top header add
kohsar adart

عالمی یوم اساتذہ پر خصوصی تحریر "ملک عبدالحمید صاحب مرحوم”

ملک عبدالحمید صاحب مرحوم

(عالمی یوم اساتذہ پر خصوصی تحریر)

ہمارے زمانے میں فرسٹ ائیر کے انگلش نصاب میں انگریز رائٹر James Hilton کا شہکار ناول "Goodbye Mr Chips” شامل تھا۔
ہمیں وہ سبق یاد کرتے ہوئے کبھی دقت نہیں ہوئی کیونکہ مسٹر چپس کی زندگی کا عملی نمونہ زیادہ بہتر انداز میں ہم اپنے ہائی سکول کے دور میں دیکھ چکے تھے۔

ملک عبدالحمید صاحب مرحوم نے گورنمنٹ ہائی سکول اوسیاہ میں بطور ہیڈ ماسٹر اپنی زندگی کا بہترین وقت ایک جہد مسلسل میں گزارا۔  بطور ایڈمنسٹریٹر وہ بے لچک، اصول پرست اور سخت گیر تھے۔ ان کا سٹاف اور طلباء ان کی عزت و توقیر کرنے کے ساتھ ان سے ڈرتے بھی تھے اور انہیں بہت چاہتے بھی تھے۔

پورے ضلع راولپنڈی میں ہمارا سکول ایک مثالی سکول تھا۔ امتحانی نتائج میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں بھی سکول کا نام بہت نمایاں تھا۔ ملک صاحب کے دور میں ہمارے سکول سے بہترین طالب علم نکلے اور پوری دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ ہر روز صبح سکول اسمبلی میں ملک صاحب ماضی کے واقعات کے ساتھ حال اور مستقبل پر طلباء سے بات کیا کرتے تھے۔ وہ چند منٹ میں ایک لائن آف ڈائریکشن بنا دیتے تھے کہ ہم کیا تھے، اب کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کیا بننا ہے۔

وہ پڑھانے کو نوکری کے بجائے ایک مشن اور مقدس فریضہ سمجھتے تھے۔

قدیم روایات کے امین ملک صاحب جدت کو برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے اچھے طریقے سے اپنانے کا درس دیتے تھے۔ جب سکول میں جدید بلاک کا اضافہ ہوا تو سب سے زیادہ خوشی ملک صاحب کو ہوئی مگر اس سے زیادہ انہیں یہ تشویش بھی تھی کہ سکول کا پرانا چہرہ برقرار نہیں رہ پائے گا۔ انہوں نے نئی عمارت کے لیے پرانی عمارت کا فرنٹ اور والی بال گروانڈ کو بچانے کے لئیے بہت بار محکمے کو تجاویز بھیجیں۔ سکول کی فالتو جگہ کی نشاندھی کی۔ لیکن سرخ فیتے اور ٹھیکیداری سسٹم نے ان کی ایک نہ سنی۔ قدیم عمارت نئی تعمیر کے پیچھے غائب ہوگئی اور پھر بعد میں ٹھیکیدار مافیا کے ہتھے چڑھ کر بے نام و نشان ہو گئی۔ایک عمارت سے پیار یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ملک صاحب کو اپنے سکول یعنی اپنے مشن سے کتنا عشق تھا۔

سفاری سوٹ پہننے والے نوجوان ملک عبدالحمید صاحب کی بطور ہیڈ ماسٹر پہلی بار پوسٹنگ جب گورنمنٹ ہائی سکول اوسیاہ میں ہوئی تو مقامی بزرگوں میں بڑے بڑے عظیم لوگ ابھی حیات تھے۔  یہ واقعہ ملک صاحب نے ایک محفل میں خود بیان کیا کہ مقامی بزرگوں کا ایک وفد محکمہ تعلیم کے افسر سے ملا اور انہیں کہا کہ ہمارا سکول ہماری پہچان ہے اور اس عظیم درس گاہ کا ہیڈ کسی جہاندیدہ اور تجربہ کار استاد کو بنایا جائے۔ملک صاحب تک جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مقامی عمائدین کو ایک میٹنگ میں مدعو کیا اور انہیں کہا،  "آپ مجھے صرف ایک سال کا موقع دیں۔ اگر میں نتائج نہ دے سکا تو میں خود سکول سے چلا جاؤں گا۔ پھر وقت نے یہ منظر بھی دیکھا کہ متعدد بار محکمہ تعلیم نے ملک صاحب کی پوسٹنگ دوسری جگہ کرنا چاہی لیکن مقامی عمائدین نے ایسا نہ ہونے دیا۔

