عامر لیاقت کی موت، قتل یاطبعی؟؟؟
سینئر صحافی آغا خالد کی انکشافات سے بھرپور چشم کشا رپورٹ
عامر لیاقت اس خطے کی روح نہ تھے تبھی وہ اس ذہنی پس ماندہ معاشرہ میں سمانہ سکے کمال تو تقدیر نے ان سے یہ کیاکہ زندہ رہے تو پل پل متنازعہ اور موت بھی معمہ بن گئی ان سے دوستی نہ تھی بس ایک احترام کارشتہ تھا جس میں سامنا ہونے پر وہ اتنی عزت دیتا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کے کسی کونے میں اس کے نام کی تختی لگ جاتی 1994 میں روزنامہ پبلک کامیں پولیٹیکل رپورٹر تھا تو عامر لیاقت سے پہلی ملاقات ہوئی وہ اپنا کالم چھپوانا چاہتا تھا مینے اس کی مدد کی میں تازہ تازہ سکھر سے کراچی منتقل ہواتھا اس لئے ایم کیو ایم سے ہمدردی قدرتی تھی پھر پبلک کی پالیسی کا جھکائو ایم کیو ایم کی طرف بہت واضع تھا اور ان دنوں ایم کیو ایم ریاستی وحشت کے شدید دبائو میں تھی 1992 کا بدترین آپریشن انتقامی دہشت میں بدل چکاتھا اور عامر لیاقت اس :ظلمت کدہ: کراچی کی تصویر دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔
وہ مضمون چھپا تو اس کی خوشی دیدنی تھی بعد میں ایم کیو ایم کی بدلتی پالیسیوں اور تمام قومیتوں سے لڑاکر مہاجروں کو بند گلی میں لاکھڑا کرنے پر میں ذاتی طور پر ایم کیو ایم سے متنفر ہوگیا اور راستہ بدل کر روزنامہ امت کے قافلہ میں شامل ہوگیا کیونکہ ایم کیو ایم کی قیادت نے دیگر سیاسی جماعتوں کو اور خاص طور پر ان سے سیاسی اختلاف کرکے الگ ہونے والے دھڑے (جسے بعد ازاں ایم کیو ایم حقیقی کا نام دیاگیا) کو دشمن قرار دے کر مہاجر سیاست کے نام پر مہاجر نوجوانوں کے ہاتھوں مہاجروں ہی کو قتل کروانا شروع کردیا تھا یہاں تک کہ سیاسی مخالفت پر مہاجر نوجوانوں کو غدار قرار دینے اور بوری بند لاشوں کا بدترین کلچر متعارف کروایا اور اس راہ پر وہ اتنا آگے نکل گئی کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب قاتل بھی مہاجر اور مقتول بھی مہاجر ٹہرا 1995 میں یہ وہ وقت تھا جب میں ایم کیو ایم کی سیاست سے مایوس ہوکر قلم کی حد تک اس کے مخالفین کی صف اول کاسپاہی بن گیا جب مینے قافلہ امت میں شمولیت کا فیصلہ کیاتو عامر لیاقت سمیت اس وقت کے سبھی مہاجر سیاستداں اور صحافی ناراض ہوگئے بلکہ بعض کے رویہ سے تو ان دنوں باقاعدہ نفرت کی بھی بو آئی۔
امت میں شمولیت کی تو پہلے ہی روز ہمارے پرانے ساتھی رپورٹر شاہد مصطفی ایک دوست صحافی کے ساتھ ملنے آئے ملاقات تو محض بہانہ تھا انہوں نے مجھے ڈاکٹر فاروق ستار کا پیغام پہنچایا کہ، ادارہ امت نہ جائیں، کے ایم سی میں 17 گریڈ کے پبلک ریلیشنز آفیسر کا لیٹر ان کا منتظرہے وہ جاکر سرکاری ملازمت جوائین کرے، ڈاکٹر صاحب کی اس محبت پر میں حیران رہ گیا مگر میراجواب تھا کہ میں پیشہ ور صحافی ہوں آج امت تو کل امن میں نوکری کرسکتاہوں ڈاکٹر فاروق ستار اس زمانہ میں سندھ کابینہ میں سینیر صوبائی وزیر بلدیات تھے ان سے میرے بہت ہی قریبی اور برادرانہ تعلقات تھے ان کی محبت اور اعتماد پر میں آج بھی ان کاشکر گزار ہوں جب انہوں نے سینیر صوبائی وزیر بلدیات کا حلف اٹھایا تو اس کے چند روز بعد انہوں نے مجھے اپنے کیمپ آفس بلایا جو کہ پی آئی ڈی سی پل کے دوسری طرف کے ایم سی کے ریسٹ ہائوس میں قائم کیا گیا تھا یہ ریسٹ ہائوس بعد ازاں کراچی پریس کی ملکیت کے عوض پریس کلب کے مالک کو دیدیا گیاتھا، ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ کراچی کی صحافی برادری پر اتنا بڑا احساں ہے جسے وہ کبھی چکا نہ سکیں گے، میں جب ڈاکٹر صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھ سے کہاکہ قدوس بھائی (اب مرحوم اور سابق رکن سندھ اسمبلی) کا اصرار ہے کہ آزمائش کی گھڑی میں جن صحافیوں نے اسٹبلشمنٹ کے شدید دبائو کے باوجود ثابت قدم رہ کر ساتھ دیا انہیں کے ڈی اے کی کسی اسکیم میں پلاٹ دیئے جائیں تو انہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپنا چاہی کہ میں ایسے ہمدرد صحافیوں کی فہرست مرتب کروں مینے اس ذمہ داری سے معذرت کرلی میں کوئی بڑا ایماندار یامصلح نہ تھا مگر ایسے عمل کا حصہ بن کر بدنام بھی نہیں ہونا چاہتا تھا،
