top header add
kohsar adart

چار بہنوں کا اکلوتا بھائی…….والدین کی آنکھوں کا تارا

 

جب سے پاک وطن معرض وجود میں آیا ہے اس کی حفاظت و استحکام کے لیے افواج پاکستان کے افسراور جوان اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرتے آرہے ہیں۔قربان جائیں ایسے سپوتوں پر جنہوں نے ہر طرح کے نامساعد حالات میں اس دھرتی کا دفاع کیا اور اپنی جانوں پر کھیل کر دشمن کی سازشوں،چالاکیوں اور مکاریوں کو ناکام بنایا۔میجر ثاقب علی اعوان شہید ایک ایسے ہی بہادر فوجی افسر تھے جو بڑی جرأت کے ساتھ لڑے اور اپنی جان سبزہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے قربان کر دی۔

میجر ثاقب علی اعوان8 مئی 1990ء کو تحصیل بھوانہ ضلع چینوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد گرامی حیدر عباس اعوان پاک فوج میں بطورسپاہی خدمات انجام دیتے رہے ۔حیدر عباس اعوان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹیوں مریم حیدر،تحریم حیدر، ماریہ حیدر ،عالیہ حیدر اور ایک بیٹے ثاقب علی سے نوازا۔ حیدر عباس صاحب کا خواب تھا کہ ان کا بیٹا پاک فوج میں افسر بنے۔میجر ثاقب شہید نے پرائمری تک تعلیم گورنمنٹ سکول بھوانہ سے حاصل کی اور شاکر پبلک سکول مظفر گڑھ سے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد وہ چار سال تک گیریژن کیڈٹ کالج کوہاٹ میں زیر تعلیم رہے۔شہید اکتوبر2009ء میں پاک فوج میں شامل ہوئے اور 123پی ایم اے لانگ کورس کا حصہ بنے۔پاسنگ آوٹ پریڈ کے بعد انہیں آزاد کشمیر رجمنٹ میں تعینات کیاگیا۔
میجر ثاقب علی شہید کی بہن تحریم حیدر نے ”ہلال”سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ 24اپریل 2011ء کو بھائی کی پاسنگ آوٹ پریڈ تھی اور ہم سب بہنیں اپنے والدین کے ساتھ پی ایم اے کاکول گئیں اور اس شاندار پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شرکت کی۔آج بھی وہ دن یاد آتا ہے تو ہمیں بہت اداس کر جاتا ہے۔ اس روزہمارے پورے گھر میں ایک خوشی کا سماں تھا ، چنیوٹ سے پی ایم اے کاکول تک یہ ہمارا بڑا یادگار سفر تھا۔ ثاقب علی شہید کو اپنے فرض سے بہت زیادہ لگن تھی۔ وہ فوجی وردی ڈیوٹی سمجھ کر نہیں ایک جذبے کے تحت زیب تن کرتے ۔ان کے اسی جذبے اور محنت کو دیکھتے ہوئے انہیں جلد ترقیاں ملتی گئیں ۔2017ء میں وہ میجر کے عہدے پر ترقی پا گئے۔

میجر ثاقب شہید پاسنگ آوٹ پریڈ کے بعد حیدر آباد،منگلا،سیاچن، کشمیر اور باجوڑ میں تعینات رہے۔

