top header add
kohsar adart

تعلیم، نظام تعلیم اور کامیابی


ہم جب مقصد تعلیم اور معیار تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ہمارا اس بارے میں تصور (کنسپٹ) واضح نہیں ہوتا۔

آپ کسی بھی گروپ میں اس پر مکالمہ کر کے تجربہ کر سکتے ہیں۔

تعلیم کا مقصد کیا ہے؟
معیار تعلیم کی کسوٹی کیا ہے؟

بنیادی طور پر تعلیم پر کام کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نئی نسل کی شخصیت سازی کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا ہی ہے؟

تو پھر آپ کے سامنے بنیادی سوال یہ آئے گا کہ اگر کردار رویوں سے بنتا ہے تو رویوں کی تشکیل میں کون کون سے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں؟

گھر کا ماحول، معاشرتی ماحول، قریب کے لوگ
پھر تعلیمی نظام۔ ہمارا (گریڈز اور نمبرز والا) تعلیمی نظام خود غرضی کی تعلیم دیتا ہے۔ "میں” (فقط میں) سب سے آگے نکل جاؤں چاہے مجھے اس کے لیے کسی دوسرے کی گردن پر پاؤں ہی کیوں نہ رکھنا پڑے۔ میں کامیاب ہو جاؤں۔ میں پہلی پوزیشن لے لوں۔۔ یہ "ہم سب” کامیاب ہو جائیں کی تعلیم نہیں دیتا۔

بچپن کے دنوں کے بچوں کے ذاتی تجربات بہت اہم ہوتے ہیں۔ جن بچوں کو گھر میں توجہ ، پیار اور اہمیت نہ مل سکیں ان میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑے ہو کر اپنی اس محرومی کو چھپانے کے لیے عجیب و غریب حلیہ بنا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی منفی سرگرمیاں اختیار کرلیتے ہیں اور کچھ غیر اخلاقی گروہوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

غیر شعوری طور پر ہماری ثقافتی رسومات، رہن سہن اور معاشرتی تعلقات بھی بچوں کے رویوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر کسی جگہ لائبریری ہو، کوئی کمیونٹی ہال ہو جہاں علمی ادبی تقاریب ہوں، ڈیبیٹنگ سوسائٹی ہو، بچوں کے لیے غیر نصابی سرگرمیاں ہوں، کھیلوں کے مقابلے ہوں تو اس علاقے کے بچے دیگر علاقوں کے ہم عمر بچوں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ ایسے بچے جوں جوں عمر کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے ہیں وہ عرفان ذات اور عرفان کائنات کے حصول کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن ایک نکتے پر توجہ مرکوز رکھیے گا کہ رویہ اور کردار سازی کوئی ایک بار کرنے کا کام نہیں ہے۔ انسان جوں جوں زیادہ مطالعہ کرتا ہے، تفکر و تدبر سے کام لیتا ہے، تجربات حاصل کرتا ہے تو اس کے رویوں اور نتیجتا کردار میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے۔

اپنے معاشرے کے مجموعی رویوں کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔ پھر اس تجزیے کا مرحلہ آتا ہے کہ مثبت رویے کون کون سے اور منفی رویے کون کون سے۔ اور یہ بھی کہ کیا مثبت رویے تعداد میں زیادہ ہیں یا منفی رویے۔

مجموعی معاشرتی رویوں میں بہتری کے لیے بچوں پر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بالغاں بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں والدین، اساتذہ اور معاشرے کے عام لوگ باہم مل کر سنجیدہ عملی کوششیں کر کے ہی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

تربیت بالغاں کا مرکز اگر مسجد کو بنایا جائے اور علماء اور خطباء کے ساتھ مل کر باقاعدہ منظم جدوجہد کی جائے تو مجموعی معاشرتی رویوں کی بہتری میں انقلاب آ سکتا ہے۔

نظام تعلیم کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ مقصد تعلیم فقط اچھی ملازمت کا حصول نہیں ہے۔ گریڈز اور نمبرز قابلیت کی کسوٹی اور معیار نہیں ہیں۔ کم نمبر لینے والے بچے اول آنے والے بچوں سے زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کے میلانات اور رجحانات کا کھوج لگائے بغیر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہیں گے تو ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار کیسے آئے گا ؟

ہر بچہ انفرادیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا کسی دوسرے بھائی بہن یا بچے سے موازنہ نہ کریں۔ نمبر کم آئیں تب بھی شاباش دیں۔ حوصلہ افزائی کریں۔

کامیابی کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا مالی آسودگی کا حصول ہی کامیابی ہے؟ خوشی اور اطمینان قلب کامیابی نہیں ہے؟ دوسروں کی خدمت کامیابی نہیں ہے؟ آسانیاں بانٹنے کی توفیق کا مل جانا کامیابی نہیں ہے؟


راشد عباسی ۔۔۔ ملکوٹ، ہزارہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More