top header add
kohsar adart

آرٹیکل 63 اے کیخلاف نظرثانی فیصلہ کالعدم.آئینی ترامیم کی راہ ہموار؟

سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلیں منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا سابق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت پارٹی ہدایات کے برخلاف کسی رکن اسمبلی کا دیا جانے والا ووٹ اب شمار ہو سکے گا ۔اس طرح 26 ویں آئینی ترمیمی پیکج کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور حکومت اس ترمیم کے لیے اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے نظر ثانی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی اپیل متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہے۔کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔

قبل ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں شامل تھے۔

بیرسٹر علی ظفر اور چیف جسٹس کے درمیان کیا مکالمہ ہوا ؟

 

سماعت کے موقع پر بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں اور ویڈیو لنک کے ذریعے گزارشات رکھنا چاہتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا آگے چلیں اور دلائل شروع کریں۔علی ظفر نے دلائل دینے پر اصرار کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، آپ جانتے ہیں کہ عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ میرے موکل کو بینچ پر کچھ اعتراضات ہیں۔مجھے اپنے موکل کی ہدایات کے مطابق چلنا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف اپنے موکل کے وكیل نہیں بلکہ آفیسر اف دی کورٹ بھی ہیں۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم بھی وکالت کر چکے ہیں۔اپنے موکل کی وہی بات مانتے تھے جو قانون کے مطابق ہوتی تھی ،جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر عمران خان کو اجازت نہیں دیں گے تو ہم پیش نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دراصل حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے اور تاثر یہ ہے کہ عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے دے گی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپ حد کراس کر رہے ہیں ہم اس بات پر توہین عدالت لگا سکتے ہیں کل آپ نے ایک طریقہ اپنایا ،آج دوسرا طریقہ اپنا رہے ہیں ۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ سیاسی گفتگو کر رہے ہیں تاکہ کل اسی کی ہیڈ لائن لگے۔ جس پر علی ظفر نے کہا کہ آج بھی اخبار کی سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لانا لازمی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔

ہم آپ کی عزت کرتے ہیں ،آپ ہماری عزت کریں۔ ہارس ٹریڈنگ کا کہہ کر آپ بہت بھاری بیان دے رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے ،ہم آپ کو بتائیں گے تو آپ کو شرمندگی ہوگی ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دی جا رہی ہے۔اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالت نے 63 اے پر رائے دی تھی فیصلہ نہیں دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کا مذاق بنانا بند کر دیں۔

 

جج صاحبان کے ساتھ ان ریمارکس کے تبادلے کے بعد عمران خان کے وکیل علی ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہے کہ بینچ کی تشکیل درست نہیں لہذا ہم حصہ نہیں بنیں گے۔انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ اگر آپ کیس کا فیصلہ دیتے ہیں تو مفادات کا ٹکراؤ ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ آپ بول رہے ہیں اس کو سنیں گے اور نہ ہی ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔بعد ازاں عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کی ان کی رائے معلوم کر کے انہیں عدالتی معاون مقرر کر دیا۔سپریم کورٹ بار اور پیپلز پارٹی نے بھی اس فیصلے پر اتفاق کیا۔ چیف جسٹس نے علی ظفر کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم تو آپ کے دلائل سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ چونکہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ بینچ قانونی نہیں ہے اس لیے آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار بار عمران خان کا نام کیوں لے رہے ہیں اس کے بغیر بات کریں۔

 

کون سا فیصلہ کلعدم قرار دیا گیا ؟

 

17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی منحرف رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ دے گا تو وہ ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ مذکورہ رکن کی تا حیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرے گی۔
اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی برتری سے سنایا تھا۔

مذکورہ بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور ان کی نا ا ہلی کا فیصلہ دیا تھا۔

ارٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔اس معاملے پر بعد ازاں مختلف نظر ثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔

 

آئین کا ارٹیکل 63 کیا کہتا ہے ؟

 

ائین کا ارٹیکل 63 اے وہ ارٹیکل ہے جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے لایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو متعلقہ پارٹی کے ڈسپلن کا پابند رکھنا تھا تاکہ وہ پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ دے سکیں اور اگر ایسا کریں تو ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم ہو جائے یعنی وہ نااہل قرار پائیں۔
فروری 2022 میں اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے سوال پوچھا تھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل قرار کا پاتا ہے لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے جس پر عدالت نے یہ حکم دیا کہ مذکورہ رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More