انگریزی سامراج سے آزادی کے بعد اب مقامی اشرافیہ سے آزادی کی جدوجہد ناگزیر ہے
کالم : راشد عباسی
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے اور عمومی شعور رکھنے والے لوگ بھی اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ حکمرانی نظام کی ہوتی ہے، افراد کی نہیں۔ بارک حسین اوبامہ کے امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہونے پر ہمارے ہاں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ آتش بازیاں کی گئیں کہ ایک مسلمان کا بیٹا دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کا سربراہ بن گیا ہے۔ اب پاکستان سمیت مسلمان ملکوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ لیکن جب خواب ٹوٹتے ہیں تو ان کی کرچیاں جسم نہیں روح کو زخمی کرتی ہیں۔
ہیلری کلنٹن کے ںںانگ دہل میڈیا پر آکر اعلان کرنے کے بعد اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان ایک "ڈیپ سٹیٹ” ہے۔ جہاں کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہے اور ایوب خان کے جمہوریت کش اقدامات کے بعد سیاسی شعور کو پنپنے سے روکنے کے لیے کثیر سرمائے سے اور اداروں کو ملوث کر کے منظم کام تب سے اسٹبلشمنٹ بدستور کیے جا رہی ہے۔
مذکورہ بالا کی تصدیق سابق وزیر اعظم پاکستان، جناب شاہد خاقان عباسی، کے نیشنل میڈیا پر بیٹھ کر اس اعتراف سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی فری اینڈ فیئر الیکشن نہیں ہوئے۔ سب لائے گئے، کوئی بھی حکمران کبھی ووٹ کے ذریعے نہیں آیا۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ انگریز یہاں سے جانے کے باوجود یہاں پوری طاقت سے موجود ہے اور ہم پر اپنے نظام کے ذریعے حکومت کر رہا ہے۔ ہمیں قومی امنگوں اور عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے کی ایک فی صد بھی آزادی حاصل نہیں ہے۔ ہم اسلام زندہ باد کے نعرے لگا کر خوش ہو سکتے ہیں لیکن سود کو اپنی پارلیمنٹ سے حرام قرار نہیں دلوا سکتے۔
ہمارے تمام گھمبیر تر مسائل کی جڑ جاگیر داری اور اشرافیہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طبقاتی بعد اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ یورپ امریکہ کے وہ برانڈز استعمال کر رہا ہے جن کے ایک سوٹ یا جوتے کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ جب کہ "عام آدمی” کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ عدالتیں انصاف دینے کے لئے نہیں بلکہ اشرافیہ کی بدعنوانی اور بدمعاشی کو تحفظ دینے کے لئے ہیں۔ پولیس کسی کو تحفظ کیا دے گی کہ اسے خود تحفظ حاصل نہیں۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں روز بہ روز ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں موروثیت کی بدترین مثال بنا دی گئی ہیں۔ عوام کو نہ حقوق حاصل ہیں اور نہ کوئی تحفظ۔ یعنی پہلے ہم انگریز کی کالونی تھے اب اشرافیہ کی کالونی ہیں۔
ہمارے نظام میں نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکی۔ جب ہم جج کو "می لارڈ” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو ہماری غیرت ہمیں آج بھی کچوکے لگانے کی جرآت نہیں کرتی۔ میں جب عدالتوں میں عام آدمی کو ڈرے سہمے، خوف و ہراس کی تصویر بنے دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسی عدالت اسے انصاف کیا فراہم کرے گی جہاں ڈر اور خوف سے اس کی سانسیں بند ہو رہی ہیں۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہم پاکستان کے شہری نہیں اشرافیہ کی "رعایا” ہیں۔ یاد رکھیے ! جب تک ہم اشرافیہ کے خلاف اعلان جہاد نہیں کرتے اور حقیقی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے، ہمارے حالات قطعا نہیں بدل سکتے۔
دست دعا اٹھائے تو اک عمر ہو چلی
کوئی قدم اٹھاؤ کہ زنجیر پا گرے
(یوسف حسن)