جو گزرگئی…سو گزرگئی
جو گزرگئی…سو گزرگئی
وہ اسدؔ ہے، اسی لیے وہ ’اصل‘ بھی ہے۔ وہ سلیمؔ ہے تو ساتھ ہی حلیم بھی ہے اور علیم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابتداء سے ہی ’’بزرگ‘‘ یعنی شیخ ٹھہرا۔ نحیف سا جسم جثہ، ناٹا بلکہ درمیانہ سا قد لد، نیم لمبوترا چہرہ، روشن آنکھیں، گھنی مونچھیں، بال ماتھے کی حد حدود بڑھائے، سر کی سرحد کو کم کرتے پیچھے اور پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔ صاف پہناوا، شستہ گفتگو، نفیس شخصیت لیے پنڈی بھٹیاں کا وہ وسنیک اپنے ’پنڈ‘ میں وہ ’پنڈ‘ بٹا، کھڑا بیٹھا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے چھتنار شجر بن گیا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ’’Son of the soil‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سدا اپنی ماں مٹی، اپنی جنم بھومی اور اپنی ریت روایت کے مطابق اور ان سب کے لیے سوچا لکھا۔ وہ تحقیقی مزاج کا زود نویس مگر رسیلا لکھاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جہاں ’نصابی‘ علم کو قلم کی بنیاد بنایا وہاں اکتسابی فیض سے بھی فیض یاب ہوا۔
اگر ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی پہلی تصنیف ’’افغان مہاجرین…ایک جائزہ‘‘ ہے، ان کی دوسری اور اہم تصنیف ’’رسواللہؐ کی خارجہ پالیسی‘‘ ہے۔ جس کے بعد ’’پاکستان جمہوریت اور انتخابات‘‘ اور ’’اسلامک ورلڈ آرڈر‘‘ کی باری آتی ہے۔ اب ’’انسائیکلوپیڈیا تحریک پاکستان‘‘ ہے جو موضوعاتی لحاظ سے ایک منفرد کام ہے۔ میری ذاتی رائے میں متذکرہ بالا تحقیقی و تخلیقی عمل اسدسلیم شیخ کے نصابی کتابی علم کی دین ہے جبکہ جب بات ’’دلے دی بار‘‘ سے شروع ہو تو پھر ان کا وہ ’’پینڈا‘‘ شروع ہوتا ہے جو اکتسابی بھی ہے اور وہبی بھی۔ سچ پوچھیے تو ’’پنجاب‘‘ اپنی تمام پرتوں سمیت اسد سلیم کی ذات اور روح کی وہ بنیادی اکائی ہے جس کے بغیر ان کی تکمیل ممکن ہے اور نہ ہی تعبیر۔ ’’پنجاب فہمی‘‘ کے حوالے سے وہ ’بلند آہنگ‘ تو نہیں ہیں لیکن دھیمے سروں وہ پورے تواتر اور دلجمعی سے اس کا ریاض کرتے رہے ہیں اور اس کے ’راز‘ کھوجتے اجالتے چلے جاتے ہیں۔ ’دلابھئی‘ پنجاب کی تاریخ کا ناقابل فراموش کردار ہے۔ اس کے حوالے سے ’دلے دی بار‘ ایک اہم دستاویز ہے، جو ہمیشہ اہل علم کے لیے رہبر اور معاون ہو گی۔ آگے بڑھیں تو ’’تاریخ کا پہلا پنجابی وزیراعظم (نواب سعداللہ خان)‘‘ اور پھر ’’عہد مغلیہ کا پنج آب‘‘ جیسے نادر پڑاؤ آتے ہیں۔ اسی طرح ’’نگر نگر پنجاب‘‘، ’’حاکمان پنجاب‘‘، ’’وسیب‘‘، ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ اور ’’پنجاب کا علمی و ادبی ورثہ‘‘ کو سامنے رکھا جائے تو ’’پت پنجاب‘‘ کی ’’ماں پنجاب‘‘ سے محبت کا سنہری باب کھل جاتا ہے۔ اسد سلیم شیخ جہاں ’’ہماری دستوری تاریخ‘‘ لکھی وہاں اچھوتے موضوع کی حامل ’شجر کہانی‘ بھی کہی۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے ’’گھوم لیا پاکستان‘‘ اور ’’کچھ سفر بھولتے نہیں‘‘ جیسے مشہور سفرنامے بھی لکھے۔ ویسے سچ یہ ہے کہ اسد سلیم ہمہ وقت ذہنی اور جسمانی سفر میں رہتے ہیں۔ یوں وہ قدم قدم کریدتے کھوجتے جاتے ہیں اور علم، ذوق اور پسند کے سنگریزے چنتے ان سے دیدہ زیب ’محل‘ بناتے چلے جا رہے ہیں۔ یقین ہے کہ ان کی سوچ اور کھوج کا یہ سفر تازیست جاری رہے گا۔ اسد سلیم شیخ نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور صد شکر ان کی زیست سے ان کا تنوع بھرا برتاؤ پورے حسن سلوک کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔
