تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال مری کے ارتقائی خدوخال
تحریر : امجد بٹ
تاریخ :- قدِیم مری شہر میں پہلا باقاعدہ ہسپتال 1890ء میں لوئر جھیکا گلی روڈ پر نزد گورنمنٹ بوائز ہائی سکُول و پشاوری بلڈنگ قائم کیا گیا۔ قُرب و جوار میں موجود رہائشیں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے لئے مختص کی گئیں ۔ یہ عمارت آج بھی پُرانا ہسپتال کے نام سے نِصف صدی پہلے جنم لینے والے اہل مری کے ذہنوں میں محفوظ ہے ۔ آج کل یہ صُوفی شفاعت عباسی ، شیر خان ، شفیق چغتائی (سابقہ رہائش معروف شاعر، مصنف و مصوّر اور معلّم سیفی نوگانوی ) ، ناصرہ جاوید اعوان اور خُرّم چُغتائی کی قیام گاہیں جبکہ ڈاکٹروں کی رہائش گاہوں میں شاہد حسین اور راقم مقیم ہیں ۔ اِس "پُرانے ہسپتال کی مرکزی عمارت میں تاحال جناب صُوفی شفاعت عباسی کے نام رجسٹری ریکارڈ کے مُطابِق ایک سو چالِیس سال قبل (1884ء میں) اِس کا مالک گُرُو گوردت سِنگھ تھا ۔ وطنِ عزِیز کی تاریخ گواہ ہے کہ فلاحی کاموں کے لئے ہِندُوؤں اور سِکھوں نے اپنی قِیمتی جائیدادوں کو فلاحِ اِنسانیت کے لئے وقف کِیا. یہ ہسپتال بھی اِسی سِلسِلہ کی ایک کڑی تھا ۔
کُلڈنّہ روڈ پر نیا ہسپتال بن جانے کے بعد اور تقسِیمِ ہِندوستان کے نتِیجے میں یہاں سے ہِندُو ، سِکھ روانہ ہُوئے تو مُسلمان مُہاجروں کے قافلے میں ہِندوستان سے آنے والے بدرالدِین کا خاندان اِس عمارت میں آباد ہُوا ۔ سروے آف پاکِستان میں مُلازم بدرالدِین نے ہِندوستان میں موجُود اپنی جائیداد کے بدلے میں اِس عمارت کا کلیم جمع کروا کر ملکِیّت حاصِل کی ۔
1930ء تک مری شہر میں سات ہزار اور چند مُلحقہ دیہاتوں کی آبادی قریباً 15 ہزار کے لگ بھگ تھی ان سب کی صحت کا درمان یہی ہسپتال تھا۔ مری شہر کی آبادی کی اکثریت ہندو ، سِکھ تاجروں اور کشمیری دستکار و بار بردار مہاجرین نے صدیوں سے مری شہر کے بازاروں اور مال روڈ کے علاوہ ملحقہ علاقوں کو بھی آباد رکھا ۔ یہ لوگ تجارت اور سیّاحت کی غرض سےاکثر براستہ کوہالہ مقبُوضہ کشمِیر اور ہِندوستان کا سفر کرتے تھے ۔
انگریز حکمرانوں نے جی پی او کے قریب کُلڈنہ روڈ پر 1934ء میں 32 بستروں پر مشتمل میُونسپل ہسپتال کا آغاز کیا اور ’’پرانا ہسپتال‘‘ (آج کی کوہسار یونیورسٹی کا خواتین کیمپس، یعنی پُرانا ڈگری کالج برائے خواتین) یہاں منتقل کر دیا گیا۔ یہ میُونسپل ہسپتال مری کے قریبی گاؤں روات کے نامور ٹھیکیدار و معمار کالا خان نے تعمیر کروایا جس کا سنگِ بُنیاد جے اے فرگوسن (J.A.Ferguson) کی اہلیہ نے 12 مئی 1934ء کو رکھ کر باقاعدہ افتتاح کیا ۔ اِسی میُونسپل ہسپتال کے دُوسرے بلاک کا سنگِ بُنیاد اے سی میکناب (A.C.Macnabb) کی اہلیہ نے 7 ستمبر 1934ء کو رکھا ۔ جبکہ اس میں آپریشن تھیٹر کا کمرہ مع سامانِ جراحی سیٹھ اِندرسین تھاپر نے اپنے دادا لالہ جِیوا رام صاحب تھاپر رئیسِ راولپنڈی کی یاد میں 1935ء میں تعمیر کروایا۔
