راولپنڈی شہر سے مری کا سفر کرنے والی پہلی بس
وہ 2 جون 1913ء کی گرم دوپہر تھی جب دھوپ تیزی سے چمک رہی تھی۔ ادھیڑ عمر کا ایک شخص راولپنڈی سے کوہ مری جانے والی سڑک پر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا خود کو تیز دھوپ سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس شخص کا نام پہلوان تھا اور اس کا تن و توش بھی پہلوانوں جیسا تھا۔
پہلوان بائی میل یا بائیس میل نامی جگہ پر گھاس اور بھوسے کے ایک گودام کا چوکیدار تھا۔ اس نے اپنی جوانی کے بیس سال اسی جگہ چوکیداری کرتے گزار دیے تھے۔ حتی کہ وہ کبھی راولپنڈی بھی نہیں گیا تھا۔
انگریز نے 1870ء کی دھائی کے اوائل میں راولپنڈی سے مری تک سڑک تعمیر کی تھی، جس پر گھوڑے ٹم ٹم بھگیاں اور بیل گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ راولپنڈی سے مری تک سفر میں بعض اوقات 2 دن لگ جایا کرتے تھے۔
2۔جون 1913ء کی اس دوپہر میں فضا کافی گرم تھی جس سے پہلوان کو بار بار اونگھ آرہی تھی۔ کافی دیر سے سڑک پر سے کوئی تانگہ گھوڑا بھی نہیں گزرا تھا۔
غنودگی کے عالم میں پہلوان نے زور زور کی گڑگڑاہٹ سنی۔ گڑگڑاہٹ سن کر وہ چونک اٹھا۔ اس نے آج تک ایسی مہیب اور تیز آواز نہیں سنی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے گویا کوئی پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گر رہا ہے۔
اس گڑگڑاہٹ کی وجہ سے خاموش فضا میں ہلچل سی مچ گئی۔ پہاڑی گلہریاں اور پرندے پریشان ہوکر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ قریبی جھاڑیوں سے گیدڑ نکل نکل کر سڑک کی دوسری طرف بھاگ اٹھے اور پہلوان کا کتا زور زور سے بھونکنے لگا ۔
پہلوان کے ذہن میں پہلا خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ زلزلہ، جسے مقامی زبان”پہونژل” کہا جاتا ہے، آیا ہے۔ وہ دوڑ کر سڑک پر آیا اور آیات پڑھنے لگا۔
لیکن یہ زلزلہ نہیں تھا بلکہ وہ گڑگڑاھٹ کی آواز لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جارہی تھی۔ اتنے میں اس کی نظر سڑک کے نچلے موڑ پر پڑی۔ اس نے کیا دیکھا کہ دھواں اگلتی ایک مہیب بلا تیزی سے اس کی طرف آرہی ہے۔ اس بلا کا رنگ کالا تھا اور رفتار تیز تھی۔
تھوڑا نزدیک آکر بلا نے زور کی چیخ ماری۔ پہلوان کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے پوری رفتار سے بلا کے آگے بھاگنا شروع کردیا۔ بلا اس کے پیچھے پیچھے تھی اور بار بار چیخ رہی تھی۔
پہلوان نے ہائے مر گیا کا نعرہ لگایا۔ بار بار پوں پوں کی آواز جیسے اس کی سماعت پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔
پہلوان نے مڑ کر دیکھا تو وہ بلا بدستور دوڑی چلی آ رہی تھی۔ وہ اور بھی تیزی سے بھاگا اور تین میل تک بھا گتا ہی چلا گیا ۔
تین میل بھاگنے کے بعد سامنے سڑ ک پر اسے ایک واقف کار سرکاری ٹھیکیدار آتا دکھائی دیا۔ وہ ہانپتا کانپتا اس تک پہنچا اور گبھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔
"ٹھیکے دار جی! بھاگیے بھاگیے”
ٹھیکے دار نے اسے ہاتھ کے اشارے سے تسلی دی اور پوچھا ۔۔ "کیا بات ہے؟؟ سب خیر تو ہے نا؟؟”
بے چارے پہلوان نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"وہ دیکھئے۔ ایک بلا دوڑتی چلی آرہی ہے۔ میں تو آج مارا ہی گیا تھا۔ وہ تو یوں کہیے کہ کچھ ہاتھوں کا دیا کام آگیا”
ٹھیکے دار نے اس کی انگلی کے اشارے کی جانب دیکھا اور ایک بلند قہقہہ لگاتے ہوئے اسے بتایا کہ ارے پاگل یہ بلا ولا کچھ نہیں یہ تو ایک لاری ہے۔
یہ وہ پہلی گاڑی تھی جو راولپنڈی سے مری کی طرف آئی تھی۔ ٹھیکے دار اس سے پہلے راولپنڈی میں لاری اور جیپیں دیکھ چکا تھا ۔ اتنے میں وہ لاری ان کے قریب پہنچ گئی۔ شریر گورے ڈرائیور نے پہلوان کو دیکھا تو ایک بار پھر زور سے گاڑی کا ہارن بجایا، جسے سنتے ہی پہلوان نے سڑک سے نیچے کی جانب چھلانگ لگادی اور قلابازیاں کھاتا ہوا دور جا گرا۔
یہ وہ پہلی مشینی سواری تھی جس نے راولپنڈی سے مری تک کا سفر پورے 14 گھنٹوں میں طے کیا تھا۔ تاریخ تھی 2 جون اور سال تھا 1913ء۔
(حوالہ : "داستان مری”۔تالیف پروفیسر کرم حیدری مرحوم)