اک روایت دم توڑ گئی
وہ جاڑے کا ایک سخت دن تھا جب بارشیں ہفتہ بھر برستی رہیں۔
کبھی ژالہ باری تو کبھی شدید دھند۔دن دیہاڑے رات کا منظر تھا۔میں دھیرکوٹ کیٹھوالاں سکول سے نکل کر واپس اسلام آباد کی طرف چل دی۔خون منجمند کرنے والی سردی ،تیز ہوائیں اور دھند،چار قدم سے آگے راستہ نہ دکھائی دیتا تھا۔سو وسوسے اور خوف پالے میں سڑک کی طرف جارہی تھی۔اک جگہ بکریاں چرانے والے چند بچے ایک پتھر کے نیچے ایک ہی چادر میں دبکے بیٹھے تھے۔ان کی آوازوں نے مجھے ایسا خوفزدہ کیا کہ چیختے چیختے رہ گئی۔سڑک سے تین چار منٹ کی دوری پہ تھی کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ایسا عالم کہ ترچھی بارش ،اولے اور تیز ہوائیں۔چھتری بار بار الٹ جائے ۔سڑک تک پہنچتے پہنچتے میں تقریبا بھیگ چکی تھی۔سڑک ویران اور منظر خوفناک ۔میں نے بند دکانوں کے آدھے ادھورے شلٹر کے نیچے پناہ لی۔
ڈرپوک نہیں ہوں مگر تنہائی اور موسم کی تلخی دیکھ کر گھبراہٹ ہونے لگی تھی، مقررہ وقت پہ گاڑی نہ آئی تو اضطراب بڑھ گیا۔نہ آدم نہ آدم زاد۔۔۔۔اتنے میں بڑی چھتری کے نیچے لاٹھی ٹیکتے ہوئے ایک مہربان نیچے گاوں سے اوپر جاتے دکھائی دیے۔انہوں نے غور سے مجھے دیکھا۔۔۔جب پہچان گئے تو دو قدم پلٹ کے مجھے دلاسہ دینے بڑھے ۔میرا خون جو منجمد تھا دوبارہ چلنے لگا۔خدا کا شکر ادا کیا۔وہ بار بار مجھے "ماڑی دلیر دھی (میری دلیر بیٹی ) ،دلیر دادے نی پوتری (دلیر دادا کی پوتی )” کہہ کر پکارتے رہے۔میرا بچپن انہیں یاد تھا۔میرے ساری زندگی کے اتار چڑھاؤ کے گواہ تھے۔ہماری خوشی ،غمی میں شریک رہنے والے عزیز تھے۔وہ گزرے وقت کو یاد کرتے رہے بارش برستی رہی ،ان کی آنکھیں بھیگتی رہیں ۔جھریوں میں ندیاں بن بن آنسو داڑھی میں گم ہوتے رہے۔جب ماضی بوڑھا ہو کے سامنے کھڑا ہو ضبط ٹوٹ جاتا ہے ،دل دکھ جاتا ہے ،آنسو بے اختیار نکل پڑتے ہیں۔
بارش تھمی تو پہاڑوں سے نکلتی دھند نے پھر سے وادیوں کو اپنی سیاہ چادر میں لپیٹ لیا۔چند نوجوان پیدل چلتے چلتے آئے اور وہاں رک کر گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔بزرگوار نے انہیں وہاں سے جانے کا کہا بلکہ گاوں کی ماں بہن بیٹیوں کی تعظیم پہ اچھی خاصی گفتگو کی۔وہ بھلے مانس ،جی جی کرتے خجل سے آگے کو چل دیے۔میں نے بہتیرا کہا شدید سردی ہے آپ گھر جائیں گاڑی آتی ہو گی کوئی مسلہ نہیں۔وہ بڑھاپے میں سردی سے کانپ رہے تھے مگر بضد تھے کہ نہیں جاتا۔میرے اصرار پہ بولے کہ "کیا آج تمھارے دادا میری جگہ ہوتے تو تمھیں اس موسم میں اس وقت یہاں اکیلا چھوڑ کر نکل جاتے۔سردیوں کی ڈھلتی شام ساڑھے چار ،پونے پانچ گاڑی آئی ۔میرے رخصت ہونے تک وہ وہیں کھڑے مسکراتے رہے۔۔۔۔دادا کی لاڈلی رانی کئی دن تک اس شفقت کو یاد کر کے آنکھیں نم کرتی رہی۔یہ ہمارے ہم سب کے جیوا لالہ تھے۔ایسا عاجز ،خود دار ،بے لوث اور شریف النفس آدمی شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔
