
عمر رفتہ کی کتاب … نجمہ لیاقت
’’ ٹِک ٹِک ۔۔۔۔ ٹک ٹک ‘‘ وہ بَگٹُٹ بھاگتی گھڑی کی سوئی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی ’’ کتنی جلدی ہے اسے ۔۔۔۔خود بھی گھومے جاتی ہے اور جیون پہیے کو بھی ۔۔۔۔ کیسے گھڑیاں ، منٹوں ،گھنٹوں اور دن مہینے سال میں ڈھل گئیں‘‘۔
سوئی سے نظر چُرا کر وہ قدم آدم آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی ، سراپے پہ ایک بھرپور نگاہ ڈالنے کے لیے۔۔۔۔ لیکن اس کی نگاہ روپہلی لٹوں میں الجھ کر رہ گئی ۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے ادھیڑ عمر ی تک کے سفر کی فلم ایک لمحے میں اس کی نظر سے گزر گئی ۔۔۔’’ کتنی لمبی زندگی، میں اتنے مختصر وقت میں جی گئی نہیں نہیں ۔۔۔۔ بلکہ گزار گئی ،، ۔بالوں میں اتری چاندی دیکھ کر دل دھک سے رہ گیا ۔ آیئنے کے درشن سے گھبرا کر بلکہ غش کھا کے وہ کرسی پر جا پڑی اور ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر زندگی کی ڈائری نکال لی ۔۔۔۔
سودے سلف کی ڈائریاں لکھتے لکھتے وہ جیون ڈائری تو بھول ہی چکی تھی ۔ بکھرے ارمان ، ٹوٹے خواب ، ادھوری خواہشیں کیا کچھ سوئی کی سولی پہ چڑھا منہ چڑا رہا تھا ، پرحسرت آنکھوں سے وہ انھیں دیکھتی عمر رفتہ کی کتاب کھولے حساب لگا رہی تھی ’’ لمحے ۔۔۔۔ ریت کے ذرے کیسے دبوچتے ہاتھوں سے سموچے نکل گئے تھے اور اپنے حصے میں تو کچھ آیا ہی نہیں ۔۔۔ بس ایک باقی ماندہ لمحہ جس میں وہ سوچ رہی تھی ۔۔۔۔ ذمہ داریاں ۔۔۔۔ ہاں ہر ذمہ داری میں نے پوری ذمہ داری سے نبھائی ہے ‘‘
اس کا سر فخر سے بلند ہوتا جا رہا تھا لیکن وہ ۔۔۔۔ لیکن یہ ۔۔۔۔ بہت سارے لیکن ویکن وہ گنوا چکی تھی ۔۔۔۔ اپنی ’’ گَنوائیاں اور قربانیاں ‘‘ سوچ کر اس کا دل بیٹھ گیا ۔۔۔۔ ’’ ڈوبتے دل اور اٹھتے سر ‘‘ کے درمیان وہ بہت دیر معلق رہی ۔۔۔ پھر صحن میں نکل آئی بھیگی آنکھوں سے وہ خالی ہاتھوں کو گھور رہی تھی ’’ میں کیا ۔۔۔ میں کون کہاں سب بھول رہی تھی ۔۔۔۔ اس نے دور کہیں سے آنے والی کوئل کی کوک پر کان لگا دیے ’’ یہ بھی اپنے درد میں ہوک رہی ہے‘‘ اتنے میں قریب سے اک صدا آئی جو اسے اِس کے نام سے پکار رہی تھی ۔’’ جی آئی ‘‘ اور سرد آہ کے بیچ وہ اپنا ’’باقی ماندہ لمحہ ‘‘گنوا کر ایک اور فرض ادا کرنے چل پڑی تھی ۔