کرنل کی ڈائری سے "سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی”
کرنل کی ڈائری سے
"سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی”
قارئینِ کرام کی پُرزور فرمائش پہ اضافی معلومات کے ساتھ
ہم شہرِ راولپنڈی کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن، ڈی بلاک میں واقع اپنے آبائی گھر میں وارد ہوئے۔ ہمارا وہ گھر شہر کی مشہور سکستھ اور ففتھ روڈ کے عین وسط میں واقع تھا۔ سکستھ روڈ کے بعد سیونتھ روڈ بھی ہوا کرتی تھی مگر ناجانے سیونتھ روڈ سے آگے اور ففتھ روڈ سے پہلے والی سڑکوں کا ذکر کبھی کیوں نہ سنا۔ سیونتھ روڈ بھی ہمیں اس لیے یاد رہی کہ اس پر مشہورِ زمانہ پوسٹ گریجویٹ کالج فار ویمن ہوا کرتا تھا بلکہ وہ اب بھی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ وہیں موجود ہے مگر راولپنڈی یونیورسٹی فار ویمن کے نام سے۔ ہمارے بچپن میں، مرحوم والدِ محترم جناب انوار فیروز اکثر وہاں منقعدہ مشاعروں میں بطورِ شاعر و صحافی مدعو ہوا کرتے۔ ان کا دعوت نامہ ہمیشہ مع اہل و عیال ہوا کرتا تو ہم بطور ننھے سامع ان کے ہمراہ ہو لیتے۔ جب ہم کچھ بڑے ہوئے تو مشاعروں کا انتظار کیے بغیر ہی بن بلائے ہر روز کالج کے باہر پہنچ جایا کرتے۔۔۔
سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی چونکہ راقم الحروف کی جائے پیدائش تھی تو اس سے بہت سی یادیں جڑی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ قارئینِ کرام جو کبھی بھی سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے مکین رہے ہیں اس تحریر کو پڑھ کر چشمِ تصور میں ضرور اپنے پرانے دور میں پہنچ جائیں گے اور عمرِ رفتہ کو یاد کریں گے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے حدود اربعہ کی بات کریں تو شمال میں اس کی حد راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم، مشرق میں صادق آباد، مغرب میں نیو کٹاریاں کے بعد نالہ لئی اور جنوب میں چاندنی چوک اور اصغر مال چوک ہیں۔ سیٹلائٹ ٹاؤن اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف، ‘این اے’ اور ‘این ڈبلیو’ بلاکس پہ مشتمل علاقہ ہے۔ دہلی کے چاندنی چوک کی مقبولیت کے بعد غالباً راولپنڈی کے چاندنی چوک کا ہی نمبر آتا ہے۔ مری روڈ پہ موجود چاندنی چوک سے ہی سیٹلائٹ ٹاؤن کی ایک حد شروع ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈے کا رن وے چاندنی چوک کے نزدیک خالی میدان سے جہاں اب پلازے اور دوسری عمارات تعمیر ہو چکی ہیں صاف دکھائی دیتا تھا۔ یوں چاندنی چوک کے نزدیک رہنے والے جہازوں کو پرواز کرتے اور اترتے باآسانی دیکھا کرتے تھے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کسی زمانے میں راولپنڈی کا ایک پوش علاقہ ہوا کرتا تھا۔ ہر چند کہ ہم اسی علاقے کے باسی رہے ہیں جس کا شمار اب بھی راولپنڈی کے مشہور علاقوں میں ہوتا ہے مگر اب یہ علاقہ پوش نہیں رہا بلکہ اب تو شاید سفید پوشی ہی باقی رہ گئی ہے۔ سچ پوچھیں تو سیٹلائٹ ٹاؤن کا اصل مطلب جاننے سے پہلے ہم سیٹلائٹ سے مراد کوئی سیارہ ہی لیا کرتے تھے۔ مگر اب اس علاقے کی حالتِ زار، سڑکوں میں پڑے گڑھے اور جگہ جگہ کھڑے پانی کو دیکھ کر معلوم پڑتا ہے کہ یہ واقعی کوئی سیارہ ہی ہے جہاں اچھل اچھل کر چلنا لازم ہے اور آکسیجن بھی کم ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے ہر بلاک میں دو سے تین بڑی اور چھوٹی چھوٹی بہت سی مساجد قائم تھیں۔ ان میں جامعہ رضویہ ضیاء العلوم، مدنی مسجد، مکی مسجد، عرشی مسجد، الفرقان مسجد، اقصیٰ مسجد، مظفر مسجد، مدرسہ ملیہ اسلامیہ اور علی مسجد قابلِ ذکر ہیں۔ محرم الحرام کے دوران سیٹلائٹ ٹاؤن ڈی بلاک کی مرکزی امام بارگاہ یادگارِ حسین میں مجالس برپا ہوا کرتیں اور عاشورہ کا جلوس انتہائی عقیدت و احترام سے نکالا جاتا۔ اہلِ علاقہ آپس میں ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کیا کرتے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن میں اسماعیلی برادری کا جماعت خانہ بھی موجود ہے۔ مسیحی برداری کے گرجا گھروں میں سینٹ جونز اور ہولی فیملی اسپتال کے گرجا گھر قابلِ ذکر ہیں۔
