top header add
kohsar adart

بھیگی چارپائی،اکڑے سُوکھے رشتے

تحریر ۔ ستونت کور

ہمارے بچپن کے موسمِ برسات میں راتوں رات بھگڈر سی مچ جاتی تھی کہ جب صحن میں سوتے وقت رات کے کسی پہر بارانِ رحمت کا نزول ہو جاتا ۔
” مِینھ آگیا کے ، منجیاں اندر کر لو ” کے نعرے کے ساتھ پورا خاندان 2 ٹیموں میں تقسیم ہو جاتا ۔۔۔ نصف کا کام بسترے لپیٹ کر اندر پہنچانا جبکہ دیگر نصف کا کام سراندی، پواندی چارپائیاں پکڑ کر اندر منتقل کرنا ہوتا تھا ۔
لیکن۔۔۔
کئی مرتبہ ایسے بھی ہو جاتا تھا کہ کوئی ایکسٹرا چارپائی صحن میں ہی رہ جاتی تھی ۔
عام طور پر ایسا تب ہوتا کہ جب بارش کے آثار دیکھ کر اس رات چارپائیاں باہر نکالی ہی نہ گئی ہوتیں اور ایک آدھ چارپائی، جس پر بیٹھ کر شام کے وقت خواتین سبزی کاٹ رہی تھیں وہ اتفاق سے باہر ہی رہ گئی ہوتی ۔
تو صبح پتا چلتا کہ وہ چارپائی بارش میں بھیگ کے اکڑ گئی ہے اور ایک سمت سے اونچی ہوچکی ہے ۔۔۔ اسے اگر دبا کر بٹھایا جاتا تو وہ دوسری سمت سے اونچی ہو جاتی تھی۔
چنانچہ پھر گلی سے سارے بچوں کو بلوا کر چارپائی پر دونوں سمت بٹھایا اور کُدوایا جاتا تاکہ اس کی اکڑن ختم ہو اور اس کا بلند حصہ دب کر برابر ہو جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے آج کے دور میں بہت سے رشتے ناطے بھی برسات میں بھیگی چارپائی کی مانند ہوتے ہیں۔
ان کی نہ ختم ہونے والی اکڑ ۔
ایک کو راضی کرو تو دوسرا ناراض دوسرے کو راضی کرو تو پہلا خفا۔
گویا چارپائی کے ایک سمت کو دبانے سے دوسرے کا بلند ہو جانا دوسرے حصے کو دبانے سے پہلا حصہ بلند ہو جانا ۔
رشتے داریاں نبھاتا نبھاتا انسان خود برسات میں بھیگی چارپائی کی طرح ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے ۔
نجانے لوگ کیوں بھول جاتے ہیں ۔۔۔ کہ جو چارپائی کسی طور بھی سیدھی نہ ہورہی ہوتی تھی ۔۔۔ اسے توڑ کر چولہے کے لیے ایندھن بنا لیا جاتا تھا۔**

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More