انہوں نے کانگو میں اقوام متحدہ امن فوج کے تحت تین سال گزارے۔سیاچن تعیناتی کے دوران ایک حادثے میں وہ شدید زخمی بھی ہوئے۔ وہ آئی ایس آئی میں بھی خدمات انجام دیتے رہے ۔میجر ثاقب شہید کو جہاں بھی تعینات کیا گیا انہوں نے اپنے اہداف کو پورا کیا ۔ ان کی یونٹ کے افسر اور جوان آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں اور ان کی فرض سے لگن کو بہت سراہتے ہیں۔انہیں سپورٹس میں سب سے زیادہ کرکٹ پسند تھی اور وہ اپنی یونٹ میں کرکٹ میچز میں ضرور حصہ لیتے۔میجر ثاقب اعوان شہیدباجوڑ ایجنسی میں 4ماہ تک مختلف آپریشنز میں حصہ لیتے رہے ۔ اس دوران وہ صرف ایک مرتبہ گھر چھٹی پر آئے ۔
باجوڑ میں نیک بانڈہ کے مقام پروہ ایک آپریشن سے واپس آرہے تھے کہ پانچ اگست2019ء کو مغرب کے وقت6بج کر42منٹ پر ان کی گاڑی بارودی سرنگ کی زد میں آگئی جس کے نتیجہ میں وہ جام شہادت نوش کر گئے ۔انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ آخری آپریشن میں ا نہوں نے سات دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔شہید کی نماز جنازہ 6اگست2019ء کو ادا کی گئی اور انہیں آبائی گاوں میں پورے فوجی اعزازکے ساتھ سپرد خاک کیاگیا۔ میجر ثاقب شہید کی شہادت سے صرف پانچ ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔23مارچ2021ء کو شہید کوحکومت کی طرف سے تمغۂ بسالت سے نوازا گیا جو ان کی بیوہ نے وصول کیا۔
ثاقب شہید کی بہنوں نے اپنے اکلوتے بھائی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا :”ثاقب شہید میدان جنگ میں ایک سخت جنگجو اور ہمارے ساتھ بہت نرم دل اور نرم خو تھے۔ ان کا مزاج بہت دوستانہ تھا، وہ ہمارے ساتھ ایک دوست بن کر رہتے ۔ وہ ہمیں اپنا بھائی سمجھتے اور دوستانہ رویہ رکھتے ۔رحمدل اور ہمدرد انسان تھے۔وہ ہم سب بہنوں کو خود پڑھاتے تھے، ہمارے معاملات میں بہت دلچسپی رکھتے ۔ جب بھی کہیں گھومنے جاتے تو بھائی ہمیں راستے میں بہت تنگ کرتے ۔ انہوں نے پیار سے ہم سب بہنوں کے مختلف ”نک نیم ”رکھے ہوئے تھے۔ہم سب کو کچھ نہ کچھ گفٹ کر دیتے ، پیسے دیتے اور ہمیشہ اس بات پر مصر رہتے کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتو مجھے بتایا کرو۔ وہ جب بھی چھٹی پرگھر آتے یا واپس جانے لگتے تو اپنے والدین کے ہاتھ چومتے ۔
28جون2019ء کو وہ چھٹی گزارکر واپس گئے تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری ان سے یہ آخری ملاقات ہوگی۔بس اس کے بعد وہ سبزہلالی پرچم اوڑھے شہادت کا تاج پہن کر گھر آئے اور ہم سب کو اداس کرگئے۔یہ اداسی ایسی ہے کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ہمیں فخر ہے کہ ہم ایک فوجی باپ کی بیٹیاں اور شہید فوجی افسر کی بہنیں ہیں۔جب بھی وہ کسی اہم مشن پرجاتے تو ہمارے ساتھ ایک ہی بات کرتے کہ میرے لیے دعا کرنا۔ جب وہ کسی فوجی آپریشن سے واپس آتے تو ہمیں فوری طور پر کال کر کے اپنی خیریت سے آگا ہ کرتے ۔ آخری بار جب وہ ہمیں مل کر جانے لگے تو ہمیں گلے سے لگا کر خوب روئے”۔

شہید کے والد گرامی حیدر عباس اعوان جب اپنے بیٹے کے بارے میں با ت کرنے لگتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسوامڈ آتے ہیں۔کہنے لگے کہ ”مجھے بیٹے کی شہادت پر ناز ہے اگر میرا کوئی اور بیٹا ہوتا تو میں اسے بھی وطن کی حفاظت کے لیے بھیج دیتا۔وہ بتانے لگے کہ جب میں اپنے بیٹے کو مظفرگڑھ چھوڑنے جاتا تو ہر ایک چیز اسے مکمل کر کے دیتا۔ مجھے وہ لمحے کبھی نہیں بھولتے۔ جب میں انہیں کوہاٹ چھوڑنے گیا تھا تو تمام راستے میں کی گئیں اپنے اکلوتے بیٹے کی پیاری پیاری باتیں مجھے آج بھی یاد آتی ہیں۔ ایک مرتبہ میں اسے ہاسٹل میں چھوڑ کرواپس آنے لگاتھا توکہنے لگا کہ بابا میرے شوز کہیں گم ہو گئے ہیں ۔میں نے کہا کہ فکر نہ کروبیٹا! میں نے تمہارے نئے شوز لے کر تمہاری الماری میں رکھ دیئے ہیں۔اس کے ٹیچرز آج بھی اسے یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ثاقب ایک نہایت قابل سٹوڈنٹ تھا جو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا تھا۔ میری ساٹھ سال سے زائد عمر ہے، میں ایک ریٹائرڈ فوجی ہوں لیکن میں آج بھی دفاع وطن کے لیے تیار ہوں ۔جس طرح میرے بیٹے نے اپنا لہو دے کر وطن کا تحفظ کیامیرے اندر بھی ایسا جذبہ موجود ہے۔”

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More