خواتین کی ہائی بریڈ وریموٹ ملازمتیں.تحریر:اعظم علی ،سنگاپور
ترقی یافتہ و تیزی سے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم G20 کے اٹھارہ ممالک کے اعدادو شمار کے مطابق مجموعی طورپر ان کی 53 فیصد خواتین پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا حصہ ہیں ۔جن میں آسڑیلیا کی 62 فیصد، کینیڈا و چین کی 61 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں۔سنگاپور میں بھی 62 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں.
دنیا بھر میں خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں شرکت کا تناسب 39 فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان میں صرف 24 فیصد خواتین معاشی سرگرمیوں شامل ہیں (ان میں بھی زیادہ تر گھریلو خادماؤں یا مزدور پیشہ ہیں) خواتین کے روزگار کے لحاظ سے پاکستان 180 ممالک میں 168 ویں پوزیشن پر ہے۔(خیر یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے کہ مسلمان ممالک میں خواتین کا ملازمت و کاروبار کا رجحان کم ہی ہے)۔
ترقی یافتہ اور تیزی سے ترقی پذیر معاشروں میں خواتین کی ملازمت کا تناسب زیادہ ہونے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے، کہ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں کو اپنے ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے افرادی قوت کی شدید ضرورت رہتی ہے۔
اگر ان ممالک کی خواتین معیشت و پیشہ ورانہ سر گرمیوں سے دستبردار ہو کر روایتی گھریلو ذمہ داریوں تک محدود ہو جائیں تومعیشت کا پہیہ گردش میں رکھنے کے لئے افراد کار کی قلت گھمبیر مسئلہ بن جاتا ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک کے لئے غریب اور کمزور معیشت والے ممالک سے غیر ملکی افرادی قوت لانے کی اپنی محدودات ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل جن میں شھروں کی تیزی بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اور مقامی باشدوں اور غیر ملکی کارکنان کے درمیان ملازمتوں و دیگر وسائل میں مسابقت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ امن و امان کے مسائل سے نمٹنا بھی بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔
اس لئے ان ممالک کی حکومتوں کے لیے بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ کس طرح روزگار کی سرگرمیوں کو گھریلو زندگی کے لئے آسان بنایا جائے ۔ ان حکومتوں کی بنیادی ترجیح اپنے شھریوں کو جنسی تفریق کے بغیر بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے لئے تیار کرنی ہوتی ہے ۔ تاکہ چاہے مرد ہو یا عورت کو ملک کی معاشی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکے ۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان معاشروں میں خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں مصروفیت کا نتیجہ شرح پیدائش میں تشویشناک کمی کی صورت میں نکل رہا ہے جس کے نتیجے میں ان قوموں کے مستقبل کے بارے میں پریشان کُن سوالیہ نشان پیدا ہورہے ہیں ۔اس وقت تائیوان سنگاپور، کوریا دنیا میں کم ترین شرح پیدائش والے ممالک میں شامل ہیں۔
