جراثیم کی روٹی پانی کا اہتمام
جراثیم کی روٹی پانی کا اہتمام
۔۔۔۔۔۔۔۔
یادش بخیر، جب میں راولپنڈی میں رہائش پذیر تھا تو میرے گھر کے سامنے ایک دلچسپ سا پڑوسی رہتا تھا۔ سوائے میرے، سارے محلے سے اس کی بول چال بند تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس کے مذہبی، سماجی اور علمی نظریات ایسے تھے کہ ہر "معقول” آدمی اس کے پاس بیٹھنے سے کنی کتراتا تھا۔ بقول اس کے، میں واحد محلے دار تھا جسے اس نے پچھلے دس برس میں گھر بٹھا کر چائے پلائی ہے۔ میں اس لیے اسے ملنے چلا جاتا کہ دوران گفتگو اس سے کئی ایسی دلچسپ باتیں سرزد ہو جاتیں کہ جو مزاحیہ شاعری کے لیے مجھے مواد فراہم کرتی تھیں۔
اس کی مذہبی لایعنیت سے لطف اٹھانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ میں جواباً ایسے سوال داغتا تھا کہ جن کے جاہلانہ جوابات سن کر میری طبیعت باغ باغ ہو جاتی۔ انھی لمحات میں وہ مجھے باور کراتا کہ روئے زمین پر سوائے اس کے، کوئی مسلمان رہتا ہی نہیں ہے۔ نہ جانے کیوں، اس کے منہ سے خود کو دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا سن کر بہت مزہ آتا تھا۔ بے وزن شاعر جیسا اعتماد میں نے اس بندے کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھا۔ وہ اپنی وضع قطع کا ایسا موٹیویشنل سپیکر تھا کہ جو ہر اس ٹاپک پر فرفر بولتا تھا جس کی الف ب کا بھی اس کو علم نہیں تھا۔ گلی محلے کے لوگ میرے وہاں بیٹھنے کو دل سے برا سمجھتے تھے۔
کئی بار اردو محاوروں میں آنے والے جانور اور پرندے بدل دیتا تھا۔ اپنا کوا سیدھا کرنا بھی انھی ہونٹوں سے پہلی بار سنا۔ جیسا دیس، ویسی بھینس سے لے کر ضرورت کے وقت گھوڑے کو باپ بنانا وغیرہ سن کر کئی دن تک میرے کان بھی مسکراتے رہتے تھے۔
وہ کتابوں سے متعلق کام والی سرکاری نوکری کرتا تھا۔ لہذا اپنی کسی بات، کسی نظریے اور کسی یاوہ گوئی کی پروف ریڈنگ کا بالکل قائل نہیں تھا۔ ایک بار کسی گہرے فلسفیانہ ڈمپل میں ایسے گرا کہ مجھے کہنے لگا۔۔۔
"میری یہ عادت ہے کہ میں جب بیمار ہوتا ہوں تو ان دنوں میں روٹی معمول سے زیادہ کھاتا ہوں"
اس کی وجہ پوچھنے پر موصوف نے بہت تاریخی بات کہی۔ بقول اس کے
"بیماری کی حالت میں انسانی جسم میں زاید جراثیم داخل ہو جاتے ہیں. یہ جراثیم ہمارے لیے ایک طرح کے خدائی مہمان ہوتے ہیں۔ چونکہ مہمانوں کو کھانا کھلانا انسان پر واجب ہوتا ہے اس لیے میں زاید روٹیاں اور زاید سالن کھاتا ہوں تو کہ ان جراثیموں کو کھانے کے لیے "نان نقفہ” مل سکے”۔
ڈاکٹر عزیز فیصل