1980ء یعنی قریباً نصف صدی کے بعد تک بھی یہ 32 بستروں پر مشتمل ہسپتال ہی رہا ۔ 1980ء میں وزیرِ صحت ڈاکٹر بشارت جذبی نے اسے سو بستروں کا ہسپتال بنانے کا اعلان کیا تو اس کے لیے نیا بلاک بھی بنایا گیا ۔ پُرانے بلاک والی عمارت میں گرلز کالج بننے سے 100 بستروں کا یہ ہسپتال سمٹ کر 42 بستروں کا رہ گیا یعنی حُکمرانوں اور مقامی سیاست دانوں کی نا اہلیوں اور غلط حکمتِ عملیوں سے تعلیم کی آڑ میں صحت کو قُربان کر دیا گیا ۔ نئے بلاک کی تعمیر مُکمّل ہونے کے بعد اِسے داخل مریضوں کے لئے اِستعمال کیا جانے لگا ، جبکہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین والا بلاک ایڈمن آفس ، میڈیکل سٹور ، OPD اور سٹاف کے لئے بطور رہائش گاہ استعمال ہوتا تھا ۔ جب پُرانی عمارت میں باقاعدہ کالج کی کلاسیں 1983ء میں شُروع کر دی گئیں تو( چند عاقبت نااندیش سیاست دانوں کے فیصلے کے طُفیل) بیرونی مریضوں کا شعبہ تمام لیبارٹریوں سمیت نئی بلڈنگ میں منتقل کر دیا گیا اور ڈاکٹروں اور نرسوں کو اپنی رہائش گاہوں سے بھی محروم ہونا پڑا ، اور بہت سے ڈاکٹر احتجاجاً یہاں سے تبدیلی کرواکے چلے گئے ، سارا بوجھ نئے بلاک پر ڈال دیا گیا ۔ ہسپتال کے اصل زوال کا آغاز یہیں سے ہوا ۔ اگر آج بھی کوہسار یونیورسٹی کے لئے کوئی نئی عمارت تعمیر کر دی جائے اور ہسپتال کے پرانے بلاک کو بحال کر دیا جائے تو ہسپتال کے بہت سے رہائشی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں ہے کہ تحصیل مری کے دُور دراز، مضافات کے علاوہ مظفر آباد (آزاد کشمیر) تک کے مریض بھی اِس اُمید پر یہاں لائے جاتے رہے ہیں کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل اس شہر ، مری کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ہر قسم کی طِبّی سہولیات میسّر ہونگی ۔ لیکن اُس وقت اِن مریضوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اُنہیں یہاں کسی بھی طِبّی شعبہ کا سپیشلسٹ ڈھونڈے نہیں ملتا ، بلکہ اکثر اوقات تو ایمرجنسی کے شعبہ میں بھی آپ کا استقبال کوئی ڈسپنسر یا لیب اسسٹنٹ ہی کر رہا ہوتا ہے ، اب کوئی انپڑھ مریض کیا جانے کہ اُس کی زندگی کس کے رحم و کرم پر ہے ۔ اِس سب میں قصور کس کا ہے ؟ آئیے کِسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے کُچھ حقائق پر ایک نگاہ ڈالیں:
سہولیات : ۔ آج کا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ، جو 1981ء میں تعمِیر ہُوا ، قریباً 20 کنال رقبے پر مشتمل ہے، جسے دوبارہ سو بستر کا ہسپتال بنا دیا گیا ہے ، جبکہ عملی طور پر 84 بستر قابل استعمال ہیں گویا قریباً ایک صدی میں بھی یہ عملی طور پر 100 بستروں کا ہسپتال نہ بن سکا ۔ یہاں روزانہ اوسطاً 600 سے 800 بیرونی مریض جبکہ داخل مریضوں کی تعداد 80 تا 100 ہوتی ہے۔ ایمرجنسی میں دو تا اڑھائی سو مریض ہر روز مُستفید ہوتے ہیں ۔ لیبارٹری میں اوسطاً 350 ٹیسٹ 60 ایکسرے اور 100 الٹراساؤنڈ روزانہ ہوتے ہیں نِیز سی ٹی سکین کی مشین اہتمام کے مراحل میں ہے ۔ سو بِستروں کے اس ہسپتال میں ، بِستروں کی، مریضوں کی مناسبت سے تقسیم درج ذیل ہے ۔