چین نے کئی دہائیوں تک فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی نافذ رکھی ۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے معاشی حالات نے انہیں اس پالیسی کو ترک کرنے پر مجبور کردیا ۔ سنگاپور بھی دوبچے کی پالیسی کو لیکر چلتا رہا اور پھر تین اور چار بچوں پر آگیا۔ جاپان پہلے ہی کم شرح پیدائش کی وجہ سے پریشان ہے ۔اس صورتحال میں ان معیشتوں کے لئے واحد راستہ یہی رہ جاتا ہے کہ اپنی خواتین آبادی کو معاشی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے آسانی پیدا کریں ۔
ایسا ممکن ہی نہیں کہ خواتین وحضرات کے معاشی مصروفیات میں مشغول ہونے کے نتیجے میں گھریلو زندگی کا توازن قائم رہے ۔ اس لئے بعض اداروں نے اپنے ملازمین کے لئے دفاتر و کارخانوں میں بھی ڈے کیئر بنا دئیے جہاں خواتین بچوں کو چھوڑ کر اپنی دفتری مصروفیات کا آغاز کرتی ہیں اور کام ختم ہونے اپنے بچے کو ساتھ لیکر گھر چلی جاتی ہیں۔
ریموٹ و ہائی بریڈ ملازمتوں پر کو رونا کے اثرات
ایک طرف کورونا نے دنیا بھر میں مشکلات تو پیدا کیں لیکن ملازمت پیشہ لوگوں کی زندگیوں میں نیا انقلاب کا مظہر بن گیا ۔ کہ 2020/21 کے دوران پوری دنیا لاک ڈاؤن کی حالت میں تھی ۔ زیادہ تر کاروباری ادارے اپنے دفتری ملازمین سے ریموٹ یعنی گھر وں بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے ممالک سے کام لینے پر مجبور ہو گئے ۔
کورونا کی شدت کے خاتمے کے بعد کاروبار زندگی معمول پر آنا شروع تو ہو گیا دفاتر بھی اوقات میں دفتر سے روایتی انداز سے کام کرنے کے معمول پر آگئے لیکن کسی نہ کسی حد تک بڑے بین الاقوامی اداروں میں ریموٹ اور ہائی بریڈ کام کرنے کا کلچر باقی رہا۔
فری لانسنگ کا تو زیادہ تر کام ہی ریموٹ طریقے ہوتا ہے کہ اس طریقے کام کرنے والا دنیا بھر کے کسی بھی مقام سے بیٹھ کر اپنے دفتری فرائض انجام دی سکتا ہے ۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ کاروباری و دیگر ادارے حسب ضرورت دنیا کے کسی بھی مقام سے باصلاحیت افراد کو بغیر امیگریشن کے مسائل سے گذرے ملازم رکھ سکتے ہیں ۔
محدود طور یہ انداز کار کم از کم ایک دہائی سے شروع ہو چُکا تھا لیکن، کورونا کے لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً ایک سال تک کاروباری ادارے ریموٹ طریقے سے کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کورونا سے متاثر ریموٹ (گھروں سے) کام کرنے کے تجربے کی کامیابی کے بعد بہت سے اداروں نے اپنے انداز کار کو تبدیل کر اپنی افرادی قوت کی بڑی تعداد کو دفاتر میں حاضری پر اصرار کی بجائے گھروں سے ہی اپنے کام کرنے کو قبول کرلیا ۔
دوسری طرف ہائی بریڈ ورکنگ کلچر میں عموما کارکن کو روز دفتر میں حاضری کی بجائے ہفتے میں طے شدہ یا حسب ضرورت دو یا تین دن دفتر میں حاضری لازم ہوتی ہے۔ باقی دنوں میں وہ اپنے فرائض گھر سے فون یا آن لائن کام کرکے انجام دیتے ہیں ۔اس طرح سے کام کرنے والوں کو تنخواہ و مراعات بھی کُل وقتی دفتر سے کام کرنے والوں کے مساوی ملتی ہے۔
ہائی بریڈ کام کا فائدہ ویسے تو ہر طبقے ہی کو ہوا، لیکن بالخصوص خواتین کے لئے یہ ایک نعمت ہے کہ وہ دفتری کام کے ساتھ گھریلو زمہ داریوں سنبھالنے یا نگرانی کے قابل ہو گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمین کے لئے روزانہ دفتر آمد و رفت کے سفری اخراجات و وقت کے ضیاع کی بچت بھی اضافی فائدہ ۔
