برفیلی موت
برفیلی موت
ہمارے یہاں تو لوگ گرمی سے مر جاتے ہیں، مگر یورپ کے کچھ علاقوں میں برف اور ٹھنڈ موت کا سامان بن جایا کرتی ہے۔
ہمارا گروپ پاکستان سے یورپ کے لیے چلا تو ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں کن کن ملکوں اور شہروں سے گزرنا ہوگا۔ ان میں ایران، ترکی، آرمینیا اور روس شامل تھے۔ ان ممالک میں برفباری بھی بہت ہوتی ہے اور ٹھنڈ بھی ایسی کہ جس کا ہمیں تصور بھی نہیں تھا۔ یہ ہمیں تب پتا چلا جب ہم یہاں پہنچے۔ ہم نے تو پنڈی کی ٹھنڈ دیکھ رکھی تھی، ہمارے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ درجہ حرارت منفی 20/30 ہو اور جسم پر مناسب کپڑے نہ ہوں تو انسانی جسم پر کیا قیامت گزرتی ہے۔
ہم یوکرائن کے شہر کیف میں تھے یا شاید روس کے شہر ماسکو میں (یاد نہیں) 1992/3 کی بات ہے۔ تب پاکستانیوں میں ایک نام انکل خلیل سننے کو ملا کرتا تھا۔ انکل خلیل ادھیڑ عمر کے آدمی تھے۔ میں نے ایک دو بار انہیں دیکھا تھا۔ پاکستان میں کہاں سے تھے اور یہاں کب سے تھے؟ اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔
ایک دن سنا کہ انکل خلیل کی موت ہو گئی ہے۔ اس اچانک اور غمناک خبر سے پاکستانیوں میں سنسنی سی پھیل گئی تھی۔
موت کیسے ہوئی؟ سنیے، موسم شدید سردیوں کا تھا اور برفباری ایسے ہو رہی تھی جیسے کسی بات کا غصہ نکال رہی ہو۔ اسی غصیلی برفباری کے دوران رات گئے انکل خلیل کو ایک وسیع پارک عبور کر کے گھر جانا تھا۔ گمان یہی ہے کہ ان کے بوٹ اور کوٹ برفباری اور ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے جوگے نہیں تھے۔ چلتے چلتے انکل خلیل گرے اور پھر اٹھ ہی نہ سکے۔ سردی سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ صبح ہونے تک انکل خلیل کا سارا جسم برف تلے دب کر مکمل طور پر غائب ہو گیا تھا۔ جب برف کچھ پگھلی تو تب جا کر معلوم ہوا کہ اس برف کے نیچے کوئی پردیسی اپنی خواہشات سمیت بے سر و سامانی کے عالم میں کئی گھنٹوں پہلے موت کو گلے لگا چکا تھا۔
میری عمر اس وقت 25 سال تھی۔ اس خبر اور منظر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
ہمارے پاس بھی کپڑے سردی اور برف سے مقابلے والے نہیں بلکہ صرف جگاڑ والے ہی تھے۔ مقامی لوگ لمبے گرم بوٹ اور بڑی بڑی گرم ٹوپیاں پہنتے تھے۔ گلے میں موٹے موٹے گرم مفلر ہوتے تھے اور ہاتھوں میں دستانے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے پاس پتلی پتلی جرسیوں، مجہول سے کوٹوں اور عام سے بوٹوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔
اصل میں منفی درجہ حرارت والی سردی ہمارے تصور سے ہی باہر تھی۔ کیوں کہ ہم نے اس سطح کی سردی کبھی دیکھی سنی ہی نہیں تھی۔ ہم پنڈی میں یہی سوچتے تھے کہ۔۔۔ "او یار کتنی ہک سردی ہوسی؟”
محمد اسماعیل ۔۔۔۔ جرمنی