طبّی سہولیات کی بات کریں تو سرکاری سطح پہ ہولی فیملی اسپتال کا نام ذہن میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے تقریباً ہر بلاک میں بہت سے پرائیویٹ کلینک موجود تھے، ان میں سے ایک کلینک عظیم اسپتال سابق صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ، ڈاکٹر افضل اعزاز مرحوم کا تھا، ایک ڈاکٹر اعوان کا کلینک جبکہ ایک موسیٰ کلینک بھی تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ ڈاکٹر کے انتقال کے بعد ان کے ڈسپنسر نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کلینک خود سے چلانا شروع کر دیا تھا۔ سید پور روڈ پہ ڈاکٹر ثریا کا کلینک اور ڈاکٹر ابرار کا ڈینٹل کلینک مشہور تھے۔ اس کے علاوہ کچھ مطب اور ہومیو پیتھک کلینک بھی تھے۔ حکیم منور احمد کا کلینک ریفریشمنٹ سینٹر والی عمارت میں تھا جہاں پہلے حکیمی ادویات ملتی تھیں آج کل وہاں حلوہ پوری دستیاب ہے۔ حکیم سرو سہارن پوری کا ایک مطب کالی ٹینکی کے نزدیک اور ایک حیدری چوک پہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے علاوہ ایک مطب حکیم واسطی صاحب کا بھی ہوا کرتا تھا۔ ہومیوپیتھک کی بات کریں تو ڈاکٹر علاؤ الدین گِل کا کلینک کالج چوک، ڈاکٹر اکرام اللہ مرحوم کا کلینک امام بارگاہ یادگارِ حسین سے محض دو منٹ کے فاصلے پر تھا جبکہ ایک ہومیوپیتھک کلینک الفرقان مسجد سے متصل مارکیٹ میں تھا جہاں غالباً ڈاکٹر علوی بیٹھا کرتے تھے۔ ہمارے اپنے گھر کے بالکل نزدیک ایڈوکیٹ طاہر مرحوم نے بھی اپنے گھر کے گیراج میں شوقیہ ہومیو پیتھک کلینک کھولا ہوا تھا۔ طاہر انکل کے کلینک پہ مریضوں سے زیادہ تعداد محلے کے بچوں کی ہوتی جو ان سے بغیر دوا ملی چھوٹی چھوٹی میٹھی سی سفید گولیوں کے طلب گار ہوتے۔ طاہر انکل بھی کبھی بچوں کو مایوس لوٹنے نہیں دیتے تھے۔
تعلیم و تدریس کے حوالے سے سرکاری سطح پہ شملہ اسلامیہ گرلز ہائی اسکول، جونئیر ماڈل ہائی اسکول، مسلم ہائی اسکول جو اس وقت کا سب سے بڑا اسکول ہوا کرتا تھا، ایم سی پبلک اسکول، سابقہ پوسٹ گریجویٹ کالج فار ویمن (موجودہ راولپنڈی یونیورسٹی فار ویمن) اور سابقہ ڈگری کالج فار بوائز (موجودہ گریجویٹ کالج) جس میں نامور شاعر انور مسعود اور پروفیسر احسان اکبر جیسے اعلیٰ پائے کے اساتذہ کرام درس و تدریس سے وابستہ تھے، سیٹلائٹ ٹاؤن کی شان ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار پرائیویٹ اسکولز اور کالجز جس میں آئیڈیل کیمبرج، سینٹ پالز کیمبرج، صدیق پبلک، فیئری لینڈ، ہولی پرپز، سن رائز، ملت سکینڈری، قائد اکیڈمی، برکت علی ماڈل، اینگلو عربک، لٹل اینجلز اسکول اور مدر کیئر، قابلِ ذکر ہیں۔ موجودہ دور میں سکستھ روڈ بہت سے پرائیویٹ اسکولز اور کالجز کا گڑھ بن چکا ہے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کا چنبیلی اسکول ذہنی طور پہ کمزور و معذور بچوں کا ایک ویلفیئر ادارہ ہے جو ١٩٦٩ سے کام کر رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے جامعہ رضویہ ضیاء العلوم اور چاندنی چوک کے نزدیک قائم کردہ قاری خوشی محمد مرحوم کی قرآن اکیڈمی قابلِ ذکر ہیں۔
سرکاری دفاتر اور مشہور عمارات میں پاسپورٹ آفس، شناختی کارڈ آفس (موجودہ نادرا)، راولپنڈی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن، ڈسٹرکٹ آفس آف پاپولیشن اینڈ ویلفیئر، کسٹمز آفس، خانہ فرہنگ ایران، ایرانی سفارت کار کی رہائش گاہ، امریکن سفارت خانہ، ہیڈ کوارٹرز ایف ایس ایف بھی سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہی ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت بننے سے قبل سیٹلائٹ ٹاؤن اے بلاک میں سینٹرل نیوز آرگنائزیشن (سی این او) کا ادرہ قائم تھا جہاں سے ریڈیو کی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں۔ یہاں کا بڑا ڈاکخانہ کمرشل مارکیٹ میں تھا جو بعد ازاں اسی جگہ پہ ایک عالیشان عمارت میں تبدیل ہو گیا۔ پی ٹی سی ایل کی ایکسچینج کی عمارت راولپنڈی یونیورسٹی فار ویمن سے متصل تھی جس کے مائیکرو ویو ٹاور دور سی ہی دکھائی دیتے تھے مگر آنے والے دور میں بلند وبالا عمارات تعمیر ہونے سے وہ ٹاور ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ یہی ٹیلی فون ایکسچینج کی عمارت پہلے پہل بیرونی ممالک میں مقیم اپنے پیاروں سے رابطہ کے لیے واحد ذریعہ تھی۔ اس کو سب سے پرانا پبلک کال آفس بھی کہا جا سکتا ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن میں تفریح سہولیات میں نادر سینما ایک منفرد مقام رکھتا تھا کہ شہر کے باقی تمام سینما گھر اس علاقے سے خاصے دور ہوا کرتے تھے۔ آس پاس کے رہائشی کسی کو اپنے گھر کا راستہ سمجھانے کے لیے نادر سینما کو ہی بطور لینڈ مارک استمعال کیا کرتے تھے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری پہ زوال آیا تو نادر سینما کو گرا کر نادر پلازہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ دیگر تفریحی سہولیات میں کھیلوں کے میدان اور فیملی پارکس موجود تھے۔ ان میدانوں میں میونسپل اسٹیڈیم نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ اسی اسٹیڈیم میں ایک تن سازی کا کلب بھی ہوا کرتا تھا جس کے ممبران تن سازی کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرتے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے رہائشی فٹبال اور کرکٹ بھی ذوق و شوق سے کھیلتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں رات کو مصنوعی روشنی میں کرکٹ کے ٹورنامنٹ منعقد کرائے جاتے جس میں علاقے کی مختلف ٹیمیں شرکت کیا کرتیں۔ ان کرکٹ ٹیموں میں اپالو کلب، شاہین کلب، مدنی کلب، لکی اسٹار اور مسلم کلب نمایاں تھے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن گریجویٹ کالج فار بوائز کے وسیع گراؤنڈ میں کرکٹ اور فٹبال کے میچ منعقد ہوا کرتے جس کو دیکھنے کے لیے تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اپنی پسندیدہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود ہوتی۔ اچھے وقتوں میں سیٹلائٹ ٹاؤن کے ہر محلے میں ایک گراﺅنڈ کا ہونا لازم تھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان گراﺅنڈز میں سرکاری اسکول اور کالجز بننے اور ٹیوب ویل نصب ہونے سے ان گراؤنڈز کا رقبہ محدود ہوتا گیا جس وجہ سے اب وہاں رہنے والے بچوں کے لیے کھیل کے میدانوں کا فقدان ہے۔ امام بارگاہ یادگارِ حسین کے سامنے والے گراؤنڈ کا ایک بڑا حصہ دن کے وقت سفید تِلوں کو خشک کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دراصل نزدیک کے ایک رہائشی کا تِلوں کا کاروبار تھا۔ انھوں نے اپنے گھر کے گیراج میں بھی تِلوں کی صفائی کی مشین لگائی ہوئی تھی جس میں پنکھا نصب تھا جو تِلوں اور چھلکوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا کرتا۔ اسی مناسبت سے یہ گھر تِلوں والا گھر کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اور یہ گراؤنڈ بھی تِلوں والا گراؤنڈ کے نام سے جانا جانے لگا۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے ڈی اور بی بلاک کے مکینوں کے لیے کمرشل مارکیٹ سے ملحقہ ایک وسیع و عریض پارک بھی ہوا کرتا تھا۔ پارک کے عین وسط میں پانی کا ایک فوارہ مع حوض موجود تھا جس میں کسی زمانے میں رنگ برنگی مچھلیاں بھی پائی جاتی تھیں۔ سرِ شام یہ فوراہ کھولا جاتا تو منظر قابلِ دید ہوتا۔ اس فوارے کے حوض کا قطر خاصہ بڑا اور اس کی دیواریں تقریباً دو فٹ چوڑی اور تین فٹ اونچی تھیں۔ جن پہ بیٹھ کے لوگ فوارے کے پانی کے چھینٹوں سے لطف اندوز ہوتے۔ اس پارک کو چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر حصے کو تقسیم کرنے کے لیے سیمنٹ سے تقریباً چار فٹ چوڑا ٹریک بنایا گیا تھا جس پر صبح نمازِ فجر اور شام نمازِ عصر کے بعد بزرگ شہریوں کی ایک بڑی تعداد سیر اور چہل قدمی کرتی نظر آتی۔ ایک حصّے کو صرف گلاب کے خوبصورت پودوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا جو موسم کے لحاظ سے دیدہ زیب منظر پیش کرتے۔ ایک حصّے میں بچوں کے جھولے ہوا کرتے۔ پینگ والے جھولوں پہ چھوٹے بچے ہمیشہ خواتین کے اٹھنے کا انتظار ہی کرتے نظر آتے۔ عیدین پہ اس پارک کے ایک حصّے میں نمازِ عید کا بڑا اجتماع ہوتا۔ پارک کے جھولے والے حصّے کے ایک کونے کو تن سازی کے شوقین حضرات کے لیے معقول پردے کے ساتھ مخصوص کردیا گیا تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے اس تن سازی کلب کو صبح اور شام کے اوقات میں کھولا جاتا اور اس کے روحِ رواں کو سب پاپا پہلوان کے نام سے جانتے تھے۔ پہلوان صاحب کی کمرشل مارکیٹ میں کھیلوں کے سامان کی دوکان بھی ہوا کرتی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث اس پارک کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں، یوں پارک اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ البتہ اس کے ایک حصّے میں ‘بچوں کی دنیا’ کے نام سے بہت سے جدید جھولے لگا کے یہاں کے مکینوں کے لیے تفریح سہولیات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے مشہور پاپولر سموسے، سپر گول گپّے اور دھی بھلے کے اسٹالز بھی کمرشل مارکیٹ کے پارک کی دیوار کے ساتھ ہی ایک قطار میں موجود تھے۔ لوگ پارک کی گھاس اور بینچوں پہ بیٹھ کے ان چٹ پٹی اور مزیدار چیزوں سے لطف اندوز ہوا کرتے۔ میونسپل کمیٹی والے جب کبھی غفلت کی نیند سے بیدار ہوتے تو ان دھی بھلے، گول گپے، سموسے اور دیگر چھاپڑی والوں پہ دھاوا بول دیتے۔ کیمٹی والوں کے ٹرک کو دیکھتے ہی ان اسٹالز اور ریڑھی والوں کی دوڑیں لگ جاتیں۔ جو پکڑ میں آجاتا وہ جرمانہ بھر کے پھر سے وہیں ریڑھی سجا لیتا۔ بعد ازاں کمرشل مارکیٹ میں ایک ریفریشمنٹ سینٹر کھلا جس نے کھانے پینے والی باقی ساری دوکانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ راولپنڈی کے دوسرے علاقوں کے رہنے والے بھی صبح حلوہ پوری کا ناشتہ اور شام کو دھی بھلے، گول گپے اور کھانے پینے کی دیگر انواع و اقسام کے لیے ریفریشمنٹ سینٹر کا ہی رخ کرتے ہیں۔ مٹھائی کے لیے پہلے صرف لاہور سویٹس ہوا کرتی پھر مغل سویٹ ہاﺅس قائم ہوئی۔ اب وہاں سویٹ پیلس اور راولپنڈی کی بڑی برانڈڈ مٹھائی کی دکان رشید سویٹس والوں نے بھی اپنی شاخیں قائم کر لی ہیں۔ رشید سویٹ والی ایک دوکان کی جگہ کبھی ‘سنوپی’ کے نام سے ایک ریستوران ہوا کرتا تھا۔ اسی کے ساتھ بہت بعد میں ‘بگ باس’ کے نام سے ایک فاسٹ فوڈ بھی کھلا مگر جلد ہی بند بھی ہو گیا۔ جہانگیر بالٹی ریستوران بھی کھلا لیکن وہ بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پہ جلد ہی بند ہو گیا۔ مشہور تہذیب بیکری نے بھی سیٹلائٹ ٹاؤن میں اپنی برانچ قائم کی ہے۔ دیگر کھانے پینے والی مشہور دوکانوں میں چسکا ریستوران، خوشاب تکہ، افغانی تکہ، طیبہ ریستوران، لاثانیہ ریستوران اور موجودہ دور میں انار کلی ریستوران اپنے میعاری کھانوں کی وجہ سے خاصہ مقبول ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ چائے اور پراٹھے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ریستوران بھی اب سیٹلائٹ ٹاؤن میں جابجا نظر آتے ہیں۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے مختلف بلاکس میں چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں موجود تھیں جہاں ضرورت کی ہر شے دستیاب ہوا کرتی۔ البتہ بی بلاک سے ملحقہ کمرشل مارکیٹ کو سیٹلائٹ ٹاؤن کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کمرشل مارکیٹ پہنچنے کے بہت سے راستے تھے۔ مری روڈ پہ چاندی چوک سے ایک سڑک سیدھی کمرشل مارکیٹ کو آتی تھی۔ اس کے دونوں اطراف میں بڑے عالیشان گھر ہوا کرتے تھے۔ ان گھروں کے باہر وسیع سرکاری زمین چھوڑی گئی تھی جسے وہاں کے مکینوں نے خوبصورت لان اور باغیچوں کے طور پہ سجایا ہوا تھا۔ وہ روڈ اب مکمل طور پہ کمرشلائز ہو چکی ہے اور اب وہاں شاید ہی کوئی رہائشی عمارت باقی بچی ہے۔ بلکہ اب تو آس پاس کی اندرونی سڑکیں بھی کمرشلائز ہو چکی ہیں۔ چاندنی چوک سے کمرشل مارکیٹ آنے والی روڈ پہ اب کے ایف سی، سویٹ پیلس، گل احمد کی آئیڈیا اور بہت سی مشہور برانڈز کی دوکانیں کھل چکی ہیں۔ کمرشل مارکیٹ کو آنے والا دوسرا راستہ مری روڈ سے براستہ رحمان آباد چوک تھا۔ رحمان آباد کے تین کونوں پہ آٹھ آٹھ کنال پہ بنے ہوئے خوبصورت اور اونچی دیواروں والے بنگلے ہوا کرتے تھے، بچپن میں ہماری خواہش ہوا کرتی کہ کسی طرح ان بڑے بڑے بنگلوں کا گیٹ کھلا مل جائے تو اندر سے ان کی ایک جھلک ہی دیکھ سکیں۔ اسی چوک پہ کمرشل مارکیٹ کو مڑنے والے چوتھے کونے پہ باربی کیو ریستوران، ٹائروں کو پنکچر لگانے والی دوکان اور ایک چھوٹی سی مسجد ہوا کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ باربی کیو ریستوران کو وسیع کرنے کا ارادہ کیا گیا تو ٹائروں کو پنکچر لگانے والی دوکان کی قربانی کام آئی۔ کمرشل مارکیٹ کے مغرب میں سید پور روڈ سے کالج چوک اور حیدری چوک کی سڑکیں کمرشل مارکیٹ میں ہی ضم ہوا کرتی تھیں۔ وہ دونوں سڑکیں بھی اب کمرشلائز ہو چکی ہیں۔
