top header add
kohsar adart

کسی استاد یا سکول نے نہیں، عمران سیریز نے پڑھتے رہنے پہ اکسایا

میرا تعلق سندھ کے ایک دیہات سے ہے۔ میرے گاؤں میں ایک پرائمری سکول تھا، جہاں رسمی سی پڑھائی ہوتی تھی۔ (یہ صورت حال سندھ کے اکثر دیہات کی ہے) وہاں اساتذہ بھی پسند اور رجحان کی وجہ سے شعبہ تدریس سے وابستہ نہیں ہوتے۔  پانچویں جماعت کے بعد اپنے گاؤں کے نزدیک ایک دوسری آبادی ویہڑ کے مڈل سکول سے آٹھویں جماعت جیسے تیسے پاس کی۔ (وہاں بھی اساتذہ اور ان کا انداز تدریس مجھے متاثر کن نہیں لگا یا یوں کہیے کہ میں ہی اچھا شاگرد نہیں تھا)۔ ابو، امی نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے شہر بھیجا مگر وہاں بھی وہ ماحول نہیں تھا کہ اساتذہ والدین جیسے ہمدرد اور شفیق ہوں۔ یوں سکول میں دلچسپی بہت کم ہو گئی بس کبھی کبھی سکول کا چہرہ دیکھ آتا تھا۔

شاعری اور کہانیاں پڑھنے کا بے حد شوق تھا ۔ کراچی سے نکلنے والا  "شمع میگزین” جسے قیام دھلوی کراچی سے نکالتے تھے اور  "آداب عرض” ڈائجسٹ جسے خالد بن حامد 80 نسبت روڈ لاہور سے نکالا کرتے تھے، میرے پسندیدہ تھے اور ان میں باقاعدگی سے میں کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا۔  اس دور میں سب رنگ ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ، ایڈونچر ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ وغیرہ باقاعدگی سے ماہانہ خرید کر پڑھا کرتا تھا۔ رسالے، ڈائجسٹ اور کتابیں دیکھنے کا شوق تھا مگر کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس نے صبر سے بیٹھ کر پڑھنا سکھایا ہو۔

ان کتابوں، رسالوں، کہانیوں اور ناولوں نے مجھے آنے والے وقت کے لیے تیار کیا اور دورِ افلاس میں خوشحالی کے خواب دیکھنے پر ابھارا۔  ایسے خواب جن کی تعبیروں کی کھوج آج بھی زنجیر پا ہے۔


یاد نہیں کب، کیسے اور کہاں سے ایک دن ابنِ صفی کی جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے کچھ ناول ہاتھ آ گئے۔ پڑھ  کر دیکھا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ کیا سحر انگیز انداز تحریر تھا، ندرت تھی، ایڈونچر تھا۔ یوں عمران سیریز اوڑھنا بچھونا بن گئے۔ یہاں تک کہ کئی بار باتھ روم میں بھی ناول ہمراہ ہوتا۔ اس دور میں پاکستان چوک، لاڑکانہ سے ملحق اردو بولنے والے ایک نفیس انسان مزمل بھائی کا اخباروں کا ٹھیلہ ہوتا تھا، جو کتابیں کرایہ پر بھی دیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے باقاعدگی سے عمران سیریز لے کر پڑھنا شروع کر دیا۔ کبھی کبھار جیب اجازت دیتی تو سٹیشن کے ادبی بک سٹال سے مظہر کلیم یا صفدر شاہین کے لکھے ہوئے نئے ناول بھی خرید لیا کرتا تھا۔ جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔

میرا ایمان ہے کہ کتابیں انسان کے اندر کے کھوکھلے پن کو زندگی، رعنائی اور خوابوں سے بھر دیتی ہیں۔ شاید آپ کا بھی مشاہدہ ہو کہ علم و ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو اور ماحول کو بہتر بنانے کی شعوری سعی کرتے ہیں۔  وہ حالات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ان کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔  ظلم و جبر سے مرعوب ہونے کے بجائے بغاوت کا رویہ اپناتے ہوئے سنت حسینی پر عمل کرتے ہیں۔

