غریب کا بچہ اور ہمارے تعلیمی ادارے
تحریر: حماد سکندر عباسی
غریب کا بچہ اور ہمارے تعلیمی ادارے
ہمارے ملک میں قابلیت جانچنے کا صرف ایک پیمانہ عام ہے۔۔۔۔ نمبر اور گریڈ۔ اسی لیے ہمارے ہاں زیادہ نمبر لینے والے بچوں کو سراہا جاتا ہے. ان کو داد دی جاتی ہے۔ ان کے گن گائے جاتے ہیں۔ ان کو سر پر بٹھایا جاتا ہے۔ انہیں مہنگے یا سستے کالجوں میں داخلہ مل جاتا ہے.
لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ زیادہ نمبر لینے والے بچے معاشرے کا 20% فیصد ہیں. باقی کے تمام بچے اوسط نمبر لینے والوں میں شامل ہیں۔ ان کے نمبروں کی شرح 45 فیصد سے لے کر 70 فیصد تک ہے. یہ معاشرے کا 80 فیصد ہیں۔ سوال یہ اٹھتا کہ بچوں کی یہ اکثریت کہاں جائے؟
ایک بچے نے FA یا FSC میں 60 فیصد نمبر لیے ہیں۔ وہ کوہسار یونیورسٹی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن انگلش ڈیپارٹمنٹ کا میرٹ 95 فیصد ہے۔ یہ بچہ کہاں جائے؟
ایک بچہ ہے جس کی میٹرک سائنس میں ہے اور اس کے 55 سے 60 فیصد نمبر ہیں۔ لیکن گیارہویں جماعت میں 60 فیصد سے کم نمبروں والے بچوں کو داخلہ ہی نہیں دیا جارہا۔ حتیٰ کہ کوہسار یونیورسٹی، جو پہلے گورنمنٹ کالج تھا، نے بھی سیٹیں محدود کر دی ہیں.
پرائیویٹ کالجوں کا میرٹ ویسے بھی زیادہ ہے اور پھر ان کی فیسیں غریب بچوں کی استطاعت سے کوسوں دور ہیں. بچہ کہاں جائے؟
ہمارے معاشرے کے اکثر بچے اوسط درجے کے ہیں، جن کے نمبروں کی شرح 45 فی صد سے لے کر 70 فی صد تک ہے. یہ معاشرے کا 80 فیصد ہیں۔ یہ بچے کہاں جائیں؟
شہر کے کون سے کالج انہیں آغوش میں لیں گے اور کون سی جامعات ان کو داخلہ دیں گی؟ ان بچوں کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں تو بات کیا کرے گا اور آواز کیا اٹھائے گا. یہی 80 فیصد بچے ہیں جو گھمبیر مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے آدھے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں، آدھے ہجرت کر جاتے ہیں، انہیں دوسرے شہروں اور ملکوں کی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ پھر ہمارا گلہ ہے کہ ہم تعلیم میں پیچھے ہیں. مگر ہم اپنی کوتاہی کی جانب توجہ ہی نہیں دیتے کہ نوجوانوں کی اکثریت کے لیے تو تعلیم جاری رکھنے کے مواقع ہی موجود نہیں ہیں۔ شرح خواندگی کا گراف نیچے کیسے نہیں گرے گا؟
گورنمنٹ کالج مری کا خاتمہ ہو چکا ہے، جہاں کم نمبروں والے بچوں کو بھی داخلہ مل جاتا تھا۔ جہاں فیسیں بھی مناسب تھیں۔ جہاں غریب کا بچہ، جو نامساعد حالات میں پڑھا اور 90 فیصد نمبر نہیں لے سکا، بھی تعلیم جاری رکھ سکتا تھا۔ اب ایسے بچے کہاں جائیں گے؟ جب اس حوالے سے آواز اٹھائی گئی تو بعض نے کہا کہ یہ لوگ یونیورسٹی کے قیام کے خلاف ہیں۔ یہ سیاسی مخالفت میں اندھے ہو چکے ہیں. آج میرے پاس کم ازکم دس ایسے کیس آ چکے ہیں جہاں بچوں کے پاس داخلے کے لیے کسی کالج کا آپشن نہیں ہے۔ غریب کے بچے کے لیے یونیورسٹی نہیں ہے۔ ہمیں معاشرے میں زندہ رہنے والے ہر بچے کی تعلیم کی فکر ہونی چائیے، چاہے اس کے نمبر 40 فی صد ہیں یا 99 فی صد۔ ۔۔۔ تعلیم کا حق سب کے لیے یکساں ہے.
تعلیم کی اہمیت کی بات کرنے والے اب سوچیں کہ ہم نے کچھ حاصل کیا ہے یا جو حاصل تھا اس کو بھی گنوا دیا ہے.
ایک بے بسی کا سماں ہے. اس پر اہلِ دل آواز اُٹھائیں اور شدید آواز اُٹھائیں کہ یہ نئی نسلوں کے مستقبل کی بات ہے۔
حماد سکندر عباسی