اے امینِ حکمتِ اُم الکتاب
"بابائے صحرائی کے لقب سے مشہور میر نجات نقشبندی کی نصیحت جو انہوں نے مسلمانان ہند کے لیے تحریر فرمائی ہے”
اے امینِ حکمتِ اُم الکتاب
وحدتِ گم گشتۂ خود بازیاب
اے قرآن پاک کی حکمت کے امانت دار
اپنی گم شدہ وحدت کو دوبارہ پانے کی کوشش کر۔
ما کہ دربانِ حصارِ ملتیم
کافر از ترکِ شعارِ ملتیم
ہم جو ملّت کے قلعہ کے دربان ہیں
ہم نے ملّت کا شعار ترک کر کے کافری اختیار کر لی ہے۔
ساقئ دیرینہ را ساغر شکست
بزمِ رندانِ حجازی بر شکست
پرانے ساقی کا پیالہ ٹوٹ گیا
رندان حجاز کی بزم درہم برہم ہو گئی۔
(یعنی مسلمان جو ساری دنیا کو جام توحید پلانے والا تھا آج وہ خود افتراق و انتشار کا شکار ہوچکا ہے)
کعبہ آباد است از اصنامِ ما
خندہ زن کفر است بر اسلامِ ما
(اب) کعبہ کی آبادی ہمارے بتوں سے ہے
(آج) کفر ہمارے اسلام پر خندہ زن ہے۔
شیخ در عشقِ بتاں اسلام باخت
رشتۂ تسبیح از زنار ساخت
شیخ نے بتوں کے عشق میں اسلام ہار دیا
اس نے تسبیح کے دھاگہ کو زنّار بنا لیا۔
پیر ہا پیر از بیاضِ مو شدند
سخرہ بہر کودکانِ کوشدند
(اب) بزرگ صرف اپنے سفید بالوں کی وجہ سے بزرگ ہیں
ورنہ ان کے کام ایسے ہیں کہ گلی کے بچے بھی ان پر ہنستے ہیں۔
دل ز نقشِ لاالہ بیگانۂ
از صنم ہاے ہوس بتخانۂ
دل لاالہ الااللہ کے عشق سے خالی ہے
اور ہوس کے بتوں کے باعث بتخانہ بنا ہوا ہے۔
می شود ہر مو درازے خرقہ پوش
آہ ازیں سوداگرانِ دیں فروش
ہر دراز بالوں والا ، خرقہ پوش (روحانی بزرگ ) بنا ہوا ہے
افسوس ہے ان دین فروش سوداگروں پر۔
با مریداں روز و شب اندر سفر
از ضرورت ہاے ملت بے خبر
(آج کل کے) پیر مریدوں کے ساتھ سفر میں رہتے ہیں
وہ ملّت کی حالات و ضروریات سے بالکل بے خبر ہیں۔
دیدہ ہا بے نور مثلِ نرگس اند
سینہ ہا از دولتِ دل مفلس اند
ان کی آنکھیں نرگس کی طرح بے نور ہیں
اور ان کے سینے دل کی دولت نہ ہونے کی وجہ سے مفلس و قلاش ہیں
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبارِ ملتِ بیضا شکست
کیا واعظ اور کیا صوفی سب جاہ پرست ہیں ملّت بیضا کا وقار ختم ہو چکا ہے۔
واعظِ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتئ دینِ مبیں فتویٰ فروخت
ہمارے واعظ کی آنکھ بتخانے پر لگی ہوئی ہے
اور ہمارے مفتیان دین مبین فتوے فروخت کر رہے ہيں۔
چیست یاراں بعد ازیں تدبیرِ ما
رخ سوے میخانہ دارد پیرِ ما
دوستو! اب ہمارے لیے کیا چارہ کار باقی رہ گیا ہے
اب ہمارے پیر نے شراب خانے کا رخ اختیار کر لیا ہے۔ (یعنی راہِ راست سے ہٹ گیا ہے)
اسرارِ خودی