1۔ ایمرجنسی (18) 2 ۔ زچہ و بچہ (14) 3 ۔ علاج بذریعہ ادویات (16) 4 ۔ بچگان (10) 5 ۔ آپریشن و سرجری (4) 6 ۔ ڈائیلاسز (6) 7 ۔ ڈینگی وغیرہ (20) 8 ۔ آپریشن تھیٹر (2) 9 ۔ اضافی بستر (2)
نوٹ: ۔ 1۔ بین الاقوامی ادارۂ صحت کے سر ٹیفکیٹ کے باوجود جِلدی امراض ، یرقان ، تپ دق ، گُردے مثانے ، جسمانی مساج و ورزش کے ذریعے بحالی ، امراضِ چشم اور دانتوں کے مریضوں و قیدی مریضوں کو رات رکھنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ۔
2 ۔ ہنگامی حالات سے نِمٹنے کے لئے ہسپتال کا سکیل 1 تا 15 کا تمام عملہ تربیت یافتہ ہے لیکن ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی اِسی تربیت کی ضرورت ہے ۔
3 ۔ صفائی کے لِئے (25 افراد) ، مرمت (3) حِفاظتی عملہ (15) ، دھُلائی (1) اور سی ٹی سکین کی بہتر خدمات پیدا کرنے کے لئے نِجّی کمپنیوں سے دو سالہ معاہدہ کیا گیا ہے ۔ ہسپتال انتظامیہ کی شکایت اور عدمِ اِطمینان پر حکومت اِن پرائیویٹ کمپنیوں کے مذکُورہ افراد کی ادائیگیاں روک سکتی ہے ۔ لہٰذا اب مذکُورہ شعبوں کا معیار مزید بہتر ہو رہا ہے ۔
4 ۔ واش رُوم (بیت الخلاء) کی تعداد کم جبکہ مریضوں اور لواحقین کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث صفائی تسلّی بخش نہیں رہ پاتی ۔ البتہ اب یہ شعبہ بھی بہتر نتائج دے رہا ہے ۔
ٹیسٹ و ادویات :1۔ ایمرجنسی کے مریضوں کو سو فیصد ادویات ہسپتال فراہم کر رہا ہے ، جبکہ بیرونی مریضوں کو ستّر فیصد ادویات ، ہسپتال یعنی حکومتِ پنجاب کی طرف سے دی جاتی ہیں ۔ قریباً 30 فیصد ادویات جو ہسپتال میں موجود نہ ہوں مریضوں کو بازار سے لینا پڑتی ہیں ۔
2۔ ڈینگی (اعصاب شِکن بُخار) یرقان (ہیپاٹائٹس) اور تپ دِق (ٹی بی) کے ٹیسٹ مُفت کیے جاتے ہیں جبکہ باقی ٹیسٹوں کے بازار سے 50 فیصد کم نرخ لیے جاتے ہیں جس کے لیے کسی سرکاری ملازم تک کو رعایت نہیں دی جاتی ۔
3۔ ماضی بعید و قریب میں سٹور میں موجود ادویات میڈیکل سٹوروں پر بیچ کر تبادلے میں گھریلو استعمال کا سامان لے جانا معمول رہا ہے جس میں ادویات پر سرکاری مہر لگنے سے 90 فیصد کمی آ چکی ہے ۔
سالانہ بجٹ :- اِس ہسپتال کے نام سالانہ دو کروڑ کا بجٹ جاری ہوتا ہے۔ جِس میں سے لیبارٹری ، ایکسرے ، شعبۂ دندان ، سٹیشنری، طباعت، فرنیچر اور کمپیوٹر سے مُتعلقہ سامان کی خریداری پر اخراجات کیے جاتے ہیں ، جبکہ ہر سال بجٹ کم ہونے کے باعث حکومت سے ڈیڑھ کروڑ مزید امداد لینا پڑتی ہے ۔
سِتم ظریفی یہ کہ ہسپتال کی سہولیات میں اضافہ کرنے کے بجائے موجود اسامیوں کو بھی مکمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اتنا بجٹ نہیں ہے کہ نہ صرف ہومیو پیتھک ڈاکٹر اور حکِیم کی خالی ہونے والی سیٹ پر نئی تعیناتی نہیں ہو رہی بلکہ پورے ہسپتال میں صرف ایک دائی ہے ۔ جب اُس کی 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ختم ہو جاتی ہے تو ایمرجنسی زچگی کے لیے تحصیل بھر کا واحد مرکزی ہسپتال اس نعمت سے محروم ہو جاتا ہے جب کہ یہاں کم از کم تین دائیوں اور پندرہ تربیت یافتہ نرسوں کے لیے بجٹ کی منظوری ناگزیر ہے ۔
