عام آدمی کی حیات و موت
تحریر: راشد عباسی
عام آدمی کی حیات و موت
(اپنے عزیز دوست قمر حیات عباسی کا نوحہ)
اس کا بچپن ملکوٹ جیسے پسماندہ اور دور افتادہ گاؤں میں گزرا۔ والد محترم بیرون ملک ملازمت کر رہے تھے اس لیے معاشی مسائل نہیں تھے۔ ملکوٹ میں ہائی سکول نہیں تھا اس لیے پرائمری کے بعد اسے بھی ہمارے ساتھ کئی کلومیٹر دور گورنمنٹ ہائی سکول اوسیاہ داخلہ لینا پڑا۔ ملکوٹ اور اوسیاہ کے تعلیمی معیار میں واضح فرق تھا۔ وہ اکثر کہتا کہ ریاضی اور انگریزی اس کی سمجھ سے باہر ہیں۔ لیکن اساتذہ میں سے اکثر ان دنوں "مولا بخش” (لاٹھی) کا آزادانہ استعمال کرتے تھے۔ پھر سبق نہ یاد کرنے والوں کو ساری جماعت کے سامنے مرغا بھی بننا پڑتا تھا۔ اس لیے کچھ طلبا دل برداشتہ ہو کر پڑھائی چھوڑ دیتے تھے۔ ملکوٹ اور اوسیاہ کے بیچ میں نالہ کنیر پڑتا تھا، جس پر اس وقت پل نام کی سہولت موجود نہ تھی۔ بارش ہونے کی صورت میں اس میں طغیانی آ جاتی اور آر پار جانے والے کناروں پر پھنس جاتے، تاوقتے کہ پانی اتر جائے۔ یہی مسائل تھے کہ ملکوٹ کی نوے فی صد لڑکیاں پرائمری کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہہ دیتیں اور لڑکوں میں سے بھی بیس تیس فی صد ہی یہ پل صراط عبور کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے۔
قمر حیات گھر میں سب سے بڑا تھا۔ والدہ بھی گاؤں کی اکثر عورتوں کی طرح پڑھی لکھی نہ تھیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرے۔ والد صاحب کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر خوشحالی تو تھی لیکن جو والد اپنے بچوں کے بچپن میں ان کے ساتھ نہیں ہوتے ان کی یہ کمی زندگی بھر دور نہیں ہو سکتی۔ قمر حیات نے میٹرک سے پہلے ہی تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا۔
عملی زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ اس نے مختلف تجربات کیے۔ ایک باورچی کے طور پر اس کو جب کافی تجربہ حاصل ہو گیا تو وہ اسی سے وابستہ ہو گیا۔ مختلف جگہوں پر ملازمت کی۔ جن دنوں وہ ایف ٹین اسلام آباد میں ایک سویٹ ہاؤس کے ملازمین کے کک کے طور پر ملازمت کرتا اور وہیں رہتا تھا ان دنوں ہماری کمپنی کا دفتر بھی ایف ٹین میں ہی تھا۔ یوں ہماری ملاقات اکثر ہو جاتی۔ دفتری ضروریات کے تحت مجھے تھری پیس اور ٹائی کا اہتمام کرنا پڑتا۔ لیکن جب دو بچپن کے لنگوٹیے مل جائیں تو تھری پیس میں بھی کسی تھڑے پر بیٹھ کر گپ شپ اور ہنسی مذاق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔ لیکن قریب سے گزرنے والے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے مل بیٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب شرکاء محفل نے ایک ہی طرز کا لباس زیب تن کیا ہو۔ کبھی کبھار وہ بھی دفتر آ جاتا لیکن ایک ملٹائی نیشنل کے انگریزی ماحول والے دفتر سے اسے کچھ خوف سا آتا تھا۔
پھر وہ سویٹ ہاؤس ختم ہو گیا۔ اس کے مالکوں نے بہت اچھے کرائے پر وہ عمارت ایک بنک کو دے دی۔ کئی درجن "عام آدمی” بے روزگار ہو گئے۔ لیکن سرمایہ دار کو ایسی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس کی ترجیح اس کے سرمائے کا تحفظ اور بڑھوتری ہے۔ عام آدمی تنکوں کی بکھر جائیں یا موت کے منہ میں چلے جائیں انھیں اس سے کیا غرض۔ حال آنکہ کئی ملازمین نے اس سویٹ ہاؤس کو کامیاب بنانے میں اپنی عمر کے بیس سے تیس سال دے دیے تھے۔
