موت ۔۔۔۔ ابدیت کے ساتھ چہل قدمی !
موت ۔۔۔۔ ابدیت کے ساتھ چہل قدمی
ابدیت کا لمحہ۔۔۔ ابدیت زمان و مکان کی وہ کیفیت ہے جس میں ہم فطرت کے ساتھ مخلوط ہوتے ہیں ہم محض اس ہاتھ کے لمس کی انرجی کے زیر اثر ہوتے ہیں، جس نے ہمیں تخلیق کے چاک سے چند لمحوں کے لیے اتارا ہوتا ہے۔ یہ چند لمحے ابدیت کے ان زمانوں میں سانس لینا ہے۔ جس کے تجربے سے صرف روشنی کی قوت سے معمور دل گزر سکتے ہیں۔
موت ۔۔۔۔ موجود ہی باقی ہے کے بنیادی محرک کی وسعت پذیری اور آواگون ہے۔۔
یہ ایک طاقتور شعور کی وارث ہے۔
ایسا شعور جو متحرک اور جنگ آزما ہے۔
زندگی بقا کی جدوجہد اور مابعدالطبیعیات فنا کے خوف سے بچنے کا امکان اور آسرا ہے۔
اس کے درمیاں موت کا تصور ہے۔ جو ایک طاقتور شعور کے طور پر انفرادی اور اجتماعی سوچ اور کلچر کو متاثر کر رہا ہے۔۔۔
زندگی کے شعور ہونے کے کائناتی زمانوں میں موت کے زندگی میں ڈھلنے کے سفر کا انت نہیں ۔۔۔
ہم اس شعور اور اس تصور کی قوت مدرکہ اور اس سے متاثر ہوتی نفسیات سے چھٹکارا نہیں پا سکتے ۔
اسے محبوب رکھیں یا اس کے تصور سے لرزتے رہیں۔ زندگی سے زیادہ ہمیں متاثر کرنے والی قوت موت ہے۔۔ کتنی ہی سانسیں، مابعد مرگ کے خوابوں کے ساتھ بند ہوئیں۔۔۔
اور کتنے ہی دماغوں کے طاقتور خلیے اپنی توانائی کی آخری جھلک یا لہر چھوڑ کر کہیں اوجھل ہو گئے ۔۔
موت کو محبوب رکھنے کے اثرات اور اس سے بچنے کے امکان تلاشتے شعور کی کارستانی ہمارے سامنے ہے۔
زندگی کا شعور مسلم ہے۔ تو شعور کے درجہ میں موت بھی اپنا مقام اور اثر رکھتی ہے۔ جس سے وابستہ تصورات پوری ایک کائنات اور اس میں موجود زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ لمحہ مرگ مذہبی تعلیمات میں برزخ اور مابعد الطبیعیات اسی تصور سے وابستہ ہے۔۔
خیال کیا جاتا ہے۔اور اس خیال کی طاقت کے سائے میں آبادیاں اور نسلیں پروان چڑھتی ہیں کہ موت کے دریچے سے آگے جو کائناتی شعور ہے وہاں وقت کا یہ تصور یقینا نہیں ہوگا۔۔
کائنات کی اب کی معلوم اور حیرتوں سے دوچار کرتی وسعت اور نت نئی کائناتوں کی تخلیق کی دریافت اس سمت خیال کی پرواز کو لے جاتی ہے کہ کہیں اسی کائنات کی وسعت میں ہی موت کے بعد کی زندگی کی تشکیل و تعمیر نہ ہو رہی ہو۔ جہاں وقت موجودہ استعاروں سے کہیں الگ اور نئی تعبیر کے ساتھ موجود ہو۔۔۔
فنا سے الجھے ہوئے لوگ بقا کی امید موت سے گزرے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔۔
بقا کی آرزو انسان کی جبلتوں میں کچھ اس طرح ہے کہ اس نے تمام مذہبی اور الہیاتی فلسفہ اپنی بقا کی آرزو کے لیے گوارا کیا ہوا ہے۔۔
ہر خیال ایک انرجی ہے۔۔ ہر نظریہ توانائی کا ایک پیکٹ ہے۔۔ جسم سے لہریں خارج ہوتی ہیں۔۔ سب سے طاقتور ریز دماغ سے خارج ہوتی ہیں اور ایک کائناتی ریڈنگ یہ سب ریکارڈ کر رہی ہے۔ ہر تصور سے وابستہ انرجی جو انسانی شعور سے معنویت پاتی ہے۔
زمیں پر خلائی مخلوق کا حملہ ہو چکا ہے
عجائبات دنیا میں ہمارے اندازوں کو اہرام کی تعمیرات ہی مات کر چکی ہے۔ آٹھواں براعظم ڈسکس ہو رہا ہے۔۔۔۔ چھٹی حس سے انکار نہیں۔۔ خیال کی لہروں کی طاقت کا مظاہرہ بغیر کسی ڈیوائس کے ہو چکا ہے۔۔۔ کائنات امکانات کا خفیہ خزانہ بل کہ امکان کی ایک الگ کائنات اپنے اندر سموئے ہیں۔۔
ازل کا لمحہ تھا ۔۔ اور اب صرف ابد ہے۔ فنا کا خوف بقآ کے ہر امکان کو ٹچ کرے گا
انسانی تقدیر ہو یا نہ ہو انسانی تدبیر اور انسانی شعور میں اس طلب کے اثرات ازل سے موجود ہیں۔۔۔
