"اقبال نیں شاہین ” نئی نسل کے لیے ایک انمول تحفہ
تحریر : سجاد عباسی
"اقبال نیں شاہین ” نئی نسل کے لیے ایک انمول تحفہ
تھا اقبالؒ کو اُن جوانوں سے عشق
ستاروں پہ جو ڈالتے تھے کمند
مگر آہ۔۔ اِس کے وطن کے جواں
نکیلے، سجیلے، صبیحہ پسند
غالبا” ہم نویں جماعت میں تھے۔ ہمارے انگریزی کے استاد آفتاب صاحب، جو گورنمنٹ ہائی اسکول بیروٹ میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے، اپنے مخصوص انداز میں علامہ اقبال کے شعر
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
کی تشریح بیان کر رہے تھے۔ اس زمانے کے اساتذہ کا کمال یہ تھا کہ وہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیتے تھے۔ یعنی ساری توجہ رٹا لگا کر کورس مکمل کرنے پر نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی مخصوص پیریڈ مخصوص مضمون تک محدود رہتے تھے بلکہ چھوٹے چھوٹے سبق آموز واقعات، محاورے، استعارے اور تشبیہات بیان کرتے کرتے حقیقی اساتذہ دور نکل جاتے تھے۔ تربیت کا یہ انداز کسی خاص فارمولے کا مرہون منت نہ تھا بلکہ غیر محسوس اور دلچسپ انداز میں ایسی چیزیں ذہن نشین کرا دی جاتی تھیں جو عملی زندگی میں کام آئیں۔ اب کلاس، پیریڈ اور استاد تینوں انگریزی کے ہیں مگر بات اردو شاعری پر ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے مستقبل کے معماروں سے بات ہو تو اقبال سے زیادہ موثر پیغام کس کا ہو سکتا ہے۔ غالباً رشید احمد صدیقی نے کہا تھا۔۔
(الطاف حسین) حالی ماضی کے، اکبر (الہ ابادی) حال کے اور (علامہ محمد) اقبال مستقبل کے شاعر ہیں. آفتاب صاحب اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں وقتا فوقتاً ایڑیاں اٹھا کر دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا انہماک بڑھا رہے تھے مگر اصل شعر کی تشریح کے دوران انہوں نے ابتدائیہ میں مذکور بند سنایا، جو ان کے بقول ان کے کالج کے پروفیسر صاحب نے لیکچر کے دوران سنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقبال کو تو ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوانوں سے عشق تھا مگر اس کے وطن کے جوان نکیلے، سجیلے اور صبیحہ پسند ہو گئے ہیں۔ صبیحہ خانم اس زمانے کی معروف ترین فلمی اداکارہ تھیں اور نوجوانوں کی اکثریت ان کی زلف گرہ گیر کی اسیر تھی۔
اب ذرا سوچیے کہ چار دہائیاں قبل ہمارے بچپن یا لڑکپن میں ہمیں پڑھانے والے استاد محترم کے لڑکپن کے دور میں اساتذہ کرام کو نوجوان نسل سے یہ شکوہ تھا کہ وہ اقبال کی تعلیمات سے دور ہو گئی ہے تو انحطاط در انحطاط کے بعد آج کے طالب علم بچے اور بچیاں کہاں پہنچ چکے ہوں گے؟ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس "انقلابی دور” میں جب ٹیکنالوجی کے سونامی نے معاشرتی اقدار ، روایات اور رسم و رواج کے تناور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا ہے۔ انفوٹینمنٹ (یعنی انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ) کے نام پر ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا ہے جس کی زد میں آ کر بچوں کے ساتھ والدین بھی بہتے چلے جا رہے ہیں۔ بالکل بے ارادہ اور بے سمت۔
نہ کسی کو فکر منزل، نہ کہیں سراغ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے، جو رواں ہے بے ارادہ
سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ کیا خود کو اور اپنی نئی نسل کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ اپنے بچوں کو اس سونامی کی نذر ہونے دیا جائے؟ اپنی معاشرتی اقدار کو جدیدیت کے نام پر جاری بےہودگی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟
ظاہر ہے ان سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ہمیں اپنی روایات، اقدار، ثقافت، زبان اور ادب سے اپنے بچوں کو جوڑنا ہوگا۔ معاشرے کی اکثریت کے نزدیک یہ غیر مقبول بات اور جان جوکھوں کا کام ہے مگر ہمارے دوست راشد عباسی جیسے سر پھرے اور روایت شکن لوگ یہ علم بلند کیے ہوئے ہیں۔
"اقبال نیں شاہین” اسی عزم کی علامت ہے. ایک ایسے وقت میں جب کم و بیش چار دہائیوں کی شبانہ روز "محنت” سے ہم نے اپنی مادری زبان کو بیخ و بن سے اکھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، والدین اور اساتذہ نے بچوں کے ذہن میں شعوری طور پر یہ بات ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ماں بولی بولنے سے وہ پسماندہ اور ان پڑھ دیہاتی بن جائیں گے۔ اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان اور انگریزی دنیا سے رابطے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب، ثقافت، سائنسی علوم اور تاریخ کو سمجھنے کے لیے ناگزیر زبان ہے۔ مگر کیا دنیا کی باشعور قومیں اپنی مادری زبان ترک کر کے ترقی کی معراج تک پہنچی ہیں؟ ہرگز نہیں.. خیر یہ موضوع تفصیل طلب ہے. فی الوقت ہم بچوں کے لیے راشد عباسی کی کتاب "اقبال نیں شاہین” پر ارتکاز کرتے ہیں۔
یہ کتاب نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں پہاڑی زبان میں لکھی گئی ہے، جس میں فکر اقبال کے ذریعے مستقبل کے معماروں کو معاشرتی اقدار کے ساتھ جوڑنے اور تصور خودی کو بنیادی تربیت کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔طلبا و طالبات کی مزید آسانی کیلئے ہر مضمون کے آخر میں اردو خلاصہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
خوب صورت اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں نظام تعلیم، بچوں کی تعلیم و تربیت میں معاشرے کا کردار، بچے اور بچپن نفسیاتی پہلو، سکول میں بزم ادب کے احیاء، بچوں کے درمیان صحت مند مقابلوں اور مکالمے کی اہمیت جیسے مضامین شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں پیغام اقبال کی روشنی میں زندگی کو سنوارنے کے گر بتائے گئے ہیں۔ جیسے تنظیم الاوقات، زندگی کا مقصد، بڑے لوگوں کے خواص، مثبت سوچ، والدین کا احترام، غیر معمولی دور میں کامیابی کا چیلنج، وغیرہ۔ یہ حصہ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس میں ایک مضمون اور دو کہانیاں بھی شامل ہیں۔ جبکہ تیسرے حصے میں علامہ اقبال کے کلام کو سادہ سلیس انداز میں بیان کر کے اس کی تشریح اس انداز سے کی گئی ہے کہ بچے اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔
راشد عباسی اس سے پہلے "بیت بازی کلام اقبال” کے عنوان سے بھی بچوں کے لیے ایک کتاب چھاپ چکے ہیں جو اردو میں تھی، مگر اب کی بار انہوں نے نئی نسل کو اپنی جڑوں سے جوڑنے کے لیے پہاڑی زبان میں یہ کتاب لکھی ہے جو بہت محنت طلب کام ہے اور جسے ممکن بنانے کے لیے علم و ادب سے وہ عشق ضروری ہے جس میں راشد عباسی مبتلا ہیں۔ ان کتب کے علاوہ ان کے دو پہاڑی شعری مجموعے "عشق اڈاری” اور "سولی ٹنگی لوء” مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ نیز وہ پہاڑی زبان کا پہلا ادبی کتابی سلسلہ "رنتن” بھی شائع کرتے ہیں جس کے چار شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ بلا شبہ راشد عباسی نے پہاڑی زبان کی بنجر ہوتی زمین پر امکانات کے نخلستان اگائے ہیں۔
اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ "اقبال نیں شاہین” ہر اس گھر کے تمام چھوٹے بڑوں کے زیر مطالعہ آنا چاہیے جہاں پہاڑی ، ہندکو اور پوٹھوہاری زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر سکول کے اساتذہ پہلے خود کتاب کا مطالعہ کریں، پھر تیاری کے ساتھ اسے بچوں کو پڑھائیں۔ آپ یقین کریں کہ اج کا بچہ موبائل لیپ ٹاپ اور گیجٹ کے عذاب سے اکتا گیا ہے اور وہ اس یکسانیت سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ خود والدین کو ان مشینوں کی لت پڑ چکی ہے کیونکہ انہوں نے یہ "انقلاب” ادھیڑ عمری میں دیکھا ہے اور اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بچوں کے حوالے سے تو گویا ہم نے طے کر لیا ہے کہ انہیں موبائل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ صورت حال پریشان کن بلکہ تشویش ناک ہے ۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے موبائل پر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والی ایک ماڈرن اور پڑھی لکھی سندھی ماں اپنی ننھی سی بیٹی کو مادری زبان کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بہت دلچسپ انداز میں چھوٹے چھوٹے انگریزی جملوں کا سندھی ترجمہ کرتی ہے۔ پھر بیٹی ماں کی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ وہ روزانہ سندھی زبان کے دو الفاظ سیکھے گی۔
آٹھ دہائیاں پہلے بھارت جانے والے سندھی خاندان کو اپنی زبان کی بقا کی فکر ہے اور وہ اپنے بچوں کو اپنی ثقافت اور روایات سے جوڑنا چاہتے ہیں تو ہم پہاڑیوں کے اندر یہ فکر بیدار ہونے میں مزید کتنی دہائیاں یا صدیاں لگیں گی؟
راشد عباسی "اقبال نیں شاہین” کے ذریعے ہمارے بچوں کو یہی سب کچھ سکھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے اصل سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو اقبال کی تعلیمات سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔ وہ اقبال جسے شاعر مشرق کہا جاتا ہے اور جس نے مغرب کے عملی اور تفصیلی تجزیے کے بعد اسے رد کیا اور اپنی قوم کو مشرقی اقدار اپنانے کا درس دیا۔ وہ اقبال جو بطور مضمون مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جرمنی اس کی بڑی مثال ہے۔ آئیے اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے بچوں کو فکر اقبال سے روشناس کرائیں اور راشد عباسی کی آواز میں آواز اور قدم سے قدم ملائیں، جو دراصل ہم سب کے حصے کا کام کر رہے ہیں۔
اس کتاب کا زر تعاون صرف پانچ سو روپے ہے، جب کہ تین کتب ہزار روپے میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آپ اپنے بچوں کے لیے ایک یا زائد کتابیں خرید سکتے ہیں ۔کتاب آن لائن بھی خریدی جا سکتی ہے۔
آواز پبلی کیشنز
اقبال مارکیٹ ، اقبال روڈ
کمیٹی چوک، راولپنڈی
03005211201
اگر استطاعت ہو تو کچھ کتابیں خرید کر رکھ لیں جو آپ عزیز و اقارب، دوست احباب، اپنے علاقے کے اساتذہ کرام اور بچوں کو ہدیہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ صدقہ جاریہ میں بھی حصہ دار بن جائیں گے اور معاشرے میں کتاب کلچر بھی فروغ پائے گا۔ کتاب بطور تحفہ دے کر دیکھیں اپ کو روحانی آسودگی حاصل ہوگی۔
نجی اسکولوں کی انتظامیہ یہ کتاب زیادہ تعداد میں خرید کر طلبہ و طالبات تک پہنچا سکتی ہے۔
سجاد عباسی ، گروپ ایڈیٹر روزنامہ "امت”