قمر حیات سندھ کے کسی ساحلی علاقے میں بہ غرض ملازمت چلا گیا۔ وہاں موبائل کے سگنل بھی نہیں تھے۔ کسی پہاڑی کی چوٹی پر سگنل کی سہولت میسر تھی اس لیے وہ دن کو فارغ وقت میں وہاں جا کر احباب اور گھر والوں سے رابطہ کرتا۔ بہت عرصہ تک وہ اس ملازمت سے وابستہ رہا۔
کچھ برس پیشتر وہ واپس اسلام آباد آ گیا۔ بھارہ کہو میں ایک بوائز ہاسٹل میں کک کے طور پر ملازمت شروع کر دی۔ ملاقات پر اس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا،
یرو! تساں پڑھائی کیتی تے تساں نے بچے وی پڑھی لخی گئے۔ اساں آپے وی نیئاں پڑھی سکے تے اگیں مہاڑے نکے وی پڑھائی چھوڑ دتی۔ ساہڑے آرا اوہ وی ٹھہلے ٹکراں کھاسی”۔
(یار! آپ نے پڑھائی کی اور آپ کے بچے بھی پڑھ لکھ گئے۔ میں نے خود پڑھائی چھوڑ دی تھی اور اب میرے بچے نے بھی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔ میری طرح وہ بھی اب ٹھوکریں کھائے گا)
میں نے تسلی دی کہ ضروری نہیں سارے بچے روایتی تعلیم حاصل کریں۔ اسے کسی دن میرے پاس لاؤ وہ جس شعبے میں ہے اسی میں اس کو اچھی تربیت دے کر بہتر ملازمت دلائی جا سکتی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ بیٹے کو لے کر آئے گا۔ لیکن پھر وہ لمبے عرصے کے لیے غائب ہو گیا۔
گزشتہ دنوں راولپنڈی آرٹس کونسل میں میرے شعری مجموعے "عشق اڈاری” کی تقریب پذیرائی ہوئی۔ جب تقریب کا اختتام ہوا تو وہ بھی دیگر احباب کے ہمراہ آ کر تپاک سے گلے ملا اور بہت مبارکباد پیش کی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اسے اس تقریب کی اطلاع کیسے ملی۔ لیکن اس عام آدمی نے بہت بڑا جملہ بول کر مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔۔۔۔
"دوستوں کے دکھ میں شامل ہونا عام بات ہے لیکن دوستوں کی کامیابیوں پر دل سے خوش ہونا اور ان کی خوشی میں شریک ہونا صرف خاندانی لوگوں کا کام ہے”
ہم مادری زبانوں کے تین روزہ قومی میلے میں مصروف ہو گئے۔ اس دوران ہم منتظمین کو اپنا ہوش بھی کم کم ہی ہوتا ہے۔ میلہ اختتام پذیر ہوتا ہے تو ایک دو دن آرام ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک اور میلے کی کامیابی پر مبارک باد کے پیغامات کے بیچ میں ہی ایک پیغام نے ہلا کے رکھ دیا۔۔۔۔
"آپ کے دوست قمر حیات اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں”
آخری آرام گاہ قمر حیات
بھاگم بھاگ آئی ٹین فور پہنچا۔ احباب سے مل کر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا۔ نماز جنازہ پڑھی اور پھر ایچ الیون قبرستان چلے گئے۔ تدفین ہوئی۔ الوداعی دعا ہوئی۔ میں سوچ رہا تھا عام آدمی کو اس ملک میں نہ سکون سے جینے کا حق حاصل ہے اور نہ چین سے مرنے کا۔ ایچ الیون کے جدید، خوبصورت اور پر سکون قبرستان میں قبر کی جگہ ملنا بعد از مرگ سہی لیکن لگژری کے مترادف ہے۔ خدا خبر کب اہل جاہ و حشم عام آدمی کی اس لگژری پر بھی قدغن لگا دیں۔
راشد عباسی