محمد عاصم بٹ کا ناول "پانی پہ لکھی کہانی”
عاصم بٹ نے محبت کی کہانی پانی پر لکھی ہے۔ شاید اس لیے کہ پانی کا بہاؤ اور روانی محبت کی کہانی کی طرح ہے جس کا بہ ظاہر اختتام تو ہو سکتا ہے لیکن کہانی، وہ بھی محبت کی، کہاں رکتی ہے!!
ایوا دنیا کی پہلی عورت ہے اور شاید آخری عورت بھی ایوا جیسی ہی ہونا چاہے گی۔ ایوا ایک ہسپانوی لڑکی اپنی گھائل روح کے ساتھ ملکوں ملکوں گھوم رہی ہے۔گلے میں لٹکائے تھیلے اور سمندر کی ہواؤں سے اٹکھیلیاں کرتی زلفوں کے ساتھ وہ کسی کوبھی موہ سکتی ہے۔ اپنے محبوب کے ساتھ نیلی اور سبز بسوں سے اترتی چڑھتی، ںمبئی کی تنگ و تاریک گلیوں میں مٹر گشت کر رہی ہے۔ انہیں تصور کروں تو یو ں لگتا ہے کہ جیسے بس دو روحیں کسی انجان جزیرے میں مل گئی ہیں۔ محبت کی اس کہانی کا اچھوتا پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں دوسری محبت کی کہانیوں کی طرح کوئی وعدہ، عہد یا مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے چلتے چلتے کوئی سر راہ مل جائے اور پھر ویسے ہی بچھڑ بھی جائے۔
لکھنے والوں نے پریم کہانیاں لکھنی ترک کردی ہیں کیونکہ ہر کوئی کچھ زیادہ "بڑا” یا زیادہ "جدید” لکھنا چاہتا ہے۔ ہم محبت کی کہانیوں کی کوملتا اور ان کی فضا سے دور ہوچکے ہیں۔ حالانکہ علامتوں کے گورکھ دھندوں، کردار کی پیچیدگیوں اور پلاٹ کی تہوں میں قاری کو آزمانے کی بجائے ایسا ناول بھی لکھا جا سکتا ہے جو کچھ دیر دل و دماغ میں ٹھہرا رہے اور پڑھنے والا اسے سوچ کر مسکراتا رہے۔
صنوبر الطاف