جندر …..محمد نعیم خان
ہمارے گاؤں میں دو جندر تھے۔ ایک ہمارے گھر کے قریب تھا۔ جو جندر ہمارے گھر کے قریب تھا وہاں ہماری تایا زاد بہن رہتی تھیں۔ ان کے میاں بھی ہمارے قریبی رشتہ دار ہی تھے ۔ سردار اسلم (مرحوم) انھوں نے علاقائی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک ہٹی (دکان) کھولی ہوئی تھی۔ دوسری خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے منج (بھینس) رکھی ہوئی تھی۔ پہاڑی علاقے میں ایک بھینس پالنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی۔ دکان اور تایا زاد بہن کے گھر سے دودھ لانے کے لیے میں یہاں اکثر چکر لگاتا رہتا تھا۔
یہاں ہمارے رشتہ داروں کے علاوہ علاقے میں گھروں کی تعمیر کرنے والے معماروں کا پورا محلہ آباد تھا۔ اس جندر کی وجہ سے اس پورے محلے کا نام ہی جندر پڑ گیا تھا۔ جندر کو چلانے کے لیے اس کے مالک نے کافی دور سمندر کٹھہ سے ایک نالہ نکالا ہوا تھا۔ جو سمندر کھٹہ کے ساتھ ساتھ تھوڑا بلندی پر جندر تک جاتا تھا۔ اس نالے کی وجہ سے ایک پتلی سے پکڈنڈی جیسا رستہ بھی بن گیا تھا۔ سمندر کٹھہ (ایک پہاڑی نالے کا نام) میں بارش کی وجہ سے جب پانی کا بہاؤ زیادہ ہو جاتا تو میں جندر کے اس نالے والے رستے پر چلتے ہوئے تایا زاد بہن کے گھر تک چلا جاتا تھا۔
جب پانی سمندر کٹھہ میں ہلکا ہوتا تو اس صاف اور شفاف پانی کے اندر کئی سو میٹر تک چلتا رہتا ، پلاسٹک کی چپل سے پانی کے چھپاکے اڑاتا، ایک ہاتھ میں دودھ کی بالٹی اور دوسرے ہاتھ سے اپنی شلوار کے پائنچے سنبھال کر اپنی دنیا میں مگن چلتا رہتا۔ اس جندر سے میں مکئی وغیرہ پسوانے کے لیے کوئی ایک دو بار ہی گیا ہوں گا۔ لیکن جندر کے ساتھ بنے نالے پر چلنے کا جو لطف تھا۔ وہ اب بھی یادوں میں کہیں چھپا بیٹھا ہے۔ ہمارے گاؤں سے آگے مکول بالا کے قریب ایک اور جندر تھا۔ ارے ہاں یاد آیا ۔ یہ تو بتانا ہی بھول گیا کہ جندر کیا ہوتا ہے۔ جندر سمجھیں ایک طرح کی پانی سے چلنے والی چکی ہوتی ہے ۔
تو میں بتا رہا تھا کہ دوسرا جندر ہمارے گاؤں سے تھوڑا دور تھا۔ اگر کسی کو وہاں دانے پسوانے کے لیے جانا ہوتا تو فجر کی نماز پڑ کر چل پڑتا تاکہ بروقت جندر پر پہنچ جائیں اور پسائی کی باری بھی جلدی لگ جائے۔ مجھے وہاں جانے کا شوق تھا۔ کیوں کہ اس جندر کی ایک خاص وجہ شہرت تھی۔ وہ جندر تین ایسے بھائی چلاتے تھے جو بڑی عمر کے ہونے کے باوجود بالکل بچوں کے قد والے تھے۔ تو ایسے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لوگ دیکھنے بڑے شوق سے آتے جو طاقت ور بھی تھے اور ان کی داڑھیاں بھی تھیں اور بڑی پھرتی سے جندر کا کام کرتے تھے۔ وہاں ایک چیز اور بھی دیکھنے کی تھی۔ گاؤں جہاں لوگ محدود سوچ اور مروجہ روایتی طور طریقوں کے مطابق ہی چل رہے ہوتے ہیں ۔ ان بھائیوں نے جندر کے آگے پانی کے پریشر کے سامنے ایک ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کی ہوئی تھی۔ ایک ایسی جگہ جو انسانی آبادی سے دور ہو۔ وہاں یوں بجلی کے ننھے ننھے ٹمٹماتے بلب بڑے اچھے لگتے تھے ۔
ایک دن صبح صبح پتہ چلا کہ ہماری ایک پڑوسن خالہ مکئی کے دانوں کی چھوٹی سی بوری سر پر رکھے اس دور والے جندر جا رہی ہیں ۔ مُجھے جیسے ہی پتہ چلا میں نے بھی ماں جی سے اصرار کیا اور ان کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے تقریباً پندرہ یا بیس کلو دانے اٹھا لیے۔ رستے میں گھول پتھروں اور گیلی چٹانوں پر گرتا پھسلتا اور اوپر سے اپنے بوجھ کو سنبھالتے ہوئے ہمارا قافلہ ڈیڑھ دو گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا۔ میں پہلی بار اس رستے پر گیا تھا۔ تو رستے کے سارے مناظر اور گھنے درختوں میں گھرا وہ جندر مجھے پڑا اچھا لگا۔ میں کبھی کام کرتے ان چھوٹے قد کے بھائیوں کو دیکھتا، ان کے ننھے ہاتھوں کی ہھرتی کا مشاہدہ کرتا اور کبھی ایک بڑے سے سوراخ اور تھال نما جگہ سے دانے سرک کر چکی میں گرتے دیکھتا۔ کبھی جندر کے نیچے سے تیز سے نکلتے پانی کی دھار کو دیکھتا۔ ہماری باری آتے آتے ظہر کا وقت ہو گیا۔ ہماری پڑوسن خالہ کے علاوہ غالباً ہمارے دو پڑوسی وقاص اور رفاقت بھی ساتھ تھے۔ وقاص مجھے سے تھوڑے چھوٹے اور رفاقت مجھے سے سال دو سال بڑے ہوں گے۔ ان کے علاوہ محلے کی شاید ایک اور لڑکی بھی ہمارے ساتھ آئی تھی۔
جب دن ڈھلنے لگا تو بھوک ستانے لگی ، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہاں اتنی دیر ہو جائے گی ۔ وہاں قریب ایک گھر تھا اسی جندر والی فیملی کا مگر شاید ان لوگوں کے پاس اتنے افراد کو دینے کے لیے اضافی کھانا نہ تھا۔ اس صورتحال میں ہمیں ساتھ لے جانے والی ہماری پڑوسن نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پسے ہوئے آٹے میں سے پانچ چھ روٹیوں کا آٹا لیا اور اسے گوندھ کر پڑوس کے اس گھر لے گئیں اور ان کے تندور پر روٹیاں لگا کر اپنی چادر کے پلو میں باندھ کر لے آئیں۔ اور آتے وقت ان کے گھر سے تھوڑا نمک اور پسی لال مرچ بھی مانگ لائیں۔ پھر انھوں نے چندر کے قریب اگا ہوا جنگلی سفید پودینہ چنا، ایک ہموار پتھر کو صاف کیا اور اس پر تھوڑا پانی چھڑک کر ایک دوسرے گول پتھر سے اس کی چٹنی بنانے لگیں۔ ہمارے گاؤں میں پھتر اسی ساخت کے ہوتے ہیں جیسے شہروں میں سل بٹے استعمال ہوتے ہیں ۔ چٹنی بننے کے بعد انھوں نے ہم سب کو اسی پتھر پر بٹھایا اور کوئی پلیٹ وغیرہ تو تھی نہیں ، وہی بڑی چٹان ہمارا ڈائننگ ٹیبل بن گئی اور ہم نے اس چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھانا شروع کر دی ۔
یہ تقریباً کوئی پچیس سال پرانی بات ہے۔ لیکن نجانے اس وقت بھوک کی شدت تھی، تازہ آٹے کی پکی گرما گرم روٹی کا اعجاز تھا یا ہماری مرحومہ پڑوسن کے ہاتھوں کی تاثیر ، اس وقت وہ سادہ سا کھانا انتہائی لذیذ لگا۔ دہائیاں گزر جانے کے باوجود میں آج تک اس کی لذت کو بھول نہیں سکا۔ خیر جب ہمارا آٹا تیار ہو گیا تو ہم واپس گھروں کی طرف چل دیئے ۔ ہمارے گھر سے تھوڑا آگے ایک محلہ ہے ٹنڈی اور اس سے آگے ایک تنگ سی جگہ ہے جسے سڑیال کہتے ہیں ۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ماں جی آگے سے ہماری طرف آ رہی ہیں ۔ ان کے قریب پہنچے، آٹے کی بوری کندے سے اتاری تو فورا کندھے پر چادر رکھ دی۔ میں نے پوچھا یہ کیوں؟ تو کہا تازہ پسا ہوا آٹا گرم ہوتا ہے اور چلنے کی وجہ سے بھی جسم گرم ہے۔ ایک دم ٹھنڈی ہوا لگے گی تو بیمار ہو جاؤ گے۔ ماں جی کو فکر تھی کہ ہم لوگ کھانا ساتھ نہیں لے کر گئے ہوئے تو وہ ہمارے لیے ابلے ہوئے انڈے ، بکسٹ اور چائے کا تھرماس لے کر آئی ہوئیں تھیں۔
واپسی پر کچھ رستے وہ مجھے سے آٹا لے لیتیں اور جب میری تھکن کم ہوتی میں دوبارہ اٹھا لیتا۔ یوں یہ یاد گار دن خریت سے گزرا۔ آپ سوچیں گے کہ اتنی پرانی کہانی آج کیوں لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔ تو بات یہ ہے کہ کراچی کی جس سوسائٹی میں ، میں رہتا ہوں وہاں کی ایک مارکیٹ میں بجلی سے چلنے والی آٹا چکی بھی ہے۔ کبھی وہاں سے گزتے ہوئے اگر گندم پس رہی ہوتی ہے۔ تو اس پسائی کی خوشبو مجھے پچیس سال پہلے کے اس جندر پر لے جاتی ہے۔ جہاں مکئی کے دانے دیسی طریقے سے پسنے سے پیدا ہونے والی خوشبو میری ذات کا حصہ بن گئی ہے۔ کیا آپ نے کبھی کوئی ایسی پانی سے چلنے والی چکی دیکھی ہے یا آپ کو بھی چکی سے آنے والی خوشبو اپیل کرتی ہے؟
یادوں کے جھروکوں سے
محمد نعیم
5 مئی 2024