عمران سیریز کی جاسوسی دنیا کی کتابوں نے مجھے نہ صرف پڑھنے پر اکسایا بلکہ کتابوں سے مزہ لینا بھی سکھایا۔ پھر موضوعات بدلتے رہے مگر کتابوں کی عادت اور شوق بڑھتا رہا۔ میں مسلسل پڑھتا رہا اسی شوق کے سبب سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا اور اسی فیلڈ میں اپنا مستقبل بنانے کے لیے رسالوں، اخبارات، اور ڈائجسٹوں میں لکھتا رہا۔ کبھی کبھی اچھے سے اچھی کتابیں بھی تھکا دیتی ہیں اور بندہ اکتا جاتا ہے مگر عمران سیریز پڑھنے میں جو مزہ اور سکون پہلے آتا تھا اب پہلے سے کچھ زیادہ ہی آتا ہے اور ان سے اکتانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

عمران کا کردار ابن صفی نے تخلیق کیا تھا جو ہندستان اور پاکستان کے مشہور و معروف جاسوسی ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی لکھی ہوئی عمران سیریز اور کرنل فریدی کی جاسوسی دنیا نے دنیا بھر میں تہلکہ مچایا۔ ابن صفی ایک افسانہ نگار، شاعر اور کہانیکار بھی تھے مگر ان کی وجہہ شہرت اور پہچان بہرحال جاسوسی ناول کی ہی مانی جاتی ہے۔ انہوں نے دو سو پچاس جاسوس ناول لکھ کر ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ انہیں ایشیا کا سب سے بڑا جاسوسی ناول نگار مانا جاتا ہے۔


اسرار احمد المعروف ابن صفی کا جنم 26 جولائی 1928ء کو اتر پردیش کے شہر الٰہ آباد کے ایک گاؤں نارا کے ساکن صفی اللہ کے ہاں ہوا ان کی والدہ کا نام مسمات نظیراں تھا۔ ابنِ صفی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں نارا کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ میٹرک ڈی اے وی سکول الہ آباد سے پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچن کالج سے حاصل کی۔ 1947ء میں الہ آباد جامعہ آگرہ سے گریجویشن کی۔ اسی سال متحدہ ہندستان کا بٹوارا ہوا تو ان کے والد ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور لالو کھیت کے سی ون میں رہائش اختیار کی جبکہ ان کے گھر کے کچھ افراد پیچھے ہندوستان رہ گئے۔

معروف مدیر عباس حسینی نے ستمبر 1948ع میں "ماہنامہ نکہت” کا آغاز کیا جس میں ابن صفی کو شعبہ شاعری کا نگران مقرر کیا اور اسی سال "فرار” کے عنوان سے ان کی پہلی کہانی نکہت میں چھپی جسے کافی پزیرائی ملی۔ 1949ع ابنِ صفی اسلامیہ پرائمری اسکول میں استاد مقرر ہوئے اور دو سال بعد یادگار حسینی پرائمری اسکول میں بھی دو ڈھائی سال تک پڑہاتے رہے مگر ادبی دنیا میں قدم رکھتے ہی کامیابی ملنے کے سبب اس نے نوکری چھوڑدی اور اپنے آپ قلم کے حوالے کردیا اور بریصغیر میں اپنے زرخیز ذہن سے ادبی کاوشوں میں وہ ہلچل مچائی جس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ابنِ صفی کے ناولوں کی بڑہتی ہوئی مانگ کے سبب ہندستان بھر میں بیشمار جعلی ناشروں نے ان کے نام سے کتابیں لکھہ لکھہ کر سرمایہ بنایا۔