کمرشل مارکیٹ میں اپنے کاروبار میں مشہور ایوب جنرل اسٹور جس کو عمرو عیار کی زنبیل سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا، دیر جنرل اسٹور، ارشد بک ڈپو، جدہ پیلس، دوپٹہ سینٹر، منیر برادرز، اشفاق کاسمیٹکس، اشفاق پان ہاوس، گڈ لک بیکری، شاہین بیکری، گرین بیکری، ریفریشمنٹ سینٹر، دھلی چاٹ ہاوس، پاپولر سموسے، سپر گول گپے، ندیم جوس سینٹر، پارک ویو ہوٹل، حاجی حلیم ہوٹل، لاہور سویٹس، مغل سویٹ ہاوس، عروسہ گیسٹ ہاؤس، بکس اینڈ بکس، امر پاک ڈرائی کلینر، برلاس ڈرائی کلینر، وکی ہیئر ڈریسر، پلے بوائے آرکیڈ وڈیو گیم، اولڈ بک سینٹر قابلِ ذکر ہیں۔ وہ سائیکلوں کا زمانہ تھا تو عروسہ گیسٹ ہاؤس کے بالمقابل سائیکلوں کو ٹھیک کرنے اور ٹائروں میں ہوا بھرنے کی ایک بڑی دوکان ہوا کرتی تھی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن میں غالباً لکڑیوں کے دو ہی ٹال تھے جن میں سے ایک امام بارگاہ یادگارِ حسین کے ساتھ اور دوسرا ہولی فیملی اسپتال کے نزدیک تھا۔ بعد ازاں ڈی بلاک میں باؤ آزاد کے خالی پلاٹوں کے ساتھ بھی لکڑیوں کا ایک ٹال کھل گیا تھا۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کی اقبال مارکیٹ بیسمنٹ کے ساتھ بننے والی سیٹلائٹ ٹاؤن کی غالباً پہلی مارکیٹ تھی۔ جس کی بیسمنٹ میں ٹی وی، وی سی آر اور وڈیو کیسٹس کرائے پہ میسّر ہوتیں ورنہ اس سے پہلے اس سہولت کی قریب ترین دوکانیں بنی مارکیٹ میں ہی موجود تھیں۔ اقبال مارکیٹ کی مشہور دوکانوں میں برکت وڈیو اور طارق وڈیو تھیں۔ طارق نے بعد ازاں ٹی2 کے نام مین کمرشل سینٹر میں دوکان بنائی جس کو بہت پزیرائی ملی۔ اقبال مارکیٹ کے ساتھ ایک ٹینگو مارکیٹ بھی ہوا کرتی جہاں ایک عدد لائبریری بھی تھی۔ زیادہ تر نوجوان قارئین اس لائبریری سے اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سریز اور ابنِ صفی کی عمران سریز کے طلب گار ہوتے تھے۔
کمرشل سینٹر میں ایک گول مارکیٹ بھی ہوا کرتی تھی جہاں استمعال شدہ کپڑوں کی دوکان، آٹے کی چکی، ڈرائی فروٹ کی دوکان، گفٹ سینٹر، حجام، درزی، روئی دھنائی کی دوکان اور سب کی پسندیدہ آڈیو کیسٹ ریکارڈنگ کی دوکان ‘آف بیٹ’ ہوا کرتی تھی اس کے ساتھ مزید دو ریکارڈنگ کی دکانیں بھی تھیں جہاں کام کے رش کے باعث ایک کیسٹ بھروانے کے لیے کئی کئی روز کا وقت دیا جاتا۔ یہیں پہ ایک بہت بڑے سائز کے کیرم بورڈ پہ خوب بازیاں لگا کرتیں۔ اسی گول مارکیٹ سے ایک راستہ مارکیٹ کی مشہور ترین گلی میں جاتا تھا جہاں بِلّا اور دوسرے قصاب، ایوب جنرل اسٹور، اشفاق کاسمیٹکس، سبزی، دہی، پنساری اور حجام و گرم حمام کی دوکانیں ہوا کرتی تھیں۔ اسی گلی میں ایک ہوٹل بھی ہوا کرتا تھا جہاں بڑے سے پیالے میں دی جانے والی گرما گرم دودھ جلیبی سے شاید ہی کوئی لطف اندوز نہ ہوا ہو۔
چاند رات پہ کمرشل مارکیٹ کی رونق دیدنی ہوتی تھی۔ ہمارے بچپن میں چاند رات پہ ٹریفک پولیس کے اہلکار ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے سڑکوں کو ون وے کر دیا کرتے۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کا رش اتنا بڑھ گیا کہ اب عام دنوں میں بھی چاند رات والا ہی رش ہوتا ہے اور چاند رات کا رش تو نہ ہی پوچھیں۔ عقل مند لوگ تو عید کی خریداری چاند رات سے بہت پہلے ہی کر لیتے ہیں۔
چاندنی چوک سے رحمان آباد تک دونوں اطراف میں گاڑیوں کے شو روم ہوا کرتے تھے، ان میں زیب موٹرز، آصف موٹرز، راجہ جی موٹرز اور ایس ٹی موٹرز قابلِ ذکر ہیں۔ جبکہ نیشنل مارکیٹ اور اس کے عقب میں گاڑیوں کی مرمت کے لیے بہت سی ورکشاپس ہوا کرتی تھیں۔ چاندنی چوک پہ بننے والے جمبو فوٹو اسٹوڈیو نے جب پنتالیس منٹ میں کیمرے کی تصاویر بنا کے دینا شروع کیں تو ہم سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اسی کے ساتھ متصل دوکان ماموں برگر نے اپنے منفرد نام اور ذائقے سے خوب نام کمایا، آج ماموں برگر کی بھی دو دکانیں بن چکی ہیں دونوں پر اصلی ہونے کے دعوے درج ہیں۔ سکستھ روڈ چوک پہ صوفی آٹو بیکرز اپنی طرز کی منفرد بیکری تھی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کے دیگر کاروباری مراکز میں چنگ واہ چائینیز ریستوران، سیف راشن کارڈ ڈپو، نیناز/ نکھار اور لیڈیز بیوٹی پارلر بعد ازاں ڈگری کالج کے نزدیک بہت سے دوسرے بیوٹی پارلرز ان کے مقابلے میں آگئے۔ علاقے کا سب سے پرانا پیٹرول پمپ بھی نادر سینما کے بالمقابل ہوا کرتا تھا۔ دوسرا پیٹرول پمپ نیشنل مارکیٹ کے نزدیک ہوا کرتا تھا۔
