شاعر بھی بڑی چیز ہوتے ہیں !
شاعر بڑی چیز ہوتے ہیں
یہ شاعر بھی بڑی چیز ہوتے ہیں، ایک ہی شعر میں بہت کچھ کہنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں اور دسترس بھی۔
کبھی کبھی تو شاعر گلی محلے میں چلتے پھرتے افلاک کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں، چاند تاروں کو ٹھوکریں مارنے لگتے ہیں اور سورج سے ماچس کا کام لیتے ہوئے سگریٹ تک جلا لیتے ہیں۔ یہ شاعر وہی ہیں جو سمندر کو پیالے میں ڈال کر ڈیک لگا لیتے ہیں اور صرف ایک آنسو میں غوطے کھاتے کھاتے ڈوب بھی جاتے ہیں۔ آسمان پر ہاتھ مار کر اسے چیر دیتے ہیں اور پھر عرش کو مشاعرے کا سٹیج سمجھ لیتے ہیں۔ سلطانی اور سلطنت کو تو یہ شاعر لوگ "سلوکے کی کھبی جیب” میں رکھ کر چلتے ہیں اور فقیری اور درویشی کے تو خیر یہ ہوتے ہی امام ہیں۔
لیکن جب یہ حساس لوگ الفاظ میں حقیقت کی منظر کشی کرتے ہیں تو پڑھنے والے کو "جگ بیتی” یوں محسوس ہوتی ہے جیسے "تن بیتی” ہو۔۔ چلیے آپ کی خدمت میں چند شعر پیش کرتے ہیں۔۔۔۔
یہ شعر جون ایلیا کا ہے۔ اور ویسے بھی یہ شعر قبلہ جون ایلیا ہی لکھ سکتے تھے۔ فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہم نے کیے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے
درج ذیل شعر پنجابی میں ہے اور اس کے شاعر تجمل کلیم ہیں۔ دیکھیے کہ مزدور کا دکھ کس طرح بیان کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
جس دن نانہہ مزدوری لبھے
بوہے ولوں گھر نئیں جاندا
مشہور نقاد اور ادیب شمس الرحمن فاروقی کا خیال تھا کہ احمد مشتاق، احمد فراز سے بڑے شاعر ہیں۔ احمد مشتاق کے یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو، لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے
شکیب جلالی۔۔۔۔ جی جی وہی شکیب جن کے اشعار زبان زد عام ہیں۔۔۔۔۔۔
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
ان کے یہ مختلف مزاج کے شعر دیکھیے
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیب
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
منیر نیازی، جی "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں” والے منیر نیازی۔۔۔
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کی پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اور پروین شاکر کے یہ بے حد خوبصورت اشعار آپ کی بصارتوں کی نذر۔۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا
چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا
تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
آخر میں خصوصی طور پر یہ شعر۔۔۔۔ جو ہمیشہ میری آنکھیں نم کر دیتا ہے۔۔۔۔۔ جانے کیوں۔۔۔۔
چہرہ و نام ایک ساتھ، آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
اسماعیل محمد ۔۔۔۔۔۔ جرمنی