ہندستان میں ان کے ناول عباس حسینی کی نکہت پبلیکیشنز کے ہاں سے شایع ہوتے تھے جنہیں ابنِ صفی اپنے روحانی استاد مانتے تھے اور ان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہاراس طرح کیا تھا کہ "میں ایک درجن کتابیں عباس حسینی کی مسکراہٹ پر قربان کر سکتا ہوں”۔

ابن صفی کی تحریریں زندگی سے بھرپور ہوا کرتی تھیں جن میں موجود مزاحیہ رس چس کو قارئین بہت پسند کرنے لگے۔ ابنِ صفی سنکی سولجر، طغرل فرغان وغیرہ کے قلمی ناموں سے مختلف اداروں اور اخباروں میں لکھنے لگے مگر عباس حسینی کے کہنے پر اس نے اپنا ادبی تخلص "ابنِ صفی” رکھا اور 1952ع میں جاسوسی ادب کی دنیا میں "دلیرمجرم” کے نام سے لکھہ کر داخل ہوا جس میں انسپیکٹرفریدی اور سارجنٹ حمید کو پہلی بار متعارف کرواکر اس کی سیریز لکھتے رہے۔ اس کا لکھا ہوا ناول پڑھہ مجھے لگتا تھا کہ دنیا میں سب کچھہ ممکن ہے اور انسان چاہے تو سب کچھہ کر سکتا ہے بس ارادے مظبوط و مستحکم ہوں اور منصوبہ بندی درست بنائی جائے۔

اب تک ابن صفی کرنل فریدی اور کیپٹن حمید کے کرداروں پر لکھتا رہا تھا۔ اگست 1955ع میں ابن صفی نے”خوفناک عمارت” کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا، جسے کرنل فریدی اور حمید کی طرح بہت ہی جلد مقبولیت حاصل ہوئی اور ملک کا ایک بڑا پڑھا لکھا حلقہ اس کا مداح بن گیا۔ علی عمران کے کردار اور ابنِ صفی میں ایک مماثلت یہ تھی کہ مصنف نے عمران کی عمر ستائیس سال لکھی جبکہ خود ابن صفی کی عمر بھی اس سال 27 سال بنتی تھی۔

25 اگست 1952ء کو ابنِ صفی اپنی ہمشیرہ اور والدہ کے ساتھ پاکستان آ گئے اور اپنے والد کے ساتھ لالو کھیت میں رہنے لگے۔ مگر بعد ازاں بھی ان کے لکھے ہوئے ناول نکہت پبلیکیشنز، الہ آباد کے پلیٹ فارم سے عباس حسینی شائع کرتے رہے۔ پاکستان میں بھی ابنِ صفی نے بہت نام اور مقام کمایا۔ پہلے ہندستان سے اس کے ناول چھپتے رہے تو ہجرت کے بعد پاکستان سے مگر "بھیانک آدمی” ابنِ صفی کا وہ ناول تھا جسے نومبر 1955ء میں کراچی پاکستان اور الٰہ آباد ہندستان سے بیک وقت شائع کیا گیا۔ ابن صفی کے لکھے ہوئے جاسوسی ناولوں کی مانگ بڑھتی گئی تو پبلشروں کے نخروں سے تنگ آکر ابن صفی نے اپنے اصلی نام سے ” اسرار پبلیکیشنز” قائم کی جس کے تحت ان کا پہلا ناول "ٹھنڈی آگ” شائع کیا اور پھر وہ ساری زندگی اپنے ادارے سے اپنی کتابیں چھاپتے رہے۔ ان کے تخلیقی کام اور اشاعتی سرگرمیوں کے لیے وہ گھر چھوٹا اور حالات موزوں نہ رہے تو جنوری 1959ء میں ابن صفی لالو کھیت سے اپنا تمام ادبی بوریا بستر اور پبلیکیشنز لے کر ناظم آباد کی فردوس کالونی منتقل ہو گئے۔