کائنات میں سب سے بڑی حقیقت موت ہے ۔ جس کا شعور اس کشاکش کی اصل توانائی اور محور ہے۔۔۔۔آپ مذہب اور فلاسفہ نہ دیکھیں خود سے کہیں تنہائی میں مکالمہ کریں۔ موت کا شعور آپ کی امید اور یاسیت کا سب سے بڑا محرک ہے
موت ہمیں زندگی کے تعاقب میں سرگرم رکھتی ہے
اس کے لیے ہم جنم جنم کی پیاس اور جستجو پالتے ہیں۔ مابعدالطبیعیات دنیا ہو آواگون ہو یا کہیں مریخ پر زندگی کی تلاش۔۔
موت سے نجات کی تگ و دو میں ہم نے ہر انسانی ہنر کو لا کھڑا کیا ہے۔۔۔ حتی کہ سائنس کو بھی لگا دیا ۔۔ اب سائنس نئی دنیا، کائنات میں کسی زندگی کی تلاش اور تادیر زندہ رہنے کے خواب کی تعبیر کی جستجو میں ہے۔
موت ایسا طاقتور شعور ہے جس سے گھبرایا ہوا انسان کائنات میں موت کے خلاف سرگرم ہے۔
موت خوف کا وہ لمحہ ہے جو خیال کی ہر لہر کے ساتھ کچھ یوں تیرتا ہے کہ انسان اسی سے ٹکرا جاتا ہے۔۔۔ جسے شجاعت شہادت اور تابد کی زندگی کہا گیا۔۔ یہ شعور آرٹ اور تخلیق کا مضبوط ترین محرک ہے۔۔ ایک گہری طاقتور خواہش دور کہیں خیال کی پاتال میں لاوے کی طرح دہک رہی ہے۔۔ اور ہم اولاد پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔۔ قصر تعمیر کرتے ہیں۔ شاعری اور آرٹ کے نمونے چھوڑ جاتے ہیں۔۔ ہم موت کو رزق سے محروم نہیں کرتے ۔۔ فنا کے لیے بچے جنتے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ کسی امکان کو ترک کر دینے کا کیا مطلب ہے۔۔ ہمارا آرٹ وقت کی لہروں میں گم ہو جائے گا ۔۔لیکن پھر بھی کسی شاعر نے شعر ترک نہیں کیا اور آرٹسٹ کینوس پہ عکس آج بھی بناتے ہیں۔ ہومر، سیفو، اینجلو، سقراط ہمارے سامنے ہیں۔ زندگی کو موت کے خوف سے ایک قدم آگے چھوڑ گئے۔
موت ہی ہے جو بے قرار و بے چین اور امید و آس کے ساتھ زندگی کے کارگہ میں ہمہ دم جستجو رکھتی ہے۔۔۔
شعور انسان انرجی کی طاقتور شکل ہے۔۔
ایسا نہ ہوتا تو ہم یہ مکالمہ نہ کر رہے ہوتے۔۔ یہ سب کارستانیاں زندگی کی طلب میں تو بہت بعد میں ہیں۔ یہ موت کے خوف اور اس سے جڑے شعور کی وجہ سے پہلے ہیں۔۔
اسی لیے میں نے موت کو ایک طاقتور شعور کی وارث کہا ۔
ایسا طاقتور شعور جو مقید شعور سے رہائی اور کائناتی اور ابدی شعور تک رسائی دیتا ہے۔ ایسا شعور جو دم بہ دم متحرک اور جنگ آزما ہے۔
موت کا سامنا کرتے ہوئے یہ احساس بھی من کی دنیا سے اس لمحے کی حقیقت بن سکتا ہے
جب میں اس کو سامنا کروں گا
اس لمحے مجھے بھی افسوس نہ ہوگا
شاید میں کچھ زیادہ شگفتہ مزاجی میں بھی نہ دکھا سکوں
آگے ایک مہیب زمانے کے ناگ ہیں
ممکن ہے یہ گمشدگی ہو
بشارتیں نہ ہوں
پر مجھے پچھتاوے اوڑھ کر نہیں جانا
میں نسل انسانی کے خلاف کسی جرم کا حصہ نہیں رہا
اپنی تقدیس کے خناس سے نکل آیا
منصب خطا پر فائز ہوں
میں نے جانی ہوئی غلطی کا ازالہ کیا اور
ان جانی غلطیوں پر خود کو سزا دینے کی کوشش نہیں کی
کائنات اور فطرت کو محبت کی آنکھ سے دیکھا
میں نے
خدا کو احساس سے قریب پایا تو وہ بھی میری طرح مظلوم تھا
اس کے سر سے محبت کا تاج چھین کر
اسے خوف کے تخت پر بٹھا دیا تھا
ایسی سلطنت جس کی اس نے کبھی توثیق نہیں کی
خلاق کے ساتھ تخلیق کا جبر
انسان اور خدا کے تعلق میں مجسم ہے
سو بے بسی، بے حسی کے مقابل خاموش اور گھمبیر تھی
موت اس گھمبیرتا سے رہائی کا
ایک محفوظ راستہ ہے
امکان ہے
وہاں ابدیت ہو
زندگی اور خدا کے دکھ
وہاں نہ ہوں
وہاں اسرار اور تماثیل کے نئے رنگ ہوں
خدا ماں جیسا ۔۔۔۔اور ہم صرف بچے ہوں
(لفظ زاد)