ہمارے گھر کی روایت ہے کہ عموما سال کا آخری ماہ پاکستان میں ساری فیملی اکٹھی گذارتی ہے ۔ اس لیے میرا ریموٹ ورکنگ کا مشاہدہ کورونا سے پہلے ہی اس وقت ہوا جب ہماری بیرون ملک میں برسر روزگار بچیوں کے لئے ملازمتوں سے دسمبر کے پورے ماہ کی چھٹیاں کرنا تو ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنے آجرین سے دسمبر کا مہینہ پاکستان سے ریموٹ کام کرنے کی اجازت حاصل کی ۔اب سارے بچے ایک ماہ کے لئے اپنے فرائض پاکستان سے انجام دیتے ہیں ۔
بلکہ وہ دونوں ممالک میں وقت کے فرق کی بناء پر صبح چھ بجے کام شروع کرکے سہ پہرتین بجے تک فارغ ہو کر سہ پہر و شام باآسانی اپنی سماجی و تفریحی مصروفیات کے مزے لیتے ہیں۔ عموما پاکستان میں امریکہ و یورپ سے ریموٹ کام کرنے والے دن بھر آرام یا ضروری کام کاج کرنے والے عموما شام کو یا رات دیرتک کام کرتے ہیں (جس کی وجہ سے دن میں بچوں کے اسکول سمیت بہت سارے کاروبار زندگی گذارنے کا وقت مل جاتا ہے)۔
ہماری ایک عزیزہ جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سنگاپور کے دفتر میں مینجر کے عہدے پر فائز تھیں شادی کرکے پاکستان منتقل ہو گئی تھیں، ایک سال تو انہوں نے تو چھ ماہ تک اپنے سسرال پاکستان ہی میں ریموٹ طریقے سے کام کرتی تھیں باقی چھ ماہ کے اپنے میکے یعنی سنگاپور میں رہ کر دفتر میں کام کرتی رہیں (قانونی طور پر سال میں کم از کم 181 دن تک اپنے مقام ملازمت رہنا لازم تھا)۔
پر بچے کی پیدائش کے بعد ان کے لئے دو کشتیوں کی سواری (یعنی دو ممالک میں وقت گذارنا) عملی طور پر ممکن نہ رہا تو انہوں نے ملازمت چھوڑ کر مستقل پاکستان میں قیام کا فیصلہ کیا ۔ چونکہ اس کمپنی کا دفتر پاکستان میں بھی ہے (ان کے شوہر کی ملازمت بھی اسی دفتر میں تھی)، اس لیے ملازمت چھوڑنے کے باوجود حسب ضرورت رضاکارانہ طور پر اپنے جانشین کی رہنمائی کرتی رہتی تھیں۔
تقریباً دیڑھ سال کے بعد اسی کمپنی نے انہیں پاکستان کے دفتر میں ملازمت کی پیشکش کی، چونکہ اپنی بچی کی نگہداشت کے لیے وہ ملازمت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں ، اس لئے انہیں خصوصی طور پر سوائے ضروری میٹنگ کے دفتر حاضری سے استثناء دے کر ملازمت قبول کرنے پر رضامند کیا۔وہ ہفتے میں دو یا تین دن حسب ضرورت چند گھنٹوں کے لئے دفتر جایا کرتی تھیں باقی کام گھر پر آن لائن ہی سے نمٹایا کرتی تھیں۔ یہ ہمارا ہائی بریڈ ورکنگ کا پہلا مشاہدہ تھا۔
یہ سلسلہ بمشکل دو سال ہی چل سکا پھر انہیں اور ان کے شوہر دونوں کو ترقی دیکر سنگاپور بھیج دیا گیا ۔بین الاقوامی کمپنیوں میں تبادلے کی صورت میں اگر میاں بیوی ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہوں تو فیملی کو یکجا رکھنے کے لئے کسی ایک کے تبادلے کی صورت میں اگر وہاں گنجائش ہوتو ترجیحی طور پر اس کے شوہر /بیوی کو بھی اسی شھر میں ملازمت دینے کی کوشش کرتی ہے ۔
اسوقت تک سنگاپور میں ہائی بریڈ کام کرنے کا کلچر عام نہیں تھا ۔ اس لئے بچی کو گھر چھوڑ روزانہ دفتر جانا ان کے لئے مشکل تھا کچھ عرصے بعد جب وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں تو اُنہوں نے ملازمت کو مکمل خیرباد کہنے کا فیصلہ کردیا ۔