ابن صفی دن رات لکھتا رہتا تھا۔ اسے عمران اور لکھنے سے عشق تھا۔ دوسرا اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے بھی اسے لکھنا تھا۔ اس وقت آج کی طرح تحریر و طباعت کار سہل نہ تھا۔ کاغذ، دوات اور رسمی سامان کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ پہلو بدل بدل کر لکھنا اور لکھتے رہنا اس کا کام اور کاروبار تھا۔ مسلسل لکھنے اور کم آرامی کے سبب 1960ء سے 1963ء تک ابن صفی شیزو فرینیا کے مرض میں مبتلا رہے مگر حکیم محمد اقبال حسین کے علاج سے صحت یاب ہوئے اور پھر باقاعدگی سے لکھنے لگے۔ 17 ستمبر 1979ء کی رات کو ان پر درد کا شدید حملہ ہوا جس کے بعد صحت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور دہ ماہ بعد نومبر 1979ء میں لبلبے کا کینسر تشخیص ہونے پر انہیں جناح ہسپتال کراچی داخل کرنا پڑا۔ کئی ماہ سے کینسر کے موذی مرض سے نبرد آزما ابنِ صفی کو 24 جولائی 1980ء کو بخار ہوا اور ان کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب ہو گئی۔  دو دن تک حیات و موت کی کشمکش میں متبلا رہنے کے بعد 25 اور 26 جولائی 1980ء کی درمیانی شب ادبی دنیا کا یہ ذہین ترین استعارہ اس جہاںِ فانی سے کوچ کر گیا۔ 26 جولائی کی صبح پاپوش نگر قبرستان میں مشہور مصنف، پبلشر اور اس کے قریبی دوست مشتاق احمد قریشی نے انہیں لحد میں اتارا اور ہزاروں پرستاروں کی پرنم آنکھوں کے سامنے مالک کے حوالے کردیا۔

ابن صفی کی عمران سیریز اور کرنل فریدی کے کرداروں پر تقریبا دو سو سے زیادہ لکھاریوں نے طبع آزمائی کی، جن میں نجمہ صفی (این صفی)، مظہر کلیم ایم اے، صفدر شاہین، ایم اے راحت، اظہر کلیم، ابن کلیم، ایم اے ساجد، میجر ممتاز، ایم اے پیر زادہ، حاتم علی، ایس ایم قادری، اسلم راہی ایم اے وغیرہ اہم مانے جاتے ہیں۔ صفدر شاہین نے ابن صفی کی جاسوسی دنیا کو آگے بڑھاتے ہوئے تین سو سے زیادہ ناول لکھے۔ مرغوب علی راحت المعروف ایم اے راحت نے عمران سیریز پر سب سے زیادہ ناول لکھے اور ان کے بارے میں قارئین کا خیال ہے کہ وہ عمران سیریز کے بہترین مصنف تھے۔ ان لکھاریوں نے ابن صفی کے کرداروں کے علاوہ بھی کافی کردار متعارف کروائے جیسا کہ اظہر کلیم نے حاتم علی، ابن کلیم نے عمرانہ، ایم ایس قادری نے بلیک پینتھر کے دو کردار، صفدر شاہین نے کیپٹن بابر وغیرہ۔

ابن صفی کا عمران سیریز کے لیے لکھا ہوا آخری ناول "آخری آدمی” تھا، جس کی آخری سطر تھی،  "میں بہت تھک گیا ہوں اور اب سونا چاہتا ہوں ۔۔ بہت گہری نیند”۔

"اور پھر سو گئے خواب سے دنیا کو جگانے والے”۔

ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا شجر اس قدر تناور ہو گیا کہ آج کی موجودہ نسل کے لیے بھی یہ ثمر بار ثابت ہو رہا ہے اور آج بھی کئی مصنفین اس کے کرداروں پر طبع آزمائی کر کے اس کی جاسوسی دنیا کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام لکھاریوں میں سے ابن صفی کے تخلیقی ذہن سے کسی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ یی علی عمران کے کردار کے ساتھ کسی نے ایسا انصاف کیا جیسا اسے ابنِ صفی نے بحال رکھا تھا۔

 

آصف رضا موریو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More