ڈائیلاسز مشینوں کی چوری :-
ہسپتال کی نیک نامی کو مزید داغدار کرنے میں ڈائیلاسز مشینوں کی چوری کا واقعہ لکھتے ہوئے بھی ندامت ہوتی ہے کہ اس کا مرکزی مجرم ایک ڈاکٹر (شمس زمان) تھا ۔ اُس وقت کے ایم ایس عبد السلام عباسی کی کوشِشوں سے محکمانہ کارروائی ہوئی تو پولیس نے لاہور سے تینوں مشینیں برآمد کروائیں جو آج ہسپتال میں زیرِ استعمال ہیں اور عوام کو ڈائیلاسز کی سہولت دستیاب ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مذکُور کو معطّل کر کے ہمیشہ کے لیے نشانِ عِبرت بنانے کی بجائے اسے کہوٹہ میں ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا تھا ۔ سہولت کاروں کو کوئی سزا نہ دی گئی اور نہ ہی ان کی نشاندہی ہو سکی ۔ کیوں کہ تصوّر نامی مرکزی سہولت کار الیکٹریشن ہسپتال سے نوکری چھوڑ چُکا ہے ۔
60 ڈاکٹروں کا قضیہ اور ان کے پرائیویٹ کلینک :-
گُزشتہ دِنوں مری کے سوشل و پرِنٹ مِیڈیا میں اِس خبر کو نمایاں جگہ مِلی کہ ہسپتال میں 60 ڈاکٹر تعینات ہیں ، چار یا پانچ موجود ہوتے ہیں جبکہ باقی مُختلِف شہروں میں اپنے کلینک چلا رہے ہیں ۔ اِس معاملے کی جُزئیات سمجھے بغیر حقیقت واضح نہیں ہو سکتی ۔ ہسپتال کے کُل 130 مُلازمین کے عملے کی تفصیلات اسی تحقیقی مقالے کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹروں کی کل آسامیاں 65 ہیں جن میں سے 49 پُر ہیں اور 16 آسامیاں ابھی تک خالی ہیں۔ یہاں تین مرکزی شعبے 1۔ شعبہ بیرُونی مرِیضاں 2۔ شعبۂ داخل مرِیضاں اور 3۔ شعبۂ حادثات یعنی ایمرجنسی ہیں ۔ ان میں تین شِفٹوں میں کام ہوتا ہے ۔ اگر ہر شعبے میں 10 سے 15 مُعالِج کام کریں تو یہ تعداد قریباً پوری ہو جاتی ہے۔ تین چار ڈاکٹر انتظامی اُمُور میں معاونت یا رُخصت کے باعث مصرُوف ہو سکتے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ اگر یہ سب ڈاکٹر اپنی ذِمّہ داریاں باقاعدہ نِبھائیں تو ایک وقت میں تِینوں شعبوں میں 10 سے 15 ڈاکٹر بہتر کارکردگی دِکھا سکتے ہیں لیکن عوام اور ناقدین کا کہنا ہے کہ کسی ایک شعبے میں بھی ، کبھی بھی مذکُورہ ڈاکٹر موجود نہیں پائے گئے ، مجمُوعی طور پر پورے ہسپتال میں چار پانچ سے ہی کام چلایا جا رہا ہوتا ہے اور باقی اپنے اپنے پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں ۔ عوام کو شکایت ہے کہ ہم ان کے پرائیویٹ کلینکوں سے بھی واقف ہیں ، جہاں یہ ہسپتال کے اوقات میں کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ دراصل اُستاذ ، ڈاکٹر یا نرس بے لوث خِدمت کی فِطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں ، بنائے نہیں جا سکتے ۔ والدین کی خواہش اور پیسے کمانے کے لیے جب کوئی پیشہ اپنایا جاتا ہے تو اُس کے نتائج وہی ہوتے ہیں جِن کا آج ہمیں سامنا ہے ۔