دوسرے بچے کی ولادت کے چار سالوں کے بعد انہوں نے دوبارہ ملازمت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی ۔۔ اس وقت بعد از کورونا حالات تبدیل ہو چُکے تھے، پانچ سال کی پروفیشنل زندگی سے لیا ہوا وقفہ بھی دوبارہ ملازمت ملنے میں رُکاوٹ بن گیا، اس کے علاوہ گھر میں دوبچوں کی وجہ سے انہیں ایسی ملازمت درکار تھی جس میں زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں گذار سکیں ۔
چند ماہ کی تلاش کے بعد ایک کمپنی میں ہائی بریڈ ملازمت مل گئی جس کے تحت انہیں ہفتے کے تین دن دفتر میں اور باقی دن گھر سے کام کرنا ہوتا ہے۔کہنے کو تو تین دن دفتری حاضری لیکن درحقیقت اگر کوئی ضروری کام نہ ہو تو دو دن دفتر کی حاضری بھی بھی چلتی ہے۔ ویسے بھی ان کی بہت سی میٹنگیں یورپ و امریکہ میں زوم کے ذریعے ہوتی ہیں جو شام کو گھر سے ہی کی جاتی ہیں۔
عموما دیکھا گیا ہے کہ خواتین ہائی بریڈ یا گھر سے کام کرنا پسند کرتی ہیں اور مرد حضرات دفتر سے ۔ یہی حال وہاں بھی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اسوقت گھر میں دو بہنیں الگ الگ کمپنیوں میں ہائی بریڈ طریقے سے کام کررہی ہیں، دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ دونوں اپنے دفتری دن اس طرح تقسیم کرلیں ۔کہ دونوں میں سے کوئی بہن گھر پر ہو تاکہ بچوں کی نگرانی رکھی جاسکے ۔ اگر کسی دن دونوں ہی کو دفتری مصروفیت ہو ان میں سے کسی کے شوہر نے ہائی بریڈ موڈ سے کام کرنا ہوتا ہے۔
ریموٹ ہوں یا ہائی بریڈ ملازمتیں، درحقیقت ترقی یافتہ معاشروں جہاں معیشت، ملک و قوم کی ترقی کے لئے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے وہاں بیرون ملک سے درآمد شدہ کارکنان کی بجائے ملک کے شھریوں چاہے مرد ہوں یا عورت کو معاشی سر گرمیوں کی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
معیار بمقابلہ مقدار
بظاہر پاکستان جیسے ممالک جو اپنی تمام مردانہ آبادی کے لئے روزگار کی فراہمی میں ناکام ہے وہاں آجرین کے لئے ہائی بریڈ و ریموٹ ورکن کی عیاشی ضروری نہیں ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں بھی کثرت بے روزگاری کے باوجود معیاری و قابل افراد کار کی کمی کا مسئلہ اب بھی موجود ہے۔
اس لئے خواتین کے لئے ہائی بریڈ و ریموٹ ملازمت کے راستے کھولنے سے ایسی خواتین جو تعلیمی و پیشہ وارانہ قابلیت میں کسی سے کم نہیں لیکن گھریلو ذمہ داریوں کی بنا پر باقائدہ ملازمت کرنے سے قاصر ہیں کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔
یہ نظام بنیادی طور پران معاشروں جو جہاں شرح روزگار تقریبا سو فیصد تک پہنچ چُکی ہو، آبادی کے غیر مستعمل سرمائے (خواتین اور ریٹائیرڈ افراد) کو میدان عمل میں لانے کی ترغیب دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ یہ سہولت ترقی یافتہ ممالک کی بڑی اور بین القوامی کمپنیوں میں ہی پائی جاتی ہے ۔