ایک منظر جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب بالکل ہی ختم ہو چکا ہے وہ محلوں میں کسی بڑے سایہ دار درخت کے نیچے موچی کی موجودگی ہوتی تھی۔ کچھ مقامات ایسے بھی تھے جہاں موچی کے ٹھیے کے ساتھ حجام کی کرسی بھی ایک ہی درخت کے نیچے لگی نظر آتی جیسا کہ سیٹلائٹ ٹاؤن گریجویٹ کالج کی جنوبی دیوار، کمرشل مارکیٹ میں پارک کا شمال مشرقی کونا، چھوٹی مارکیٹ کے نزدیک بڑا درخت، حیدری چوک سے ہولی فیملی اسپتال کے نزدیک چوک کا درخت، مدنی، مکی اور الفرقان مسجد کے نزدیک کے درخت اور کالج چوک پہ بڑے درخت کے نیچے۔ امام بارگاہ یادگارِ حسین کے ساتھ موچی کے علاوہ خانی حجام کی دوکان بھی ہوا کرتی جس کو خانی کے بعد اس کے بیٹے نے سنبھال لیا۔ وہیں لیاقت دھوبی طویل عرصہ سے اپنی دوکان سجائے ہوئے تھا۔ دھوبی کا سب سے بڑا کام نیشنل مارکیٹ کے نزدیک ایک گھر سے ہوا کرتا جو اب بھی وہاں موجود ہے جہاں مرد اور خواتین دونوں ملکر کپڑے دھلائی اور استری کا کام کرتے ہیں۔
چاندنی چوک اور سکستھ روڈ کے دونوں اطراف میں رہنے والے مری روڈ پہ غیر ملکی صدور اور ہیڈ آف اسٹیٹس کے وہاں سے گزرنے پہ ان کے استقبال کے لیے مری روڈ کے کناروں تک آجاتے اور ہاتھ ہلا کر ان کا استقبال کرتے، غیر ملکی مہمان بھی ہاتھ ہلا کے ان کو جواب دیتے۔ ان غیر ملکی مہمانوں کی آمد سے قبل پولیس کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے سائرن ان کی جلد آمد کی اطلاع دیتے۔ یہاں کے ایک رہائشی کرنل جاوید نے ماضی کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دن ان کے ہاتھ ہلا کر استقبال کرنے پہ صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے گاڑی روک کر ان سے ہاتھ ملایا۔ اس بات کی تصدیق پی ٹی سی ایل کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ جناب کنور غلام مصطفیٰ خان صاحب نے بھی کی۔ ١٩٨٠ کی دہائی میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق جامعہ رضویہ ضیاء العلوم میں تشریف لائے۔ اس موقع پہ پورے علاقے کو پولیس کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے لیا حتیٰ کہ نزدیک کے کچھ گھروں کی چھتوں پر بھی پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔ صدرِ پاکستان کی آمد سے پہلے سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی دوڑیں لگ گئیں۔ سڑکوں کی مرمت اور گلیوں کی صفائی ایک ہی دن میں مکمل کر لی گئی۔ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم کے سامنے والے گراؤنڈ میں ٹریکٹر اور بلیڈ لگا کر گراؤنڈ کی زمین کو باکل ہموار اور صاف کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ سابق گورنر پنجاب مخدوم سجاد قریشی، سیٹلائٹ ٹاؤن میں واقع ہمارے گھر تشریف لائے تو ایک ہی دن میں ہمارے گھر کے سامنے والی پوری سڑک ہی دوبارہ سے تعمیر کر دی گئی۔
سیونتھ روڈ سے موجودہ کرکٹ اسٹیڈیم تک آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان خالی پلاٹوں پہ کچّے گھروں میں بھینسوں کے باڑے ہوا کرتے تھے جہاں سے خالص دودھ مل جایا کرتا تھا۔ اس کے کچھ ہی فاصلے پہ موجودہ دور کی زرعی یونیورسٹی کی زمین پہ فالسے کے باغات بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھے۔ وہیں ایک داتا روڈ ہوتی تھی جس کے ارگرد گھنے درختوں کی نسبت سے سب لوگ اسے ٹھنڈی سڑک کہا کرتے تھے۔ سیونتھ روڈ سے کچھ ہی آگے اوجڑی کیمپ بھی تھا۔ ١٠ اپریل ١٩٨٨ کو سانحہ اوجڑی کیمپ رونما ہوا تو راولپنڈی شہر پہ بالعموم اور سیٹلائٹ ٹاؤن پہ بالخصوص قیامت صغریٰ گزر گئی۔ اس سانحہ کے بعد فضا لمبے عرصے تک سوگوار رہی اور اس خوفناک منظر کے سبب راولپنڈی کے باسیوں بالخصوص بچوں میں طویل عرصے تک خوف و ہراس برقرار رہا۔
١٤ اگست اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر محلوں میں اپنی اپنی گلی کو سجانے کا مقابلہ ہوا کرتا۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر مختلف جہگوں پر ریت کے ماڈل بنائے جاتے۔ ان ماڈلز کی تزئین و آرائش محلے سے جمع کیے گئے کھلونوں سے کی جاتی۔ ان میں سے ایک ماڈل ففتھ روڈ پہ پارک کے داخلی گیٹ کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ اسی جگہ کونے میں لال اینٹوں کا ایک گول کمرا ہوا کرتا تھا جس کی سیڑھیاں نیچے موجود بڑے سے کنویں تک جاتیں۔ اس کنویں کا دروازہ زیادہ تر بند ہی رہتا تھا۔ پھر وہ مکمل طور پہ گرا کے بند کر دیا گیا۔
