مری کے وہ بھی طالب علم رہے۔ پھر صحافت کے شعبے سے دلچسپی بھی ہم دونوں کی قدر مشترک تھی۔ انکل فدا کے دفتر میں کئی بار مختلف امور پر گفت و شنید میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا اور گھنٹوں گزر جاتے۔ مکالمے کی طوالت کی وجہ اکثر اے ڈی عباسی ہوتے کہ وہ سوالات کے جوابات سے نئے سوالات نکالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
ایک بار انکل فدا سے ملنے گیا تو دفتر کے لڑکوں نے بتایا کہ انکل کہیں باہر نکلے ہیں تھوڑی دیر میں آ جاتے ہیں۔ میں باہر نکل کے برآمدے میں آگے نکلنے لگا تھا کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
مڑ کر دیکھا تو اے ڈی عباسی اپنی مسحور کن مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ واپس مڑے اور آ کر دفتر میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے بتایا کہ اداکاری شروع کر دی ہے۔ میرے لیے یہ اچنبھے کی بات تھی۔ میں نے عرض کیا کہ ملکوٹ کے لوگ کسی اور مزاج کے لوگ ہیں۔ وہ آپ کے اس فیصلے پر طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ لیکن اے ڈی عباسی دھن کے پکے تھے، کچھ عرصہ تک اپنی ضد پر اڑے رہے اور اس شعبے کے ساتھ وابستہ رہ کر اس کا عملی مشاہدہ کرتے رہے۔ لیکن جب ہماری اگلی ملاقات ہوئی تو خبریں اخبار کا پریس کارڈ تھامے کراچی کمپنی کے تاجر الیکشن کی کوریج میں مشغول تھے۔ گلے مل کر کہنے لگے،
” آپ ٹھیک کہتے تھے، میں نے بہت سوچ بچار کے بعد صحافت کا انتخاب کیا ہے۔ ان شاء اللہ اسے میں عبادت اور خدمت کے طور پر انجام دوں گا"۔
ہل نیوز کا سلسلہ شروع ہوا تو کوہسار میں اسے بھرپور پذیرائی ملی۔ مجھ سے بھی بہ اصرار کالم لکھواتے رہے۔ ہل نیوز کے ساتھ یوں تو بہت سے احباب کی جذباتی وابستگی تھی لیکن برادر عزیز مہربان عباسی سعودیہ جانے سے پیشتر ایک زمانے تک فنا فی ہل نیوز رہے۔ انھوں نے ہل نیوز کی ترویج کے لیے بے انتہا محنت کی۔ اللہ پاک ان کی صحت کے مسائل حل فرمائے۔ اسد اللہ غالب نے بھی ہل نیوز کو کوہسار کا مقبول ترین ہفت روزہ بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ یقینا اے ڈی عباسی کے مخلص ترین دوستوں میں سے ایک ہیں۔
میں سعودیہ جانے کے بعد ہل نیوز اور اے ڈی عباسی سے غیر مربوط ہو گیا۔ چھٹی آنے پر بھی ملاقات نہ ہوتی کہ ایک مہینہ پلک جھپکنے میں گزر جاتا۔ لیکن مستقل طور پر پاکستان آنے کے بعد ایک بار پھر رابطے بحال ہوئے۔ ویسے بھی ان سے ہمارے گھریلو تعلقات ہیں۔ ان کی امی تو ہمیں اپنے بیٹوں کی طرح ہی پیار کرتی تھیں۔ جہاں ملاقات ہوتی دل کھول کر باتیں کرتیں۔ وہ کہنے کو اسلام آباد میں رہتی تھیں لیکن ان کے اندر ملکوٹ بستا تھا۔ وہ اپنے لوگوں، اپنی زمینوں، اپنے درختوں، اپنی آب و ہوا اور روائتوں قدروں کو محبت سے یاد کرتیں۔
کچھ برس پیشتر ہم نے ہل نیوز کے پلیٹ فارم سے ادبی بیٹھک کا سلسلہ شروع کیا تو اسداللہ غالب، نوید عباسی، ڈاکٹر شکیل کاسیروی، ضیاء عباسی اور قادری صاحب کے ساتھ ساتھ خرابی صحت کے باوجود اے ڈی عباسی بھی اکثر بیٹھکوں میں شریک ہوتے۔ ان بیٹھکوں میں مری سے پروفیسر اشفاق کلیم عباسی، ایبٹ آباد سے معروف لوک گلوکار، شاعر اور کالم نگار شکیل اعوان، معروف شاعر لالا امان اللہ امان اور ہندکو کے انور مسعود جناب احمد ریاض، کہوٹہ سے عبدالرحمان واصف، گوجری کے شہرت یافتہ شعراء عبدالرشید چوہدری، صفی ربانی، پہاڑپور سے اردو اور سرائیکی کے نوجوان شاعر اور محقق ذیشان مرتضی، پوٹھوہاری کے شاعر اور اینکر تیمور اکبر جنجوعہ کے علاوہ کشمیر کے حوالے سے معروف ترین نغمے "دنیا کے منصفو” کے خالق جاوید احمد عباسی (مرحوم) بھی شریک ہوئے اور شاید ہل نیوز ادبی بیٹھک میں ہونے والا جاوید احمد صاحب کا انٹرویو ان کا کسی بھی پلیٹ فارم پر طویل ترین انٹرویو تھا۔
نوید عباسی نے بھرپور کوشش کی اور ہمارے اس سلسلے میں دو نہایت کامیاب اجلاس بھی ہوئے کہ "ہل نیوز” کو ایک منافع بخش ڈیجیٹل اخبار کے طور پر نئی شکل میں پیش کیا جائے۔ اس کے کنٹینٹ کا معیار بلند کیا جائے۔ فائنانس کی منجمنٹ بہتر بنائی جائے۔ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے تمام پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ اے ڈی عباسی نوید رزاق عباسی کے کہے پر آمنا و صدقنا کہتے جاتے۔ لیکن اسی دوران اے ڈی عباسی بدقسمتی سے ایک بار پھر علیل ہو گئے۔ ان کی ادبی بیٹھکوں میں شرکت بھی متروک ہو گئی۔ پھر احباب کی ذاتی اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے ادبی بیٹھکوں کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہو کر رہ گیا۔ نوید رزاق عباسی کشمیر میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں مصروف ہو گئے۔ ضیاء عباسی مری منتقل ہو گئے اور راقم اپنی کتب کی اشاعت اور پہاڑی زبان کے فروغ کے پروگراموں میں مصروف ہو گیا۔ لیکن اے ڈی عباسی جہاں بھی ملتے اس بات پر اصرار کرتے کہ ہل نیوز ادبی بیٹھک کے سلسلے کا احیاء کریں۔ ہل نیوز کے احباب سے میری گزارش ہو گی کہ اے ڈی بھائی کی اس خواہش کو پورا کرنا کوئی کار مشکل نہیں۔ اگر زیادہ نہیں تو ہل نیوز ماہانہ ادبی بیٹھک کا سلسلہ شروع کر دیں۔ حسب معمول ہمارا بھرپور تعاون آپ کو حاصل رہے گا۔
اے ڈی عباسی ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا لیکن اپنے پیچھے خوبصورت یادیں چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے سارے احباب شاہد ہیں کہ وہ اپنی آخری سانس تک اس عہد پر قائم رہے کہ ۔۔۔۔
صحافت کو میں ہمیشہ عبادت اور خدمت کے طور پر” انجام دوں گا”
اللہ پاک ہمارے دوست کو غریق رحمت فرمائے اور اس کی اولاد کو اس کے خواب پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
راشد عباسی