اسد سلیم شیخ نے اپنی تن من بیتی ’’جو گزر گئی…سو گزر گئی‘‘ کے عنوان تلے پوری نفاست و صداقت سے یوں لکھی ہے کہ خاصے کی چیز بن گئی ہے۔ فکشن ہاؤس کے زیر انصرام شائع ہونے والی اس ’’آپ بیتی‘ کے متعلق اگر فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں کہ ’’جو گزر گئی…سو گزر گئی‘‘ پروفیسر اسد سلیم شیخ کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ ایک زمانے کی داستان ہے۔ وہ زمانہ جو ان کی پیدائش سے آج تک کا ہے۔ ان ماہ و سال میں سماج کن تغیرات سے گزرا انہیں جاننے کے لیے یہ کتاب دلچسپ ہی نہیں انتہائی معلومات افزاء بھی ہے‘‘۔ تو بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ 376 صفحات پر مشتمل یہ سوانحی تخلیق جو چھوٹے بڑے پندرہ ابواب پر محیط ہے، جہاں اسد سلیم کی ذاتی و خاندانی زندگی کا احوال بتاتی ہے، وہاں ان کے وسیب کی تاریخ، ماحول، ریت، روایت اور طرزِ زیست کو بھی یوں سامنے لاتی ہے کہ قاری سوادلے موڈ کے ساتھ کھُبا ڈوبا آگے آگے چلتا جاتا ہے۔ ابتداًء ’’کہانی اپنے آباء کی‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں وہ کسی قدر تفصیل سے اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہیں تو ساتھ ہی پنڈی بھٹیاں کی تاریخ کے ورق بھی الٹتے چلے جاتے ہیں۔ اب ’’ہمارا جنم اور خاندان‘‘ ہے پھر ’’بچپن کی دھندلی سی یادیں‘‘ ہیں۔ ان یادوں کو پڑھتے دیکھتے مجھے یوں لگا کہ میں اپنے بچپن میں جا پہنچا ہوں۔ ویسے فاصلاتی، لسانی اور تہذیبی بعد کے باوجود ’’بچپنا‘‘ ہر کہیں تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ’’بچپن میں کیا کھیلا…کیا دیکھا‘‘ کی دلچسپیاں سمیٹے آگے بڑھیں تو انسان ’’وہ جو سب قصہ پارینہ ہو گیا‘‘ تک جا پہنچتا ہے۔ اس میں مصنف کے لڑکپن اور اس عہد سے متعلق دلچسپ معلومات ہیں۔ اب ’’اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور‘‘ کے دو سال ہیں۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور کی کشش کا قصہ ہے۔ اگلی منزل ’’پنجاب یونیورسٹی‘‘ ہے۔ اب ’’گھوم لیا پاکستان‘‘ ہے۔ اس سفر کی مختصر روداد ہے جو ازاں بعد ان کے معروف سفرنامے کی صورت سامنے آئی۔ دسواں باب ’’نئی روش‘‘ ہے جو ملکوال کالج میں تعیناتی اور اس سے جڑے ماحول و حالات کا خوبصورت بیان ہے۔ ملکوال کا احوال پڑھتے ہوئے جانے کیوں مجھے معروف شاعر اور ٹی وی پروڈیوسر عباسی نجمی مرحوم یاد آئے کہ اُنہوں نے ایک بار راولاکوٹ میں شاید ہمیں ’’ماکوال‘‘ جان کر ’’ملکوال‘‘ کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا تھا۔ اب اسد سلیم شیخ ’’چنیوٹ‘‘ آ گئے جو ان کا ’’بغلی قصبہ‘‘ اور ’’ننھیالی پنڈ‘‘ تھا۔
’’نیا کالج نئی ذمہ داریاں‘‘… یہ باب اس کتاب اور صاحب کتاب کی زندگی کا شاید سب سے اہم، فعال اور خصوصیت بھرا عہد ہے۔ اسد سلیم شیخ نے اپنے علاقے اور یہاں کے ادارے سے ٹوٹ کر محبت کی ہے۔ اس محبت کا ایک بیان ’’شجر کہانی‘‘کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ تیرہواں باب ’’کشمیر‘‘ سے اسد سلیم شیخ کی محبت کا خوبصورت اظہاریہ ہے۔ اسدؔ کشمیر کے قدرتی حسن کے دلدادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی موقع ملے، کشمیر یاترا کو آتے ہیں۔ کشمیر سے ان کی نفاست بھری محبت ان کی خوبصورت شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ اگلے باب میں ملازمت سے سبکدوشی اور اس عہد سے جڑے معاملات کی کتھا ہے اور پھر پندرویں منزل آتی ہے جو دکھ اور خوشی، ناامیدی اور امید کی ایک قوس قزح ہے۔
