راحمہ کی موت کا زمہ دار کون؟
راحمہ 7 سال کی ہنس مکھ بچی تھی اور اپنے گھر کے قریب گورنمنٹ سکول میں تیسری جماعت کی ذہین طالبہ تھی۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی حیثیت سے لاڈلی اور عزیز بھی تھی۔
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے ایک روز پہلے کی بات ہے۔ آخری پیریڈ تھا۔ اور چھٹی ہونے میں دس منٹ باقی تھے۔ استانی صاحبہ اپنے رعب کے ساتھ کھڑی تھیں اور بورڈ پر تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھیں۔ بچے خاموشی سے لکھنے میں مصروف تھے۔ راحمہ کو رفع حاجت پیش آئی۔ جب بات کنٹرول سے نکلی تو اس نے استانی کو پکارا۔ استانی نے مڑ کر دیکھا تو راحمہ فقط اپنی چھوٹی انگلی ہی اٹھا پائی۔
استانی نے جانے کی اجازت دی تو وہ گویا دوڑتی ہوئی سکول کے پچھلی طرف بنے واشرومز میں چلی گئی۔
ابھی اسے گئے چند ہی لمحے ہوئے تھے کہ چھٹی کی گھنٹی بج اٹھی۔ وہ رفع حاجت سے فراغت کے بعد اٹھی اور دروازے کو باہر دھکیلا، مگر یہ کیا۔۔۔ دروازہ باہر سے بند تھا۔ راحمہ نے دوبارہ دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر سب بے سود۔ کوئی شرارتاً دروازہ باہر سے بند کر گیا تھا۔ خوف کے مارے راحمہ چلائی مگر اس کی آواز بند دروازے، اور چھٹی کی خوشی میں چیختے چلاتے گھروں کو جاتے بچوں کی آوازوں میں دب گئی۔
دوسری طرف راحمہ جب وقت پر گھر نہ پہنچی تو اس کے ماں باپ کو فکر ہوئی۔
راحمہ کے ماں باپ نے اپنے طور پر ہر جگہ اسے ڈھونڈا۔ اس کی سہیلیوں کے گھروں میں معلوم کیا۔ پولیس میں رپورٹ لکھوادی گئی، اس کی استانیوں تک رسائی حاصل کی گئی۔ پولیس اور سکول کی پرنسپل کے ہمراہ ماں باپ نے تلاش کے لئے سکول کھلوایا۔
جبکہ اسکول کی پرنسپل اس بات کے شدید خلاف تھی۔ اور اس بات پر بضد تھی کہ بچی کسی سہیلی کی طرف یا ماں باپ کی کسی بات سے خفا ہو ک کسی عزیز کے گھر چلی گئی ہوگی۔
بہرحال چوکیدار اور پرنسپل کی نگرانی میں سکول کی تلاشی دلوا دی گئی۔ ماں باپ اور دیگر لوگوں نے راحمہ کا نام پکار پکار کر اسے پورے سکول میں تلاش کیا۔ مگر سکول کے واشرومز تک کسی کا دھیان نہیں گیا۔ نہ ہی چوکیدار نے اس طرف راہنمائی کی۔ جانے خدا ننھی راحمہ تب تک دروازہ پر ٹکریں مار مار کر بے ہوش ہو گئی ہو۔۔۔ اسے پتہ ہی نہ چلا ہوگا کہ اس کے ماں باپ اسے سکول میں تلاش کرنے آئے ہوئے ہیں۔
وہ دن گزرا۔ اگلے دن سے یوں بھی تین ماہ کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں۔
سکول 3 ماہ کے لئے بند ہو چکا تھا۔
پولیس بچی تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ یوں معاملہ دب گیا۔
وہ ایک روشن صبح تھی۔ بچے 3 ماہ کی چھٹیاں گزار کر سکول میں ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ استانیاں ہنسی مذاق میں مصروف تھیں گویا عید کا دن ہو۔ ایسے میں پرنسپل کی نگرانی میں سکول کی آیا بند کمرے، کچن اور واشروم کے تالے کھلوا رہی تھی۔ واشروم کے دروازے پر پہنچ کر ایک لمحے کو دونوں رک گئیں۔ بے شمار چیونٹیاں قطار در قطار دروازے کے نیچے سے آجا رہی تھیں۔ اتنی بہت سی چیونٹیاں دیکھ کر پرنسپل گھبراگئی۔ آیا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو اس نے جو منظردیکھا۔ اسے ابکائی آگئی۔
