انسانیت اور پاکستان کا مستقبل
تحریر : راشد عباسی
انسانیت اور پاکستان کا مستقبل
انسانیت کا مستقبل ارباب بست و کشاد کے انداز فکر اور عملی منصوبوں اور پالیسیوں سے جڑا ہے۔ اگرچہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی تباہ کاریوں نے انسان کو کیڑا مکوڑا بنا کے رکھ چھوڑا ہے لیکن اسی ماحول میں مثبت ترجیحات قائم کر کے بنی نوع انسان کے بہتر مستقبل کے امکانات کی راہ بھی نکالی جا سکتی ہے کہ اس کرہ ارض پر موجود امن پسند انسان سرمایہ داری کی ہوس زر کے زیر اثر جنگ کو انڈسٹری بنانے کے جرم کا کما حقہ ادراک رکھتے ہیں اور بلا تفاوت ملک و مذہب سب چاہتے ہیں کہ دنیا امن کا گہوارا بنے۔ عالمی معاشرے کا فرد ہونے کے ناطے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم مثبت انداز فکر اپنائیں اور امن عالم کو اپنی ترجیح بنائیں۔
آج غریب ممالک کے باشعور افراد کے ساتھ ساتھ امیر ترین قوموں کے امن پسند لوگ بھی جنگ کی صنعت پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں آئے روز اس انسانیت دشمنی، استحصال اور توسیع پسندی کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ وہاں کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ آواز اٹھا رہے ہیں کہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تباہی کے سامان پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے غریب ممالک سے غربت، جہالت اور پسماندگی دور کرنے پر عالمی طاقتیں سرمایہ کاری کریں۔ جب غریب ممالک غربت و پسماندگی کے پاتال سے نکلیں گے تو وہ بھی انسانیت کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے۔ عالمی ماحولیاتی مسائل ختم ہوں گے۔ ذہین افراد مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے۔ کرہ ارض پر موجود کسی بھی خطہ کو عالمی ماحول کے حوالے سے غیر اہم تصور نہیں کیا جا سکتا لیکن جب تک غریب ممالک کے لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہم یقینی نہیں بنائی جاتی وہ عالمی مسائل کے حوالے سے سوچنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔
ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ جدید عہد کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے منصوبوں پر کام شروع کریں جن سے ہمارے عمومی حالات بہتر ہوں اور ملک بہتری کی راہ پر گام زن ہو۔
تعلیم کے شعبے کو اہمیت دیے بغیر ترقی کا خواب دیوانے کے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سب سے ضروری امر یہ ہے کہ پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت ناگزیر ہے۔ ہمارے آئین میں اجازت دی گئی ہے کہ پرائمری تعلیم بچوں کی مادری زبان میں دی جائے۔ جاپان میں پرائمری تعلیم میں کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ بچوں کی کردار سازی پر ساری توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ اور اس کا ثمر یہ ہے کہ جاپانی دنیا کی دیانت دار ترین قوم ہیں اور پورے جاپان میں گزشتہ دو عشروں کے دوران کوئی چوری نہیں ہوئی۔ جاپانی مصنوعات دنیا کی اعلی ترین مصنوعات میں شامل ہیں۔ وہاں کے لوگ جوہری بم کی تباہی دیکھنے کے باوجود انسان دوست اور امن پسند ہیں۔
ترقی کے عمل کو جاری کرنے کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر ضروری ہے۔ یعنی سڑکیں، سستی بجلی، مفت تعلیم، صحت کی سہولیات وغیرہ۔ اگر ہمیں ترقی کا سفر کرنا ہے تو ہمیں انفراسٹرکچر کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔
بنگلہ دیش