اچھے وقتوں میں یہاں کے مکینوں کے لیے جی ٹی ایس کی ٢٢ نمبر بس چلا کرتی تھی، جس کی ابتدائی منزل ٢٢ نمبر چونگی اور آخری منزل کراچی کمپنی ہوا کرتی اور اس کا اسٹاپ آئیڈیل کیمبرج اسکول کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ دیگر سفری سہولیات میں جی ٹی ایس کی بسیں اور پرائیوٹ ویگنیں چاندنی چوک، صادق آباد چوک، رحمان آباد چوک، سکستھ روڈ چوک، کالج چوک، حیدری چوک اور کالی ٹینکی پہ رکا کرتی تھیں۔ پنڈورہ چوک سے بنی اور راجہ بازار جانے کے لیے بھی تانگے اور بعد ازاں سوزوکی پک اپ چلا کرتی تھیں۔ اندرونی سفر کے لیے مورس اور ڈاٹسن کی ٹیکسیاں بھی ہر جگہ باآسانی دستیاب ہوا کرتی تھیں۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے اے، سی اور ای بلاکس میں بڑے گھر اور بنگلے ہوا کرتے تھے۔ سکستھ روڈ کے دونوں اطراف اور ان کے عقب والی پٹی بھی چار چار، دو دو اور ایک ایک کنال کے گھروں پہ مشتمل تھی جو کہ ٩٠ کی دہائی میں کمرشلائز ہونا شروع ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں بے شمار پرائیویٹ اسکولز اور کالجز کھل گئے۔ جبکہ دیگر بلاکس میں زیادہ تر گھر سات مرلہ (آج کل کے دس مرلہ سے بھی بڑے) کے ہوا کرتے تھے۔ گھروں کے آگے چھوڑی گئی سرکاری جگہ کو دیوار بنا کے گھر کے باغیچہ کے طور پہ استعمال کرنا عام تھا۔ اندرونی سڑکوں پہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی تو محلے کے چھوٹے بڑے سب مل کر عصر سے مغرب کے درمیان بلا ناغہ کرکٹ کھیلا کرتے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن میں پانی ذخیرہ کرنے کی غرض سے مختلف علاقوں میں لال رنگ کی اینٹوں سے بنی بڑی اور اونچی ٹینکیاں ہوا کرتی تھیں جو اونچی ہونے کے سبب دور سے ہی دکھائی دیتیں۔ ان پانی کی ٹینکیوں پہ عموماً شہد کی مکھیوں نے اپنے چھتے بنائے ہوتے تھے۔ ان ٹینکیوں کی بدولت سیٹلائٹ ٹاؤن میں سرکاری پانی کا پریشر ایسا تھا کہ گھر کی اوپر وال ٹینکی میں پانی بغیر موٹر چلائے ہی پہنچ جایا کرتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہاں کے مکینوں کو پانی کے لیے نئے کنکشن لینا پڑے۔
ہرچند سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی اب ویسا نہیں رہا جیسا ہم نے اسے بچپن میں دیکھا تھا، تاہم ان سب باتوں کے باوجود سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے افق پہ نمودار ہونے والے بے شمار درخشاں ستاروں کی بدولت اس علاقے کی کہکشاں ہمیشہ ہی جگماتی رہی گی۔ تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات سیٹلائٹ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
میرے ذہن کے نہاں خانوں سے فی الحال یہی نام نکل پائے ہیں مگر مجھے قوی امید ہے کہ قارئینِ کرام مجھے مزید شخصیات کے بارے میں ضرور آگاہ کریں گے۔ شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق معروف شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھری کچھ عرصہ راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں بھی مقیم رہے تھے۔
فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے دیگر معتبر ناموں میں سے کچھ نام درج ذیل ہیں: مزاح نگار میجر سید ضمیر جعفری مرحوم، مشہور ناول نگار نسیم حجازی مرحوم، ادیب/ اداکار اور پروڈیوسر کمال احمد رضوی مرحوم، پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک بڑا نام سجاد کشور مرحوم، معروف ٹی وی پروڈیوسر شہزاد خلیل مرحوم، معروف ٹی وی فنکارہ عذرا آفتاب جو بعد ازاں کوئٹہ جا بسیں، معروف شاعر/ ادیب/ صحافی اور براڈکاسٹر انوار فیروز مرحوم، شاعر و پروفیسر جمیل آذر، شاعر و پروفیسر احسان اکبر، مزاح نگار نذیر احمد شیخ، معروف نعت و سوز خواں ناصر جہاں، پُرسوز آواز کے مالک منصور تابش، ریڈیو آرٹسٹ و گلوکارہ انیقہ بانو، صحافی اور موجودہ ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل کنور غلام مصطفیٰ خان، معروف آرٹسٹ و شاعر اور سابق ایم ڈی پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن راجہ چنگیز سلطان، ٹی وی فنکارہ منی باجی، مایہ ناز کامیڈین مسعود خواجہ مرحوم، کامیڈین سعید انور، اسٹیج و ٹی وی فنکار آصف سیماب، شاعر لطیف احمد عباسی، کہانی نویس ایم ایس ناز، نامور مزاحیہ شاعر امیر السلام ہاشمی، شاعر سعید انور، مشہورِ زمانہ براڈکاسٹر ثریا شہاب، صحافی اشرف ہاشمی مرحوم، ریڈیو پاکستان کا انتہائی معتبر نام سلمان المعظم، ٹی وی پروڈیوسر نذیر عامر، کنٹرولر پاکستان ٹیلی ویژن عون محمد رضوی مرحوم، ڈائریکٹر پاکستان ریڈیو تنویر صدیقی، ریڈیو پاکستان کا معتبر نام زاہد نقوی، اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان، ضمیر صدیقی، ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان عبد الشکور، حمد و نعت کی معروف شاعرہ اور براڈکاسٹر نورین طلعت عروبہ، شاعرہ اور نیشنل کونسل آف آرٹس کی سابقہ ڈائریکٹر محترمہ محمودہ غازیہ، ، شاعرہ اور براڈ کاسٹر درِ شہوار توصیف، پی ٹی وی کا معتبر نام ظہیر الدین جو چراغ حسن حسرت کے پوتے بھی تھے، شاعر اور صحافی افتخار احمد خان، صحافی و ٹی وی فنکار شاہد نقوی اور صحافی/ کالم نویس/ افسانہ و نغمہ نگار شہریار خان، براڈکاسٹر منزہ ظہیر، شاذیہ ظہیر اور سدرہ ظہیر، اس کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ خوبصورت لب و لہجے کے مالک شعمون ہاشمی۔
تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ چند معتبر نام یہ ہیں: ماہرِ تعلیم اور پرنسپل گارڈن کالج پروفیسر خواجہ مسعود، پرنسپل مسلم اسکول سید ترمذی، پرنسپل سینٹ پالز کیمبرج اسکول آنجہانی کیپٹن ثنا اللہ اور ماہرِ تعلیم محمد عثمان مرحوم۔
جج ہائیکورٹ عباد الرحمٰن لودھی، جج ہائیکورٹ سہیل ناصر، مجسٹریٹ شیر بہادر اور معروف ایڈوکیٹ محمد بلال بھی سیٹلائٹ کی مشہور شخصیات میں سے ہیں۔
ماہرِ مذہبی امور و اسلامی اسکالرز کی بات کریں تو ایوب دور کے مذہبی امور کے ماہر مولانا عارف اللہ شاہ قادری، مذہبی اسکالر مولانا صدر الدین بھی سیٹلائٹ راولپنڈی کے رہائشی تھے۔
ماہر فلکیات و علم نجوم جی ایم شاہ مرحوم بھی سیٹلائٹ کے مکین تھے۔
اس کے علاوہ بہت سی سیاسی و سماجی شخصیات بھی راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن کے مکین رہے ہیں۔ چند نام درج ذیل ہیں: بھٹو دور کی پیپلز پارٹی کے ایم این اے خورشید حسن، ایوب دور کے ایم این راجہ اللہ داد خان، سابق وفاقی وزیر پرویز رشید، سماجی کارکن و سیاست دان کبیر علی واسطی مرحوم، سماجی کارکن و سیاست دان، سابق وفاقی وزیر حنیف عباسی، نگران صوبائی وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر ناصر جمال، سماجی کارکن و سیاست دان محمود اکبر کیانی، سماجی کارکن و سیاست دان نجمہ حمید، سماجی کارکن و سیاست دان طاہرہ اورنگزیب، سماجی کارکن و سیاست دان اور مایہ ناز ایڈوکیٹ حبیب وھاب الخیری، سیاست دان ناہید خان، نوجوان سیاست دان اور سماجی کارکن میاں عمران حیات بھی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہائش پذیر رہے ہیں۔
تحریک پاکستان کے متحرک کارکن نثار احمد نثار مرحوم، سابق وائس چیف آف ائیر سٹاف ایئر مارشل حفاظت اللہ، ملائیشیا میں پاکستان کے سابق سفیر لیفٹیننٹ جنرل طاہر قاضی، سابق کمشنر راولپنڈی اور سیکرٹری داخلہ شاہد خان، سابقہ بیوروکریٹ رعنا سیرت، سابق آئی جی پولیس و فیڈرل سیکرٹری رفعت پاشا، راولپنڈی کے پہلے کمشنر برلاس، ممبر نیشنل ہائی وے راجہ نوشیروان، راجہ ظہور اختر کیانی، کراچی کوسٹل ہائی وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کرنل جاوید، بریگیڈیئر واجد، سابق ٹیسٹ کرکٹر مسعور انور اور نوجوان کرکٹر یاسر عرفات بھی سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کی شان ہیں۔
ان سب کے علاوہ معروف بزنس مین ملک ریاض بھی اپنی جدوجہد کے دور میں سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن میں پانچ سے سے چھ قبرستان ہوا کرتے تھے۔ پھگواڑی کا قبرستان، سید پور روڈ کا قبرستان، ہولی فیملی ہسپتال کے نزدیک کا قبرستان، ففتھ روڈ کا قبرستان اور ایک شریف آباد کا قبرستان جو ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ مغرب کے بعد کبھی تندور سے روٹیاں خریدنے پیدل جاتے تو وہ قبرستان راستے میں ہی پڑتا۔ ہم چھوٹے تھے تو وہاں سے گزرتے ہوئے ایک انجانا سا خوف رہتا، دو سے تین منٹ کا وہ سفر انتہائی طویل اور مشکل لگتا تھا۔ امی جی ہمیں سمجھاتیں کے بہادر بچے اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اپنی پیاری امی جی کو شریف آباد کے اسی قبرستان میں اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کر دیا۔ اب جبکہ ہم بچے نہیں بلکہ خود بچوں والے ہو گئے ہیں، قبرستان کے آگے سے گزرتے ہیں تو ڈرتے تو نہیں مگر وہ سفر جو پہلے طویل لگتا تھا اب طویل تر لگتا ہے کہ بچپن کی پوری زندگی جو ماں باپ کی آغوش میں وہاں گزاری تھی کسی فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے چلتی ہے گویا ڈر کی جگہ اب دکھ نے لے لی ہے۔
"یادِ ماضی عذاب ہے یا رب”
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
جولائی 2023
کراچی
آپ کی رائے میرے لیے اہم ہے۔
📞: 0340 4303030