تصادم نہیں،مدارس کی رجسٹریشن چاہتے ہیں،فضل الرحمان
چارسدہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مدارس کے ایک ایک طالبعلم اور استاد کی جنگ لڑرہے ہیں، قرآنی علوم، فقہ کے علوم ہوں یا حدیث کے علوم ہم ان کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں، کسی فرد واحد کی نہیں ہے، اجلاس بلا کر علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ برصغیر میں انگریزوں نے اپنا نظام تعلیم دیا تو دین کے اکابرین نے مدارس قائم کیے تاکہ اپنے دینی علوم کا تحفظ کیا جا سکے، ہم آج بھی اپنے اس دینی ورثے کے تحفظ کی جنگ لڑرہے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی لحاظ سے ریاست کے خلاف تصادم نہیں چاہتے ہیں، ہم مدارس کی رجسٹریشن چاہتے ہیں، اس کے لیے ہمیں رجسٹریشن سے دھکیلا جا رہا ہے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ2004 میں بھی قانون سازی ہوئی، 2019 میں ایک نیا نظام دینا چاہا، وہاں سے ایک معاہدہ ہوا، ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل قائم کیا گیا اور کہا گیا کہ 12 مراکز قائم ہوں گے جہاں مدارس کی رجسٹریشن ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم ) کی حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے مدارس رجسٹریشن پر اتفاق کیا، تمام جماعتوں اور حکومت کے اتفاق رائے کے ساتھ اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا، اس کی پہلی خواندگی پر کوئی اختلاف نہیں ہوا، یہ اتفاق رائے سے پاس ہوا۔
سربراہ جے یو آئی ف نے الزام عائد کیا کہ مدارس رجسٹریشن بل کی دوسری خواندگی میں اداروں نے مداخلت کر کے قانون سازی رکوائی۔
فضل الرحمان نے کہا کہ26 ویں ترمیم کا مرحلہ آیا تو ایک مہینہ اس پر بحث ہوتی رہی، ان مذاکرات میں 56 کلازز سے ہم نے انہیں 36 کلازز پر آمادہ کیا ، اس کے بعد ہم نے کہا کہ ہمارے ایک بل پہلے سے متفقہ طور پر پاس ہو چکا ہے، جس سے ایجنسیاں بھی واقف تھیں، ہمارے ادارے بھی واقف تھے، صدر آصف زرداری خود اس میں موجود تھے، میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف دونوں متفق تھے۔
انہوں کا مزید کہنا تھا کہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے، دیگر بلوں پر دستخط ہو سکتے ہیں تو پھر مدارس کی رجسٹریشن کے بل پر کیوں نہیں دستخط کیے جارہے ہیں۔
اس ڈرافت کے اندر ہم نے مکمل طور پر مدارس کو کسی بھی نظام کے ساتھ منسلک ہونے کی مکمل آزادی دی ہے، مدارس کو آزادی ہے کہ وہ 1860 کے ایکٹ کے تحت مدارس کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں یا وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں۔