top header add
kohsar adart

بحریہ ٹاؤن دیوالیہ ہونے لگا؟ دھماکہ خیز خبر آگئی

کوہسار نیوز (خصوصی رپورٹ) پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے سب سے بڑے رہائشی منصوبے بحریہ ٹاؤن کراچی کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

باخبر ذرائع نے "کوہسار نیوز”کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض آئندہ چند روز میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے دیوالیہ ہونے کا باقاعدہ اعلان کر سکتے ہیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کو دیوالیہ قرار دیے جانے کے پیچھے ایک کہانی ہے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کراچی میں بڑے پیمانے پر ہونے والے گھپلوں کے بعد ملک ریاض کو 460 ارب روپے کا بھاری جرمانہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے پیچھے برطانوی تحقیقاتی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی کی طویل تحقیقات تھی جس میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ ملک ریاض نے پاکستان سے اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ بھیج کر وہاں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی تھی۔ جرم ثابت ہونے پر برطانوی عدالت نے یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا اور یہ طے پایا کہ یہ رقم ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کو کئے گئے جرمانے کی مد میں جمع کرائیں گے تاہم ملک ریاض نے اس مد میں محض چند ارب روپے جمع کرانے کے بعد مزید رقم دینے سے انکار کر دیا اور اس حوالے سے عدالت میں ایک درخواست جمع کرا دی ۔جس میں جرمانہ دینے سے معذوری ظاہر کی گئی ہے۔

دوسری طرف جب تحقیقاتی اداروں اور طاقتور حلقوں کی جانب سے ملک ریاض پر دباؤ بڑھا اور تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا تو انہوں نے عدالت میں رقم جمع کرانے کے بجائے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ہاتھ پیر چلانے شروع کر دیے۔
جب مقتدر حکام سے ان کے رابطے ناکام ہو گئے تو انہوں نے دبئی میں مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے مدد طلب کی جن کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ آئندہ اقتدار میں آنے والے ہیں تاہم میاں نواز شریف نے بھی ملک ریاض کی مدد سے معذوری ظاہر کر دی۔

دیوالیہ ہونے کا خدشہ کیوں ؟

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں پراپرٹی سمیت کاروبار کی مجموعی صورت حال خراب ہے جس کا اثر تمام منصوبوں پر پڑ رہا ہے تاہم بحریہ ٹاؤن کے معاملے میں یہ صورت حال مختلف ہے۔بحریہ ٹاؤن کو پراپرٹی کی دنیا میں ٹرینڈ سیٹر سمجھا جاتا ہے اور پراپرٹی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے حوالے سے زیادہ تر اجارہ داری بحریہ ٹاؤن کے پاس ہے۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن میں پلاٹس کی قیمتیں غیر معمولی حد تک گر گئی ہیں جس کے پیچھے خود بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کا ہاتھ ہے، بالکل اسی طرح ،جس طرح بحریہ ٹاؤن انتظامیہ اور اس کے ایجنٹ پلاٹس کی قیمتیں مصنوعی طور پر تین تین چار چار گنا بڑھا کر شہریوں کی جیبوں سے رقم نکال لیتے ہیں۔
اس وقت ان کے مفاد میں ہے کہ پلاٹ کی قیمتیں نچلی سے نچلی ترین سطح پر آ جائیں تاکہ اس حساب سے ویلیویشن کرا کر یہ ظاہر کیا جائے کہ بحریہ ٹاؤن شدید خسارے کا شکار ہے اور اس سے 460 ارب روپے کی رقم بطور جرمانہ وصول کرنا سراسر نا انصافی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے زیادہ تر حصوں میں اس وقت پانچ مرحلے یعنی 125 گز کے پلاٹ کی قیمت 20 سے 30 لاکھ کے درمیان آ چکی ہے جبکہ ڈھائی سو گز یا 10 مرلے پلاٹ کی قیمت 50 سے 70 لاکھ روپے تک گر گئی ہے۔اس صورت حال نے جمع پونجی لگا کر قسطوں میں پلاٹ حاصل کرنے والے خریداروں اور سرمایہ کاروں کو شدید پریشانی اور اذیت سے دوچار کر دیا ہے۔تاہم بعض ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آگے چل کر بحریہ ٹاؤن کے قانونی اور عدالتی معاملات درست نہ ہونے کی صورت میں اسے ڈی ایچ اے ٹیک اوور کر سکتا ہے۔ایسی صورت میں پلاٹس کی قیمتیں ایک بار پھر اوپر چلی جائیں گی۔