ہمارے ہاں ایک عرصے سے سیاسی عدم استحکام کا ماحول ہیں۔ کیونکہ یہاں کنٹرولڈ ڈیموک ریسی ہے اس لیے حقیقی جمہوریت ہمیشہ مفقود رہی ہے۔ ایوب خان نے چن چن کر جہاندیدہ سیاست دانوں کا خاتمہ کیا تھا تاکہ بیوروکریسی کی نرسری میں شیور کے سیاست دان پیدا کیے جا سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابن الوقت لوگ سیاست کے کرتا دھرتا بن گئے۔ اسٹبلشمنٹ نے اپنے اصطبل میں کچھ گھوڑے مستقل طور پر باندھ دیے جن کی شمولیت ہر اسمبلی میں ناگزیر ٹھہری۔ یوں کوئی وقیع قانون سازی کرنے کے بجائے ہر اسمبلی کے ممبران اپنی قیمت لگوا کر اسٹبلشمنٹ کی خوشںودی کو مطمع نظر بنا بیٹھے۔ اصطبل کے گھوڑوں نے اسٹبلشمنٹ کے منفی کردار کو ختم کرنے کی قانون سازی کی تمام راہیں مسدود کرنے کا فرض بہ طریق احسن سر انجام دیا اور یوں وقت گزرنے کے ساتھ تمام ادارے تباہ ہو گئے۔ اسمبلیاں فقط ربر سٹمپ بن گئیں۔ سیاست کے کرتا دھرتااتنےبے وقعت ہوئے کہ گاڑیوں کی ڈگیوں میں بیٹھ کر جی ایچ کیو جانے لگے۔ ایک سیاسی جماعت نے پہلے اسٹبلشمنٹ کی اشیرباد سے حکومت حاصل کی۔ اسٹبلشمنٹ کو سر پر چڑھایا۔ جی ایچ کیو کو مائی باپ بنایا اور جب اسٹبلشمنٹ اپنی روایتی کمینگی پر اتری تو چیخنا چلانا شروع کر دیا۔
اب بھی ایک ربرسٹمپ اسمبلی وجود میں آئی ہے۔ ملک کے معاشی و سیاسی حالات دگرگوں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ ہم جب تک آئی ایم ایف کے غلام ہیں ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ایسی اقتصادی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو انٹرپرینیئورشپ کی حوصلہ افزائی کریں۔ تمام طریق کار آسان اور معاون ہو۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ معیاری ملکی مصنوعات پیدا ہونے سے درآمدات اور برآمدات کا توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ جب کارخانے بہ طریق احسن چلیں گے، ماحول سازگار ہو گا اور عالمی سطح پر بنگلہ دیش کی طرح اس کے چرچے ہوں گے تو بیرونی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لے کر آ جائیں گے جس سے ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔
ہم ہمیشہ دعوے کرتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اب تو افواج پاکستان بھی زراعت کے فروغ کے لیے ببانگ دہل سامنے آ گئی ہیں اس لیے اس کے زرعی ملک ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں۔ لیکن دعووں اور اعلانات سے آگے جا کر عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی ملک غلہ کبھی برآمد نہیں کرتے۔ زرعی زمینوں کو تباہ و برباد کر کے ہاؤسنگ سکیمیں نہیں بناتے۔ ڈی ایچ اے اور بحریہ کا کامیاب بنانے کے لیےلاکھوں ایکڑ پر پھیلے باغات اور زرعی زمینوں کو برباد نہیں کرتے۔
اگر ہم صرف سبزیوں، غلہ،پھلوں اور خوردنی تیل کی پیداوار پر بھرپور توجہ دیں تو ہم نہ صرف اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچا سکتے ہیں بلکہ کروڑوں ڈالر برآمدات سے کما بھی سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ بیماریوں کی بہتات ہے۔ اس کی بڑی وجہ غیر معیاری خوراک اور غیر مناسب ماحول ہے۔ ہمیں صحت کی سہولیات پر توجہ دینی ہو گی تاکہ صحت مند آبادی قومی ترقی میں بہتر طور پر شریک ہو سکے۔
ہمارے ہاں اعلی اذہان کی کمی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تخلیقی اذہان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نوجوانوں کو تھیسز کے موضوعات ایسے دیے جائیں جو ہمارے مسائل کا حل پیش کرتے ہوں۔ کسی بھی قسم کی تحقیق کے لیے مختلف ادارے بنائے جائیں تاکہ ہر شعبے میں ترقی کی نئی راہیں استوار ہوں۔
ہمارے بہت سے ماہرین دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی مدد سے ہم اپنے نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی بہتر تعلیم سے مزین کر سکتے ہیں۔
اگر ہم ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات بہتر کر لیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں تو گلوبل پارٹنرشپ کے ذریعے بھی کئی ترقی یافتہ ملک ہماری مدد کو تیار ہو جائیں گے جس طرح ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔
لیکن مذکورہ بالا سارے خواب اس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتے جب تک اسٹبلشمنٹ اپنی طاقت اور اتھارٹی کے تحفظ کے بجائے ایک خوش حال پاکستان کو اپنی ترجیح نہیں بناتی۔