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ حکومت ڈاکٹروں کی تعیناتی کے وقت اُن سے تحریری معاہدہ کرتی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران آپ ایک مخصوص مُدّت تک پرائیویٹ کلینک نہیں چلا سکتے ، جبکہ اِن ڈاکٹروں کا مؤقف یہ ہے کہ ہم ہسپتال میں اپنے ڈیوٹی اوقات پُورے کرنے کے بعد کلینک چلاتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو جو اساتذہ اور ڈاکٹر خدمت اور عبادت کے نام پر حصولِ دولت کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں ، وہ فِطری طور پر مُعلّم اور مُعالِج ہوتے ہی نہیں ہیں ، دراصل اِن کے لِبادے میں پراپرٹی ڈیلر اور کمیشن ایجنٹ ہمارے درمیان آچکے ہیں ، اِن کی نشاندہی انتہائی ضروری ہے ۔
ہسپتال اوقات میں اپنے کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کے خِلاف جب ہسپتال انتظامیہ شِکایت کرتی ہے تو وہ اپنا تبادلہ کروا لیتے ہیں ۔ چونکہ یہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں لہٰذا حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتی ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیچر یونین اور وُکلاء کی طرح ڈاکٹر برادری بھی مافیا بن چکی ہے ۔ اِنسانیت کی خدمت کے نام پر ادویات ساز کمپنیوں سے مراعات ، قِیمتی تحائف اور مع اہلِ خانہ ، پُرتعیّش غیر ملکی دورے اس پیشے پر بدنما داغ ہیں ، ایسے ڈاکٹروں کے خلاف لاکھوں کا جرمانہ کم سزا ہے ۔ اِنہیں عوام کی صحت سے کھیلنے کا حق نہیں دینا چاہئے ، بلکہ یہ شعبہ مُخلص اور فطری ڈاکٹروں کا حق ہے ۔
اِنتظامیہ اور اہلِ مری سے شکایت:
1۔رہائش :- اِس وقت ہسپتال کے عملے سمیت ڈاکٹروں و نرسوں کے لئے رہائش کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے ، لہٰذا کوئی ڈاکٹر اور نرس مری میں خوشی سے رہنے کے لیے تیّار نہیں ۔ اگر کوئی دُوسرے شہر سے اپنا کرایہ خرچ کر کے روزانہ مری آکر کام کرے اور واپس جائے تو تھکاوٹ ، وقت کے ضیاع اور اضافی اخراجات اسے ایک متوازن ڈاکٹر نہیں رہنے دیتے ۔ نیز ڈبل شفٹ میں کام کرنے والے ڈاکٹر سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ تھکاوٹ اور نیند کے باوجود ایک خُوش اخلاق اور حاضر دماغ ڈاکٹر کی طرح اپنے فرائض نبھا سکے ۔ چُونکہ مقامی رہائش نہ ملنے پر یہ ڈاکٹر اپنے فرائض درُست طریقے سے نہیں نِبھا پاتے ، لہٰذا مری میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے ایک ہاسٹل کا قیام ناگزیر ہے ۔ اِس وقت ہسپتال میں کل 8 نرسیں کام کر رہی ہیں جب انہیں تین شفٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو آپ خود اندازہ کر لیں کہ 2 نرسیں پورے ہسپتال کے تِین شعبوں کے کاموں میں کیسے مدد فراہم کر سکتی ہیں؟ ان کی رہائش کا بندوبست از بس ضروری ہے کیونکہ مری کے رہائشی کرائے دینا اب رزقِ حلال میں مُمکِن نہیں رہا ۔
2 ۔ سیاسی ، صحافتی اور افسرانہ پروٹوکول :-
ہمارے افسران، سیاسی کارندوں اور نام نہاد صحافیوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ خُود ہسپتال آئیں یا اِن کے منظورِ نظر افراد آئیں وہ خصُوصی توجہ اور سہولیات کا تقاضا کرتے ہیں ، اِس سے ہسپتال کے کاموں کی رفتار متاثر ہوتی ہے اور حقدار مریضوں کی بھی حق تلفی ہوتی ہے ۔