62 فیصد خواتین کے بر سر روزگار ہونے کے باوجود 35 لاکھ کی مقامی آبادی والا سنگاپور تقریباً 15 لاکھ بشمول گھریلو خادماؤں ، تعمیراتی و جہاز سازی مزدوروں سے لیکر پروفیشنل ڈاکٹرز و انجینئروں اور دیگر اعلی صلاحیتوں کے حامل غیرملکی کارکنان پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس لئے بیرونی ملک کے تارکین وطن کے سیلاب کے دروازے کھولنے کی بہ نسبت اپنی افرادی قوت کے موجودہ سرمائے (خواتین) کو میدان عمل میں لانا ان کی ترجیح ہے اور مجبوری بھی ۔
اس ماڈل کی کامیابی صرف اُنہی ممالک میں ممکن ہے جہاں گھریلو صارفین کو قابل اعتماد مسلسل بجلی و انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی ہو، جو ہمارے ہاں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ نہ صرف بجلی کی فراہمی میں تعطل عام سی بات ہے بلکہ موجودہ سیاسی حالات میں انٹرنیٹ کی فراہمی کی رفتار و تسلسل پر سوالیہ نشان لگ چُکا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آن لائن یا ہائی بریڈ کام کرنے کا نظام پاکستان کے لیے موزوں ہے؟
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں مالکان کاروباری فائدے سے زیادہ کمپنی ڈسپلن کارکنان کی بروقت دفتر حاضری پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اس نظام کو ہضم کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ اس کے باوجود اگر حکومت سرپرستی و حوصلہ افزائی کرے تو اس راہ میں آگے بڑہا جاسکتا ہے۔
کام کے اوقات میں ملازمین کا زیادہ دن گھر سے کام کرنے کا فائدہ ملازمین کے دفتر و گھر آمد و رفت کا وقت و کرائے کی بچت ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ پر دباؤ میں بھی کمی آئے گی ۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی حساسیت دیکھتے ہوئے خواتین کے لئے ہائی بریڈ اور آن لائن ورکنگ یقینا یہ ایک حل ہے ،آن لائن اور فری لانسنگ پر ہماری خواتین کسی حدتک پہلے ہی کام کررہی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہائی بریڈ ورکنگ کلچر تو شروع بھی نہیں ہوا۔
پاکستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے کسی بھی ترقی کی شاہرہ پر گامزن ملک میں یہ آبادی ایک نعمت ہوتی لیکن دہائیوں سے ہمارے برسراقتدار طبقے نے اس ملک کی تعلیم و تربیت کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ایک دردناک داستان ہے۔
کروڑوں کی نیم خواندہ آبادی جن کے پاس ڈگری کے نام پر کاغذ کے ٹکڑے بھی ہوں تب بھی معیار اتنا گھٹیا ہے کہ کام اور ملازمتیں ملنا آسان نہیں رہا۔ لاکھوں بیروزگاروں کے ہجوم کے باوجود درحقیقت ہماری صنعت و تجارت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جوہر قابل کی تلاش مشکل ہوچُکی ہے ۔
ہمارا تعلیمی انحطاط ہمارے لئے ایک قومی بحران کی حدتک پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔الخدمت کا بنوقابل اور ان جیسی دوسری تنظیموں کے نوجوانوں کو ہنر کی تربیت دینے کے لئے پروگرامات درست راہ میں قدم تو ضرور ہیں لیکن بحران کی گہرائی و شدت کو دیکھتے ہوئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ہمارے تاجر و صنعتکار بھی اپنی تلاش کا دائرہ وسیع کریں اور قابل خواتین جو گھریلو ضروریات یا دیگر وجوہات پر کام کرنے کے لئے روزانہ دفتر حاضری سے قاصر ہیں کے لئے فیملی دوست ریموٹ ، ہائی بریڈ طریقے سے پیشہ وارانہ زندگی میں آنے کے راستے فراہم کریں