top header add
kohsar adart

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

تحریر : شمس رحمان

 

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں 

 

14 اگست 2022 کو والد صاحب ستاسی سال کی عمر میں یہ جہان چھوڑ گئے۔ ان دو سالوں میں سے گیارہ ماہ میں نے میرپور آزاد کشمیر میں گزارے اور اپنے آبائی قصبے اکال گڑھ میں والد صاحب کے کتنے ہی جاننے والوں اور ان کے لیے ہر دم دعائیں کرنے والوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

والد صاحب میرپور کی اس پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے مہاراجہ عہد میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی۔ ان کا سیاسی و سماجی شعور جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرے میں مسلمان رعایا کی اکثریت پر ہندو راجہ کے شخصی راج تلے پروان چڑھا۔

چڑھتی جوانی میں قومی سطح پر 1947 کے "رولے” ،  "غدر” یا "جنگ آزادی”، اور انفرادی سطح پر گھر کے اندر والدین کو ہر روز غربت سے لڑتے ہوئے دیکھنے والی اس پیڑھی کا ایک ہی خواب تھا کہ۔۔۔

  • غربت سے آزادی حاصل کی جائے۔ والدین اور
  • بہن بھائیوں کی زندگی آسان بنائی جائے۔

 

تقسیم ہندوستان کے بعد مسلم ریاست کا پاکستان سے الحاق اس پیڑھی کی اکثریت کے لیے ایک واضح راستہ اور خواب تھا۔ تاہم مہاراجہ راج اور ہندو پرجا کے مارے اور چلے جانے کے بعد بھی بدقسمتی سے غریبی کی زنجیریں جوں کی توں باقی رہیں تو والد صاحب بھی 1960 کے اوائل میں ان سینکڑوں جوانوں کی طرح ولایت آن بسے جو اپنے گھرانوں کی غریبی دور کرنے کے لیے انجان دیس میں محنت و مشقت کرنے آئے تھے۔

آخری دم تک والد صاحب اپنے علاقے اور اپنے ہم عمروں کی اس اکثریت میں شامل رہے جنہوں نے نہ صرف اپنے گھر اور خاندان بلکہ علاقے بھر میں مختلف طریقوں سے لوگوں کے دکھوں، مسائل اور مشکلات میں کمی اور سکھ میں اضافے کے لیے بساط بھر حصہ ڈالا۔

میں، اور میری پیڑھی، اس پیڑھی کے احسانات کا بدلہ کبھی بھی نہیں چکا سکتی۔

اللہ کولوں آئے ہاں تے اللہ کول ہی جاساں۔ دعائے فاتحہ!

شمس رحمان، برطانیہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More