top header add
kohsar adart

حکومتِ الہی …. علامہ محمد اقبال

 

بندۂ حق بے نیاز از ہر مقام
نے غلام او را نہ او کس را غلام

بندۂ حق ہر مقام سے بے نیاز ہے
نہ وہ کسی کا غلام ہے نہ کوئ اس کا غلام ہے

رسم و راہ و دین و آئینش ز حق
زشت و خوب و تلخ و نوشینش ز حق

اس کی رسم و راہ اور دین و آئین سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں
اس کا اچھا اور برا کڑوا اور میٹھا سب اللہ کی طرف سے ہے

عقل خود بین غافل از بہبودِ غیر
سود خود بیند نہ بیند سودِ غیر

خود کو دیکھنے والا عقل دوسروں کی خیر خواہی سے بے خبر ہے
وہ صرف اپنا فائدہ دیکھتی ہے کسی اور کا فائدہ نہیں دیکھتی۔

وحئ حق بینندۂ سودِ ہمہ
در نگاہش سود و بہبودِ ہمہ
حق تعالیٰ کی وحی (شریعت) سب کا فائدہ پیش نظر رکھتی ہے
اس کی نگاہ میں ہر ایک کی بہبود اور مفاد ہے۔

عادل اندر صلح و ہم اندر مصاف
وصل و فصلش لایراعی لایخاف

احکام وحی صلح و جنگ دونوں میں عدل پر مبنی ہیں
وہ دوستی و دشمنی میں نہ کسی کی رعایت کرتے ہیں نہ کسی کا خوف رکھتے ہیں۔

غیر حق چون ناہی و آمر شوَد
زور ور بر ناتواں قاھر شوَد

جب اللہ تعالیٰ علاوہ کوئی اور کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے (حکمران بنتا ہے)
تو اس سے طاقتور کمزور پر مسلط ہو جاتا ہے۔

زیرِ گردوں آمری از قاہریست
آمری از ما سویٰ ﷲ کافریست

روئے زمین پر حکومتیں جبر سے قائم ہوتی ہیں جو آمریت خدا کی حکمرانی سے ہٹ کر ہو وہ کافری ہے

قاہرِ آمر کہ باشد پختہ کار
از قوانین گردِ خود بندَد حصار

قہر و غضب ڈھانے والا مطلق العنان حکمران جو تجربہ کار ہوتا ہے
قوانین کے ذریعے اپنے ارد گرد قلعہ بنا لیتا ہے۔

جرّہ شاہیں تیز چنگ و زود گیر
صعوہ را در کارہا گیرَد مشیر

تیز پنجوں اور جلدی پکڑنے والا نر شاہین
ممولوں کو اپنے امور حکومت میں مشیر بناتا ہے۔

قاہری را شرع و دستورے دہد
بے بصیرت سرمہ با کورے دہد

جبر و تسلط کو قانون اور آئین کی صورت دیتا ہے
گویا اندھا اندھے کو سرمہ عطا کرتا ہے۔

حاصلِ آئین و دستورِ ملوک
دہخدایاں فربہ و دہقاں چو دوک

بادشاہوں کے آئین اور دستور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جاگیردار موٹے ہو جاتے ہیں، اور دہقان تکلے کی مانند نحیف اور کمزور ہوجاتے ہیں

 

 

 

واے بر دستورِ جمہورِ فرنگ
مردہ تر شُد مردہ از صورِ فرنگ

افسوس مغربی جمہوریت کے دستور پر
مغرب کی بانگ صور سے مُردہ زندہ ہونے کی بجائے اور زیادہ مُردہ ہو جاتے ہیں

حقہ بازاں چوں سپہرِ گرد گرد
از اُمم بر تختۂ خود چیدہ نرد

مغربی شعبدہ باز گردش کرنے والے آسمان کی بساط پر قوموں کو بطور مہرے رکھے ہوئے ہیں۔

شاطراں ایں گنج ور آں رنج بر
ہر زماں اندر کمینِ یک دگر

مغربی شاطر (شطرنج کے کھلاڑی) تو خزانے اکھٹے کرنے میں لگے ہوئے ہیں
اور یہ ہر لمحہ ایک دوسرے کی گھات میں ہیں۔

فاش باید گفتِ سرّ دلبراں
ما متاع و ایں ہمہ سوداگراں

محبوبوں کا راز کھل کر بیان کرنا چاہئے (اور وہ راز یہ ہے کہ) ہم مال و متاع ہیں اور یہ سب سوداگر ہیں

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More