اسد سلیم شیخ، بنیادی طور پر ایک ادیب ہیں، یہی وجہ ہے۔ ادب و قلم، ان کی زندگی کا لازمہ رہا ہے۔ ان کی سوانح کا ورق ان کی ادبی سرگرمیوں، دلچسپیوں اور حاصلات سے مزین ہے۔ اسد سلیم ایک مرتب شخصیت ہیں، اسی لیے ان کی زندگی اور ادبی حیات بھی سلیقے کے ساتھ آگے بڑھتی رہی ہے۔ ان کی رفیقہ حیات، قدم قدم ان کی معاون ہیں۔ وہ قابل لحاظ فلاحی کام مسلسل سرانجام دے رہی ہیں۔ یوں ذہنی مناسبت اور مطابقت نے ایک اکیلا کے بجائے ایک ایک گیارہ کی صورت پیدا کی اور ہر حال میں ان کے لئے مفید رہی ہے۔
زیر نظر کتاب کو تفصیل سے دیکھا جائے تو یہ بھی اسد سلیم کی طرح تہذیب و شائستگی سے مملو بہترین نثر پارہ ہے۔ کتاب کی ترتیب عمدہ ہے تو اختصار نے جامعیت کا وہ جامہ اوڑھا ہے جو قطرے میں دجلہ دکھانے کی خوبصورت اور کامیاب کاوش کہلا سکتی ہے۔ اسد سلیم شیخ نے غیر ضروری تفاصیل کے بجائے ضروری معلومات کو اتنے سلیقے سے باہم جوڑا ہے کہ ٹکڑوں میں بٹی زندگی اور معاشرہ ایک وحدت کی صورت نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اسد سلیم شیخ، ایک کہنہ مشق قلمکار اور ادیب ہیں، ان کی فنی مہارت اس تخلیق میں اپنے پورے عروج پر ہے۔ اُنہوں نے کم میں زیادہ کہا، دکھایا اور تسلسل کو کہیں بھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ پروفیسر اسد سلیم شیخ کی زبان رواں، شستہ اور دلچسپ ہے۔ اُنہوں نے پوری تخلیق کو کہیں بھی علمی و ادبی بوجھل پن کا شکار نہیں ہونے دیا، بلکہ اسے سلاست اور روانی کی راہ پر رکھا ہے۔ اسد سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی اوّلاً چار ’ک‘ کے چوکٹھے میں بند رہی۔ یہ ’ک‘ کتاب، کالج، کلرکہار اور کشمیر ہیں۔ ابن کشمیر ہونے کے ناطے کشمیر سے ان کے ربط و محبت کے لیے میں سراپا سپاس گزار ہوں کہ ان کی یہ محبت ہم اہل کشمیر کے لیے اثاثہ بھی ہے اور اعزاز بھی۔ اُنہوں نے اس تخلیق کا جہاں ایک پورا باب ’’کشمیر‘‘ سے متعلق لکھا، وہاں جستہ جستہ بھی کشمیر کا تذکرہ محبت و اپنائیت سے یوں کیا ہے کہ ان پر بے ساختہ ’’پیار‘‘ آ جاتا ہے۔ چار ’ک‘ رہے اپنی جگہ اللہ نے ان کو پانچواں ’ک‘ بھی دیا کہ مربع کے بجائے مخمس بن جائے۔ شومئی قسمت کہ اسد سلیم شیخ کو کچھ عرصہ قبل ’’کینسر‘‘ کا موذی مرض لاحق ہوا لیکن قدرت کے کرم اور اپنے حوصلے سے اُنہوں نے اسے شکست دی اور یوں مخمس سے بخیر باہر نکل آئے۔
اختصار سے کہا جا سکتا ہے اور پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر اسد سلیم شیخ کی ’’جو گزر گئی…سو گزر گئی‘‘ ایک ایسی شیریں، دلچسپ اور متنوع ذائقے کی ’’چیز‘‘ ہے جو جہاں ان کی ذات و حیات کی تمام جہات کا بیان ہے وہاں وہ پنڈی بھٹیاں، چنیوٹ، ملکوال اور دیگر متعلقہ علاقوں کا بھی قابل لحاظ تعارف و تذکرہ ہے۔
میرا ایقان ہے کہ سوانحی ادب میں اسد سلیم شیخ کی یہ کاوش ایک بلند رتبے کی حامل ٹھہرے گی کہ اس میں اتنی ’’جان‘‘ ہے کہ وہ اپنے ہونے کو اعتبار سے ثابت کرے گی۔ انشاء اللہ
ڈاکٹر محمد صغیر خان (راولاکوٹ)