3 ۔ ڈاکٹروں کی تنخواہیں :-
ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی تنخواہ سوا لاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے جبکہ میڈیکل سپریٹنڈنٹ جو سارے ہسپتال کو کامیابی سے چلانے کے لیے نہ صرف اپنی صحت ، وقت اور بچوں کے حقوق کی قربانی دے رہا ہوتا ہے اور کام نہ کرنے والے عملے کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی ذِمّہ داریوں ، وسائل اور اختیارات سے نا آشنا عوام اور افسران کی مخالفت بھی برداشت کر رہا ہوتا ہے ، اِس کی مالی ذِمّہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں، اِس کی تنخواہ تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار بنتی ہے جبکہ سپیشلسٹ ڈاکٹر ، تِین لاکھ کے قریب تنخواہ لے رہے ہیں ۔
ریفر ہسپتال بننے کی وجوہات :-
اہلِ مری کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہر مریض کو ابتدائی طِبّی امداد دے کر راولپنڈی یا اِسلام آباد کیوں بھیج دیا جاتا ہے ؟ دراصل جِس طرح ایک اچھے فوجی کمانڈر کو اسلحے اور تربیت یافتہ معاون فوجیوں کے بغیر محاذِ جنگ پر بھیج دیا جائے تو وہ جنگ لڑ ہی نہیں سکتا ، اِسی طرح صحت کے میدان میں یہ جنگ تربیت یافتہ نرسوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی ۔ تربیت یافتہ نرسوں اور دیگر عملے کے بغیر محکمہ صحت بھی آپریشن وغیرہ کی اجازت نہیں دیتا ۔
بیالوجی میں میٹرک پاس طلباء و طالبات کو اِس ہسپتال میں دو سالہ ڈسپنسر ٹریننگ دے کر انہیں اب ایف ایس سی کی ڈگری دی جا رہی ہے ۔ اِس طرح یہ ڈگری حاصل کر کے وہ ایم بی بی ایس تک میں داخلہ لے سکتے ہیں ۔ اگر ٹی ایچ کیو میں یہ قریباً 20 طلباء و طالبات نہ ہوں تو نرسوں کے بغیر ہسپتال چلانا مشکل ہو جائے ۔ محکمہ صحت اور حکومت اِس حکمتِ عملی میں مُکمّل طور پر ناکام نظر آرہی ہے ۔ مذہبی پیشوائوں اور مقامی سیاست دانوں کو توسیاسی اور سماجی شعور کے لیے دوبارہ سکولوں میں داخل کروائے جانے کی ضرورت ہے ۔
تحصیل مری میں موجود بی ایچ یو (بنیادی مراکزِ صحت) کی سہولتوں اور عملے کا اضافہ کر کے تحصِیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پر پڑنے والا اِضافی بوجھ کم کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ پہلے تو اِس ہسپتال تک مریضوں کی رسائی بہت مشکل ہے ۔ دورانِ سیزن تو جی پی او چوک تک پہنچنے اور یہاں سے گُزرنے کے لیے گھنٹوں ٹریفک بند رہتی ہے جس وجہ سے کوہالہ، کوہٹّی کاکڑائی اور ایوبیہ جیسے دُوراُفتادہ علاقوں سے خصوصاً قلب و زچگی کے مریض بمشکل ایک ڈیڑھ بجے تک ہسپتال پہنچ پاتے ہیں ۔ یہ وقت ایمرجنسی کے ہسپتال اوقات کے ختم ہونے کا ہے لہٰذا ان مایوس مریضوں کو راولپنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے یا پھر کمِیشن کی خاطر مقامی پرائیویٹ ہسپتالوں کو بیچ دیا جاتا ہے ۔