قبل ازیں جب وہ اور متحدہ کی ساری سینیر قیادت جیل میں تھی اور وہ جیل سے عدالت پیشی پر لائے جاتے تو ڈاکٹر صاحب جیل کے حالات اور ان کے ساتھ بہیمانہ حکومتی رویہ پر لکھے خفیہ نوٹ مجھے پولیس والوں کی نظر سے بچاکر تھمادیتے وہ میں خبر کی شکل میں فائل کرتا تو اگلے روز کی وہ پبلک کی دھماکہ دار اسٹوری ہوتی اس وقت روزنامہ پبلک کی سرکولیشن جنگ سے بھی زائد تھی جو اس وقت کے محتاط اندازوں کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے اوپر جارہی تھی اور دن بھر میں اس کے 5 ایڈیشن نکلتے تھے جبکہ چھٹا ایڈیشن پبلک ایوننگ کے نام سے شام 4 بجے مارکیٹ میں آتاتھا اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتا پبلک کے مالک انتہائی شریف النفس صحافی انقلاب ماتری اور ایڈیٹر ملک کے مایہ ناز صحافی انور سن رائے تھے جبکہ نذیر لغاری نیوز ایڈیٹر اور فاضل جمیلی ڈیسک انچارج تھے بعد میں انور سن رائے نے نذیر لغاری کو پبلک ایوننگ کا ایڈیٹر اور فاضل جمیلی کو نیوز ایڈیٹر بنادیا تھا اور سجاد عباسی پبلک کے ڈیسک انچارج ہوگئے تھے اور ان کی ٹیم میں سراج احمد قمرالزماں سمیت کئی ایسے قابل صحافی تھے جو آج مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر تعینات ہیں،
بات بہت دور نکل گئی ذکر ہورہا تھا عامر لیاقت کا ان سے پھر گاہے گاہے ملاقات ہوتی رہی دو مختلف نظریاتی انتہائوں پر ہونے کے باوجود احترام کے رشتہ میں کوئی کمی نہ آئی ان کی اصل شناخت روزنامہ پرچم سے ہوئی جس کے لئے وہ کبھی کبھار رابطہ کرتے اور مجھ سے جو بنتا مدد کردیتا تھا 2010 کے بعد جنگ/جیو گروپ میں آئی ٹی کے ماہر عامر حسین سے ان کا رابطہ ہوا جو میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں عامر لیاقت کے جیو میں آنے کے بعد یہی عامر حسین ان کی ٹیم کے انچارج بنے اور میری صحافت کے ابتدائی دنوں کے استاد سید وجاہت علی (صورت والے) کے بیٹے کامران وجاہت ان کے پی آر او بنے عامر لیاقت انتہائی ذہین شخصیت کے مالک تھے انہوں نے تحریر، تقریر،کالم نویسی، ٹی وی پر میزبانی، مذہبی پروگرامز، کسوٹی، نیلام گھر، تانیث، تبلیغ، تجارت الغرض ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے جہاں گئے جس دشت میں اترے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے ۔
میں ذاتی طور پر انہیں زیادہ پسند نہیں کرتاتھا اور کبھی قربت کی نہ خواہش ہوئی نہ کوشش مگر آج جو بھی ان کی تعریف میں لکھ رہاہوں یہ ان کی صلاحیتوں کا وہ کمال ہے جس نے مجھے ان کی بے پناہ کامیابیوں ناکامیوں عروج و زوال پر لکھنے پر مجبور کردیا ان کی ناگہانی موت نے مجھے بھی دکھی کردیاتھا اور تب سے میں نے ان کی موت کے اصل اسباب، وجوہ اور طبعی یاغیر طبعی موت پر تحقیق شروع کردی تھی، میرے نزدیک عامر لیاقت کی موت ذہانت و قابلیت کی موت تھی اور اس میں بہت سبق تھے جو آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہوسکتے ہیں اس لئے مینے ایک سال اس کے کیس کے تفتیشی افسروں، وکلاء، دوستوں، دشمنوں، ساتھیوں اور ملازموں کو خوب کریدا اور جو حاصل ہوا وہ بہت عبرت ناک ہے اس کی زندگی کے وہ آخری چند گھنٹے جب وہ معاشرہ کی بے حسی پر آنسو بہاتا رہا اپنے بچوں سے بات کرنے کو تڑپتا رہا اپنے کمرہ کا دروازہ اندر سے بند کرکے اس نے دنیاء سے رشتہ توڑلیا کبھی وہ زور زور سے رونے لگتا اور کبھی قریبی دوستوں سے گلے شکوے کرتا اور پھر وہ جو ہمیشہ اپنے ہونے کا لوہا منواتا تھا وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی-
(موت کے اصل اسباب کی تفصیل اگلی قسط میں)