کوٹلی ستیاں میں سڑکیں نہ تھیں۔سودا سلف ڈھونے کو گدھے ہی کام آتے تھے۔ہم نے ہوش سنبھالا تو یہ کام جیوا لالہ کو کرتے دیکھا،بھن سے دھیر کوٹ ،دھنگراں جیوا لالہ عوامی خدمت پر مامور رہے۔میں نے ان کے کالے بالوں میں سفیدی اترتی دیکھی۔وہ دادا کے گھر سانٹھ سرولہ سے سامان پہنچایا کرتے تھے۔اک ماہ میں کئی چکر لگاتے ،سکول آتے جاتے روز ان سے ملاقات ہوتی ،دھیمہ لہجہ ،میٹھی مسکراہٹ اور اچھی گفتگو ،مرقعہ اخلاق شخص تھا جس نے سالوں سماجی خدمات سرانجام دیں۔سالوں کئی میل پیدل سفر کیے ،لوگوں تک ضروریات زندگی پہنچائیں۔چالیس ،پچاس روپے پھیرے سے پانچ سو روپے پھیرا تک کا سفر میں نے دیکھا۔پھر زندگی نے کروٹ بدلی، گاؤں گاؤں سڑکیں سانپ بن کے لوٹنے لگیں۔شاید یہ جیوا لالہ اور ان جیسے کئی دیگر خدمت گاروں کے آرام کا وقت تھا جنہوں نے رزق حلال کمانے کے لیے پاؤں کی تلوے پیدل چل چل کر گھسا دیے۔میں بچپن سے یہی سوچتی رہی کہ یہ اتنا پیدل کیسے چل لیتے ہیں۔۔۔چاہے موسم اور حالات جیسے بھی ہوں۔یہ پہاڑ کی روایت تھی اور جیوا لالہ اس روایت کے آمین۔
دھیر کوٹ کیٹھوالاں ملازمت شروع کی تو بیگالیاں سٹاپ پہ اکثر جیوا لالہ سے ملاقات ہوتی۔جب جب ملتے بچپن یاد دلاتے ،خوب محبت لٹاتے ،دعائیں دیتے.. دسمبر 2018 وہ سرد شام آخری ملاقات تھی۔گاڑی چل پڑی ،جیوا لالہ ہاتھ ہلاتے مسکراتے وہیں کھڑے رہ گئے۔اس دن بار بار کہتے رہے۔
"پتر سکول پنڈی سے دور پڑتا ہے ۔اللہ کرے تجھے آسانی ملے.”
ان کی دعا قبول ہو گئی ہفتے بعد میرا تبادلہ ملال (کرور ) ہو گیا۔آسانی ہی آسانی۔۔۔۔سوچ رہی میری زندگی کتنی بے لوث دعاوں اور محبتوں کے طفیل آسان ہے ،خوشگوار ہے۔۔۔رانی واقعی خوش قسمت ہے۔
کل معلوم ہوا کہ جیوا لالہ ہم سب کی دنیا خاموشی سے چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔مجھے بچپن کا وقت پھر یاد آیا ۔جب وہ سانٹھی سے سامان لا کر اتارتے ،میں پہلے بھاگ کر کرسی لاتی پھر پانی۔۔وہ دعائیں دیتے ،پانی پی کر پھر سامان اتارنے لگتے۔کئی دفعہ چائے لانے جاتی۔واپس آتی وہ خاموشی سے رخصت ہو چکے ہوتے۔۔۔میں اسی کرسی پر بیٹھ کر وہ چائے خود پی لیتی۔۔۔۔
پہاڑ کی روایات کو زندہ رکھنے والے یہ گمنام ہیروز جس خاموشی سے زندگی گزار گئے اسی خاموشی اور عزت سے رخصت بھی ہوئے۔مجھ سمیت جس جس نے بھی جیوا لالہ کا سفر زندگی دیکھا وہ گواہی دے گا کہ وہ کیسا سُچا اور محنتی شخص تھا۔
رب کریم بخشش کرے ،درجات بلند کرے۔۔۔۔۔آمین
اک اور سرد شام آنکھوں میں ٹھہر چکی ہے۔۔۔اک اور مہربان دلاسہ اور دعا زندگی سے کم ہو چکی۔۔۔۔۔یہ کمی بڑی کمی ہے۔