مری کے اِس ہسپتال کے ساتھ پہلا ظُلم تو اُس وقت ہوا جب اِس کی پُرانی عمارت کو کالج کے حوالے کر کے عملے کو رہائش کی سہولت سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہوٹل قبضہ مافیا کو ہسپتال سے ملحقہ قطعاتِ اراضی پر قابض ہونے کا موقع دیا ۔ دُوسرا ظُلم حکومتِ وقت نے ابوظہبی روڈ پر وزیرِ صحت ریسٹ ہاؤس اور ڈاکٹروں کے ہاسٹل کو ختم کر کے کیا ۔ دونوں مذکُورہ مظالم کرتے وقت وعدہ کیا گیا کہ 2016ء میں نئی رہائشیں بنا کر عملے کے حوالے کر دی جائیں گی لیکن آج دس سالوں سے سارا عملہ کرائے کے گھروں پر دربدر ہو رہا ہے ۔ تِیسرا ظُلم مقامی سیاستدانوں کی نگرانی میں ہوا جب جھیکا گلی ، ڈیری فارم کے قریب 200 بِستروں کے شاندار ہسپتال کا سنگِ بُنیاد موجُودہ وزیراعظم شہباز شریف نے رکھا لیکن مقامی سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی نااہلی اور نون لیگ کے مُشیر راجہ اشفاق سرور کی غیر ذِمّہ داری کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان اس ہسپتال کا بجٹ ٹیکسلا کے لیے منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔
شعبۂ دندان و چشم :-
آج کل ہسپتال میں درج بالا دونوں شعبے ماہر ڈاکٹرز کی نگرانی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ مُتعدّد مریض روزانہ کی بنیاد پر اِستفادہ کر رہے ہیں ۔
شعبہ ایمرجنسی :-
حیرانی کی بات ہے کہ شعبۂ حادثات میں کوئی ماہرِ امراضِ قلب یا سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود نہیں گویا ایمرجنسی زیرِتربیت ڈسپنسروں کے رحم و کرم پر ہے کیونکہ ایمر جنسی میں موجُود نااہل و نالائق میڈیکل افسران جِس ’’ای سی جی‘‘ رپورٹ کو ٹھیک قرار دیتے ہیں ، راولپنڈی میں امراضِ قلب کے ماہرین اُسی سے ہارٹ اٹیک کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔
سینیٹری ورکر یا خاکرُوب :-
خاکرُوب ہسپتال کی بُنیادی ضرُورت ہے کیُونکہ صفائی کے بغیر ہسپتال کا تصوّر نہیں کِیا جا سکتا ۔ اِس ہسپتال میں خاکرُوب کی کُل دس اسامیاں موجُود ہیں ، چار اسامیاں پُر ہیں جبکہ چھ اسامیاں خالی ہیں ، یہ تو موجُود خاکرُوبوں کی ہِمّت ہے کہ وہ دس افراد کا کام کر رہے ہیں جبکہ یہ خالی اسامیاں حکومتِ وقت کی غیر ذِمّہ داری کا مُنہ بولتا ثبُوت ہے۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے عملے کی تفصیل :-
اِسے سمجھنے کے لِئے عُہدے یا نام اسامی کے بعد پہلے ہِندسے کو تعداد اسامی دُوسرے ہِندسے کو اسامی کا سکیل تیسرے ہِندسے کو موجُود اسامی یا عہدےدار جبکہ چوتھے ہِندسے کو خالی اسامی کی تعداد تصوّر کِیا جائے ۔
1۔ میڈیکل سپریٹنڈنٹ(ایم ایس)01 ، 19 ، 00 ، 01
2۔ ایڈیشنل پرنسپل میڈیکل آفیسر (مردانہ) 01 ، 19 ، 01 ، 00
3۔ ایڈیشنل پرنسپل میڈیکل آفیسر (زنانہ) 01 ، 19 ، 00 ، 01
4۔ سینئر کنسلٹنٹ 01 ، 19 ، 01 ، 00
5۔ گائناکالوجِسٹ (ماہر زچہ و بچہ) 03 ، 18 ، 03 ، 00
6۔ سرجن (ماہرِ جراحت) 01 ، 18 ، 01 ، 00
7۔ فزیشن(ماہرِ ادویات) 01 ، 18 ، 01 ، 00
8۔ چائلڈ سپیشلِسٹ ( ماہر بچگان)03 ، 18 ، 03 ، 00
9۔ ماہرِ انیستھِیزیا (ماہر بے ہوشی)02 ، 18 ،02 ، 00
10۔ماہر چشم (آئی سپیشلِسٹ) 01 ، 18 ، 01 ، 00
