شالا مسافر کوئی نہ تھیوے۔۔۔۔۔ برسی کہوں یا سالگِرہ؟
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے۔۔۔برسی کہوں یا سالگِرہ؟
اب 2024 کا نومبر چل رہا ہے۔ یہ نومبر 1994 کی بات ہے جب میں جرمنی کے شہر برلن پہنچا تھا ۔۔۔۔ اور پھر برلن کا ہی ہو کر رہ گیا۔
28 نومبر 1994 بروز جمعہ میں برلن آیا تھا۔ یعنی دو ہفتوں بعد مجھے یہاں 30 سال پورے ہو جائیں گے۔ جو فوٹو میں نے پوسٹ میں شامل کیا ہے، میرے خیال میں یہاں پر یہ میرا پہلا فوٹو تھا، جو کسی مقامی ڈاکومنٹ کے لیے بنوایا تھا۔
حساب کتاب کے بعد اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمر عزیز کا پاکستان میں گزرا ہوا وقت کم اور جرمنی میں زیادہ ہو گیا ہے۔
1994ء والا اسماعیل نوجوان تھا اور 2024 ء والا اسماعیل خود تین نوجوان بیٹوں کا باپ اور 94 ء والے اسماعیل کا صرف بھدا اور ناقابل شناخت سا عکس ہی رہ گیا ہے۔
مجھے نومبر 1994ء بالکل کل کی بات لگتی ہے حالانکہ 30 سال گزر چکے ہیں۔ بہت کچھ بدل چکا ہے اور بہت کچھ نیا بھی بلکہ حیرت انگیز بھی۔
- پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟
- یہ 30 ویں سالگِرہ ہے یا 30 ویں برسی؟
- کیا کھویا کم اور پایا زیادہ ہے ؟
- کیا اس سفر میں خسارے بھی ہوئے یا صرف نفع ہی نفع دیکھا؟
یہ سوال کافی مشکل ہیں اور ان کے جوابات بھی ہاں اور نہ میں نہیں دیے جا سکتے، کیوں کہ ہر سوال کے ایک سے زیادہ جوابات ہو سکتے ہیں۔ جس طرح بعض دوائیوں کے فائدے کے ساتھ ساتھ سائیڈ ایفیکٹ بھی ہوتے ہیں اسی طرح پردیس کے ہر فائدے کے دامن میں کچھ نقصانات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ نقصان پردیس کے کھیل کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔
فائدے یہ ہوئے کہ خدا کی وسیع زمین اور زمین کے مکین دیکھے۔ طرح طرح کے شہر اور مختلف کلچر دیکھے۔ بہت سی زبانوں سے واسطہ پڑا اور دو تین زبانیں سیکھ بھی لیں۔ نیز کچھ کے ٹوٹے (ٹکڑے) یاد بھی رہ گئے۔ نئے نئے دریا اور پہاڑ دیکھے۔ مشکل حالات سے لڑ کر جینا اور رہنا سیکھا۔
جہاں تک خسارے کا تعلق ہے ۔۔۔۔ اگر آپ کا پردیس کا کوئی تجربہ ہے اور ان سطور کو دیدہ دل سے پڑھیں گے تو ضبط اشک آپ کے لیے شاید ممکن نہ ہو۔
- جب میں 2007ء میں پہلی بار اپنے والد صاحب کی قبر پر پہنچا تو تب انہیں دفن ہوئے 3 سال ہو چکے تھے۔
- صحت مند ماں چھوڑ کر پردیس آیا تھا۔ لیکن جب 16 برس بعد ماں کو دیکھا تو وہ پہچانی نہیں جاتی تھی۔
- سکول جانے والی بہنیں چھوڑ کر آیا تھا۔ واپس گیا تو ان کی نہ صرف شادیاں ہو چکی تھیں بلکہ وہ مائیں بھی بن چکی تھیں۔
چھوڑیں ۔۔۔۔۔ نفع نقصان کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس کا اظہار میرے لیے تو تکلیف دہ ہے ہی ۔۔۔۔۔ آپ بھی پڑھ کر اداس ہو جائیں گے ۔ میری تو تن بیتی ہے۔۔۔۔ میں تو ہزاروں واقعات لکھ سکتا ہوں لیکن ۔۔۔۔
"کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں”
اسماعیل محمد ۔۔۔ جرمنی