ملک ریاض میڈیا ٹائی کون بھی بننے والے ہیں ؟

فائلوں کو پہے لگا کر پراپرٹی کی دنیا میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کرنے والے کاروباری جادوگر ملک ریاض نے اس مشکل اور پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کے لیے پراپرٹی ٹائیکون کے بعد میڈیا ٹائیکون بننے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک ریاض نے اس سے پہلے پاکستانی میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں کر رکھا تھا جہاں مالکان سے لے کر اینکرز اور کالم نگار تک ان کی مٹھی میں تھے کیونکہ جس طرح ملک ریاض صحافیوں اور فیصلہ ساز قوتوں کی مٹھی گرم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ملک ریاض کے جائز ناجائز کاموں کو پہیہ لگنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہوں نے جہاں تمام سرکاری اداروں کے اہم لوگوں کو اپنے مالی وسائل کے ذریعے غلام بنا رکھا تھا، وہیں کئی اعلی ریٹائرڈ فوجی افسران بھی ملازمت ختم ہوتے ہی ان کے ملازم بن جایا کرتے تھے۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا ہے اور نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ڈنڈا دیگر غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ساتھ ساتھ بحریہ ٹاؤن پر بھی چل گیا ہے ۔اس وقت بحریہ ٹاؤن پشاور کے خلاف پہلے ہی ایف آ ئی ار کٹ چکی ہے جبکہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف بھی قانونی کارروائی جاری ہے اور شومی یہ قسمت کہ میڈیا میں موجود ملک ریاض کے ہرکارے اس وقت ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک ریاض نے متحدہ عرب امارات سے اپنا نیوز چینل لانے کی تیاری کر لی ہے۔اس کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ ایک طرف بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ملک ریاض پاکستانی اداروں اور قانون کی زد سے بڑی حد تک محفوظ رہیں گے اور اپنے بچاؤ کا ایجنڈا بھرپور طریقے سے چلا سکیں گے تو دوسری طرف 460 ارب کی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے 10، 20 ارب لگا کر اپنی میڈیا ایمپائر کھڑی کر دیں گے اور جوںہی مشکل وقت گزر جائے گا تو وہ پاکستان کا رخ بھی کر لیں گے اور ایک بار پھر سرمائے میں اس رفتار اضافے کی سبیل نکل جائے گی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کسی میڈیا گروپ کے لیے سرمایہ کاری ملک ریاض نے پہلی بار نہیں کی۔مختلف اداروں کو اشتہارات کی مد میں نوازنے اور اس کے عوض اپنے جرائم پر خاموش رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ انفرادی طور پر بھی صحافیوں اور اینکرز پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔تاہم بطور ادارہ وہ اس سے پہلے روزنامہ جناح میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ نیوز چینل بھی چلانے کا ارادہ رکھتے تھے جس پر بوجوہ عمل درامد نہ ہو سکا۔اس کے علاوہ حال ہی میں انہوں نے ایکسپریس نیوز چینل کے نصف شیئر بھی خرید لیے تھےجس کا باقاعدہ اعلان بھی ہو چکا تھا تاہم طاقتور حلقوں کے ساتھ نا خوشگوار تعلقات کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کانیوز چینل کھڑا کرنے کے لیے ممتاز پاکستانی اینکر کامران خان بھی ان کے ساتھ ہیں جبکہ بڑی تعداد میں "ملک نواز ” اینکروں اور تجزیہ کاروں کو ہائر کر لیا گیا ہے اور کئی بڑے اور غیر جانبدار اینکر بھی نئے پروجیکٹ میں جانے کے لیے بے تاب یا تیار ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک ریاض قانون کی عملداری اور ریاست کی طاقت کے سامنے کب تک کھڑے رہتے ہیں اور کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ؟

 

بحریہ ٹاؤن نے تردیدی بیان جاری کر دیا

دوسری طرف بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف جاری پروپیگنڈا بے بنیاد ہے جو میڈیا کے ایک مخصوص حصے کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔

بیان کے مطابق بحریہ ٹاؤن ملک کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پہلے کی طرح پرعزم ہے اور اس حوالے سے ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More