11۔ آرتھوپیڈک سرجن (ماہر ہڈی جوڑ)01 ، 18 ، 00 ، 01
12۔ پیتھالوجِسٹ( ماہر تشخیص) 01 ، 18 ، 01 ، 00
13۔ریڈیالوجِسٹ ( ماہر ایکسرے)01 ، 18 ، 01 ، 00
14۔ ماہر جِلدی امراض (ڈرماٹالوجِسٹ)01 ، 18 ، 01 ،00
15۔ ماہر امراض کان، ناک، گلہ (ای این ٹی سپیشلِسٹ)01 ، 18 ، 00 ، 01
16۔سِینئر ڈینٹل سرجن ( ماہر داندان ساز)01 ، 18 ،01 ، 00
17۔ سِینئر میڈیکل آفیسر (مردانہ) 06 ، 18 ، 02 ، 04
18۔ سینئر میڈیکل آفیسر سِینئر(زنانہ)05 ، 18 ، 04 ، 01
19۔ میڈیکل آفیسر(مردانہ) 11 ، 17 ، 08 ، 03
20۔ میڈیکل آفیسر(زنانہ) 14 ، 17 ، 14 ، 00
21۔ ڈینٹل سرجن(دندان ساز) 04 ، 17 ، 04 ، 00
22۔ فارماسِسٹ(ماہرِ ادویات) 01 ، 17 ، 00 ، 01
23۔ ایمرجنسی میڈیکل آفیسر 03 ، 17 ، 00 ، 03
24۔ ہیڈ نرس 03 ، 17 ، 03 ، 00
25۔ چارج نرس 13 ، 16 ، 08 ، 05
26۔ سِینئر ہومیوپیتھک ڈاکٹر 01 ، 17 ، 00 ، 01
27۔ ڈیٹا اِنٹری آپریٹر 01 ، 11 ،01 ، 00
28۔ لیب اسسٹنٹ 01 ، 09-14 ، 01 ، 00
29۔ ٹیکنیشن 01 ، 09 ، 01 ، 00
30۔ ایل ایچ وی(لیڈی ہیلتھ وزٹر) 01 ، 09 ، 00 ، 01
31۔جونیئر ٹیکنیشن ڈِسپنسر 04 ، 09 ، 04 ، 00
32۔ آپریشن تھیٹر اسِسٹنٹ 01 ، 09 ، 01 ، 00
33۔ ایکسرے اسسٹنٹ 01 ، 09 ، 01 ، 00
34۔ ہومیوپیتھک ڈِسپنسر 01 ، 06 ، 01 ، 00
35۔ دھوبی 01 ، 01 ، 01 ، 00
36۔ ٹیوب ویل آپریٹر 01 ، 03 ، 01 ، 00
37۔ لیب اٹینڈنٹ 01 ، 02 ، 01 ، 00
38۔ وارڈ سرونٹ 08 ، 01 ، 08 ، 00
39۔ نائب قاصد 03 ، 01 ، 02 ، 01
40۔ ایکسرے اٹینڈنٹ 01 ، 02 ، 00 ، 01
41۔ درزی 01 ، 03 ، 01 ، 00
42۔ دائی 01 ، 01 ، 01 ، 00
43۔ وارڈ آیا 01 ، 01 ، 01 ، 00
44۔ باورچی 02 ، 01 ، 02 ، 00
45۔ بیلدار 02 ، 01 ، 02 ، 00
46۔ چوکیدار 03 ، 01 ، 03 ، 00
47۔ دوا کوب 01 ، 01 ، 01 ، 00
48۔ گیٹ کِیپر(دربان) 01 ، 01 ، 01 ، 00
49۔ سینٹری ورکر(خاکرُوب) 10 ، 01 ، 04 ، 06
کُل موجُود عملے کی تعداد 130 موجُود 99 خالی اسامیاں31۔
نوٹ : ان اسامیوں پر آئے روز کمی بیشی ہوتی رہتی ہے تاہم یہ اعداد و شمار دسمبر 2024ء کے ہیں۔
ڈِسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ، مری DHQ اور ہسپتال بناؤ تحریک مری :-
اگر آپ ایک غریب گھرانے کی بیٹی کو اپنے خاندان میں آباد کرنے کی اِستطاعت نہیں رکھتے تو ایک صاحبِ ثروت بیٹی کو کیسے بسا پائیں گے ؟
تحصِیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے حالتِ زار ، ڈیری فارم کے قریب ہسپتال کا قضیہ اور کوہسار یونیورسٹی کی بد اِنتظامی ہمارے سامنے ہے جہاں کالجوں کو غیر آباد کر کے یونیورسٹی کو آباد کرنے کی ناکام کوشِش کی جا رہی ہے ، اِن حالات میں پہلے موجُود ہسپتال کو ڈھنگ سے آباد کرنے کی بجائے گورنمنٹ ضلعی ہسپتال کے دعوے کر رہی ہے اور سیاسی و سماجی ٹھیکیدار اپنی چوھدراہٹ قائم کرنے کے لئے ” ہسپتال بناؤ تحریک” چلا رہے ہیں ۔ کہیں اِس کا حال بھی کوہسار یونیورسٹی جیسا نہ ہو جہاں کبھی بھی حسبِ ضرُورت فیکلٹی (اساتذہ) مُکمل نہیں ہو سکی ، ٹھیکے پر اساتذہ کو رکھا جاتا ہے جو کبھی بھی دِلچسپی سے نہیں پڑھا سکتے ۔