اوسیاہ گاؤں کی تاریخ میں ہمیشہ امر ہونے والے ملک عبدالحمید صاحب اسی سکول سے باعزت ریٹائر ہوئے اور اپنے طالب علموں کے ساتھ ساتھ پورے علاقے کے لوگوں کے دلوں میں اپنی یادیں چھوڑ گئے۔ان کے بچے اسی سکول میں پڑھے اور پاکستان آرمی میں بڑے عہدوں تک پہنچے۔ ملک صاحب چاہتے تو انہیں کانونٹ مری، آرمی پبلک سکول مری یا PAF لوئر ٹوپہ بھی پڑھا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے سٹیٹس سمبل سکولوں میں اپنے بچے پڑھانے کے بجائے اپنے سکول کو ہی اپنی لگن سے سٹیٹس سمبل بنادیا۔  افسوس ملک صاحب کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول اوسیاہ کو ویسا عروج پھر کبھی نہ مل سکا۔

اس زمانے کے دیگر اساتذہ اکرام گویا ستاروں کی ایک کہکشاں تھی۔ سب کے سب پڑھانے کو ایک مشن سمجھا کرتے تھے۔ طلباء کو حقیقی معنوں میں اپنی روحانی اولاد سمجھا کرتے تھے۔ اس دور میں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ بڑی مشکل سے سفید پوشی کی زندگی گزرا کرتی تھی مگر پھر بھی کوئی استاد ٹیوشن نہیں پڑھاتا تھا بلکہ ضرورت پڑنے پر طالب علموں کو زیادہ وقت دے دیا کرتے تھے۔ ہمارے ایک عظیم استاد برسوں تک ترمٹھیاں سے پیدل اوسیاہ آ کر پڑھاتے رہے اور تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے ایک کار خریدی تاکہ گاڑی پر سکول آ سکیں۔

پرائیویٹ سکول صرف مری شہر میں ہوتے تھے۔ اس لیے تمام مقامی بچے گورنمنٹ سکولوں میں پڑھا کرتے تھے۔ہر سکول میں بچوں کی بہت بڑی تعداد ہونے کے باوجود اساتذہ کم ہوتے تھے۔ کمرے کم ہوتے تھے۔ اگر کوئی چیز زیادہ ہوتی تھی تو وہ تعلیمی معیار اور نتیجہ ہوتا تھا۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہمارے زمانے کا گورنمنٹ پرائمری سکول بھی ہائی سکول سے کم نہیں تھا۔ وہاں صرف پانچ کمروں اور پانچ اساتذہ اکرام کے ساتھ وہ تعلیمی معیار تھا جو آج کل کے مہنگے سکول بھی نہیں دے سکتے۔ ہم ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ایک کلاس جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر برآمدے میں بیٹھا کرتی تھی۔ یہاں کے بچے سالانہ امتحان میں وظیفہ لیا کرتے تھے۔ آج کل کے بچوں کو وظیفہ کا مطلب بھی بتانا پڑے گا۔۔۔۔ مطلب سکالر شپ !

انگریزی دور کے پتھر کے بنے فرش پر بچھے ٹاٹ پر بیٹھ کر ہم نے وہ علم حاصل کیا جو اج کل کے بچے لاکھوں خرچ کر کے بھی نہیں حاصل کر پاتے۔

آج ٹیچرز ڈے کے موقع پر اپنے عظیم اساتذہ کو یاد کرتے ہوئے چند الفاظ لکھنے کی کوشش کی ہے جو یقیننا ان اساتذہ کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ ہر استاد گویا ایک روشنی تھی جو گئی آفتاب کے ساتھ۔۔

اللہ تعالی ہمارے ان تمام اساتذہ اکرام کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے جو دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور ان تمام اساتذہ اکرام کی زندگیوں میں برکت ڈالے جو حیات ہیں۔ آمین ثم آمین

حبیب عزیز

اوسیاہ، مری۔
5 اکتوبر 2024

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More