اندر ایک 7 8 سال کی بچی کے جسم کی لاش پڑی تھی جسے کافی حد تک چیونٹیاں کھا چکی تھیں۔ کہیں کہیں گوشت پوست باقی تھا جبکہ کافی جگہ سے ڈھانچے کی ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ جبکہ چہرہ بھی گل سر چکا تھا۔ پہچاننا مشکل تھا۔
پرنسپل کو راحمہ یاد آگئی۔
اس کے ماں باپ کو بلوایا گیا۔
فوراً پولیس بھی پہنچ گئی۔
ماں باپ تو ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ یہ راحمہ ہے۔
مگر اس کے سکول بیگ، کپڑوں اور کتابوں پر لکھے نام اور لکھائی سے پہچان لیا گیا کہ وہ ننھی راحمہ ہی تھی۔
جہاں راحمہ کی لاش ملی تھی وہاں واشروم کی دیوار پر پینسل سے کچھ جملے تحریر تھے۔ بہت غور کے بعد وہ پڑھے گئے۔
لکھا تھا:
” ماما بابا دروازہ کھولیں۔ مجھے آپ کے پاس آنا ہے "
” یہاں بہت اندھیرا ہے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے "
مجھے بھوک لگ رہی ہے ماما مجھے کھانا لا دیں "
جس وقت پڑھنے والے نے یہ جملے دہرائے۔ راحمہ کی ماں غم سے نڈھال ہو کر غشی سے زمین پر جس پڑی۔ باپ بے سروساماں آسمان کو تکنے لگا۔ عین اسی وقت سکول کی پرنسپل کی آنکھ سے دو آنسو نکل کر گال پر لڑھک گئے۔ مگر اب ان آنسوؤں کی کیا وقعت۔۔ اسے وہ وقت ضرور یاد آیا ہوگا جب راحمہ کی تلاش میں آنے والے اس کے ماں باپ کی مدد کرنے سے اس نے صاف انکار کر دیا تھا اور سکول کی تلاشی لینے کی مخالفت کی تھی۔
پولیس کی از سرِ نو چھان بین کے دوران سکول کی پرنسپل سے لے کر چوکیدار تک ہر کوئی الزام دوسرے پر ڈالتا رہا۔ کسی نے ذمہ داری لینا گوارا نہیں کیا۔
پولیس کی ایف آئی آر کے بعد پرنسپل کا تو سکول سے تبادلہ ہوگیا۔ مگر بہت سارے سوال ہیں جن کا جواب نہیں ہے،،،
کیا سکول کی پرنسپل کے تبادلے سے راحمہ واپس آجائے گی؟
آخر راحمہ کا کیا قصور تھا؟
کیا اس بچی کا قصور یہ تھا کہ چھٹی کے وقت وہ اپنی حاجت پر کنٹرول نہ رکھ پائی؟
راحمہ کے ماں پاب اپنی لاڈلی اکلوتی ننھی جان کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟
عموماً سکول بند ہونے کے بعد چوکیدار یا متعلقہ عملے کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ واشروم، کچن، اسٹور وغیرہ چیک کرتے ہیں پھر دروازے لاک کرتے ہیں۔ لیکن یہاں چوکیدار یا متعلقہ عملے نے قصوروار پرنسپل کو ٹھہرایا کہ انہوں نے کبھی ایسا کرنے کو کہا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
اگر سکول کالج کے اساتذہ میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو ان سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ چھٹی کے بعد چوکیدار،سکول کی آیا کے ہمراہ ایک بار ضرور بند دروازوں کو کھلوا کر دیکھ لیا کریں۔ شرارت میں بچے ایک دوسرے کو دروازوں کے پیچھے بند کر کے بھول ہی جاتے ہیں۔ لیکن اگر بڑے بھی اس چیز کو سنجیدہ نہیں لیں گے تو ان میں اور بچوں کے بچپنے میں کیا فرق باقی رہ جائے گا